الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
نماز کے احکام
नमाज़ के नियम
10. باب صلاة الجماعة والإمامة
10. نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان
१०. “ जमाअत के साथ नमाज़ पढ़ना और इमामत के नियम ”
حدیث نمبر: 326
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن عمرو بن سلمة رضي الله عنه قال: قال ابي: جئتكم والله من عند النبي صلى الله عليه وآله وسلم حقا فقال: «‏‏‏‏فإذا حضرت الصلاة فليؤذن احدكم وليؤمكم اكثركم قرآنا» . قال: فنظروا فلم يكن احد اكثر قرآنا مني،‏‏‏‏ فقدموني بين ايديهم،‏‏‏‏ وانا ابن ست او سبع سنين. رواه البخاري وابو داود والنسائي.وعن عمرو بن سلمة رضي الله عنه قال: قال أبي: جئتكم والله من عند النبي صلى الله عليه وآله وسلم حقا فقال: «‏‏‏‏فإذا حضرت الصلاة فليؤذن أحدكم وليؤمكم أكثركم قرآنا» . قال: فنظروا فلم يكن أحد أكثر قرآنا مني،‏‏‏‏ فقدموني بين أيديهم،‏‏‏‏ وأنا ابن ست أو سبع سنين. رواه البخاري وأبو داود والنسائي.
سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میرے والد نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سے حق لے کر آ رہا ہوں ان کا ارشاد گرامی ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور امامت ایسا شخص کرائے جو قرآن حمید کا زیادہ عالم ہو۔ عمرو نے کہا میری قوم نے دیکھا میرے سوا کوئی دوسرا قرآن کا عالم نہیں ہے تو انہوں نے مجھے آگے کر دیا۔ اس وقت میری عمر چھ سات برس کی تھی۔ (بخاری، ابوداؤد، نسائی)
हज़रत अमरो बिन सलमा रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि मेरे पिता ने अपनी क़ौम (जाति) से कहा कि में तुम्हारे पास रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के हाँ से सत्य ले कर आ रहा हूँ उन का कहना है कि “जब नमाज़ का समय हो जाए तो तुम में से कोई एक अज़ान कहे और इमामत ऐसा व्यक्ति कराए जिसे क़ुरान हमीद का अधिक ज्ञान हो ।” अमरो ने कहा मेरी क़ौम (जाति) ने देखा मेरे सिवा किसी दूसरे को क़ुरान का अधिक ज्ञान नहीं है तो उन्हों ने मुझे आगे कर दिया । उस समय मेरी उमर छे सात बरस की थी । (बुख़ारी, अबू दाऊद, निसाई)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المغازي، باب (54)، حديث:4302، وأخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:585-587، والنسائي، الأذان، حديث:637.»

Narrated 'Amr bin Salimah (RA): My father said, "I have come from the true Prophet (ﷺ), so when the time of Salat (prayer) comes one of you should announce the Adhan and the one of you who knows the Qur'an most should be your Imam." He ('Amr) said: "They looked around and there was no one who knew the Qur'an more than I. So they put me forward in front of them and I was only six or seven years old." [Reported by al-Bukhari, Abu Dawud and an-Nasa'i].
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 326  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میرے والد نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سے حق لے کر آ رہا ہوں ان کا ارشاد گرامی ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور امامت ایسا شخص کرائے جو قرآن حمید کا زیادہ عالم ہو۔ عمرو نے کہا میری قوم نے دیکھا میرے سوا کوئی دوسرا قرآن کا عالم نہیں ہے تو انہوں نے مجھے آگے کر دیا۔ اس وقت میری عمر چھ سات برس کی تھی۔ (بخاری، ابوداؤد، نسائی) «بلوغ المرام/حدیث: 326»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب (54)، حديث:4302، وأخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:585-587، والنسائي، الأذان، حديث:637.»
تشریح:
1. اس حدیث نے امام کے لیے ایک اصول مقرر کیا ہے کہ جو قرآن مجید کا زیادہ قاری ہو امامت کے منصب کے لیے اسی کا انتخاب کیا جائے جیسا کہ عمرو رضی اللہ عنہ کو اس کی قوم کے لوگوں نے منتخب کیا۔
2.اس حدیث سے ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ امامت کا منصب اذان کے منصب سے افضل ہے‘ اس لیے کہ مؤذن کے لیے کسی قسم کی شرط نہیں لگائی گئی‘ وہ صرف حسن صوت اور بلند آواز والا ہونا چاہیے۔
چھ سات سالہ بچے کو امام مقرر کرنا صرف اسی وجہ سے تھا کہ اسے دوسروں کے مقابلے میں قرآن زیادہ یاد تھا۔
حسن بصری‘ امام شافعی ‘ ابن راہویہ اور اہلحدیث اسی کے قائل ہیں کہ نابالغ لڑکے کی امامت میں بڑے‘ بوڑھے لوگوں کی نماز درست ہے‘ مگر امام مالک اور امام ثوری; وغیرہ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔
امام احمد اور امام ابوحنیفہ; سے دو قول منقول ہیں۔
دونوں میں سے مشہور قول یہ ہے کہ بچے (نابالغ) کی امامت میں نفل نماز درست ہے اور فرض نماز جائز نہیں۔
یہ حضرات کہتے ہیں کہ عمرو بن سلمہ کو امام نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے تحت مقرر کیا گیا اور نہ آپ سے پوچھ کر اس کا انتخاب کیا گیا۔
یہ دلیل اتنی وزنی نہیں کہ اسے درخور اعتنا سمجھا جائے۔
اس کا تقرر و انتخاب اگر درست نہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذریعۂوحی لازماً اسے آئندہ کے لیے روک دیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔
چونکہ اس کا تعلق اسلام کے بڑے اہم رکن نماز سے تھا‘ اس لیے اگر یہ درست نہ ہوتا تو اسے ضرور ممنوع قرار دے دیا جاتا‘ یا پھر نفلی اور فرضی امامت کی وضاحت کر دی جاتی کہ نفل میں اس کی گنجائش ہے‘ فرض میں نہیں۔
ایسا بھی کہیں نہیں‘ لہٰذا قرین صواب یہی ہے کہ ضرورت کے وقت ایسا کرنا بلا کراہت درست ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث:
«عمر و بن سَلِمَہ رضی اللہ عنہما» ‏‏‏‏ سلمہ کے لام کے نیچے کسرہ ہے۔
جرم قبیلہ سے ہونے کی وجہ سے جرمی کہلائے۔
ابویزید یا ابوبرید (تصغیر کے ساتھ) کنیت ہے۔
اپنے والد کی معیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے۔
اس وقت ان کی عمر چھ‘ سات برس تھی۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے۔
عمرو بن سلمہ اور قبیلہ ٔبنو سلمہ کے علاوہ باقی تمام جگہ سلمہ کے لام پر فتحہ ہے اور ان دونوں میں لام کے نیچے کسرہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 326   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.