الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
The Book of Tayammum (Rubbing Hands and Feet with Dust)
4. بَابُ الْمُتَيَمِّمُ هَلْ يَنْفُخُ فِيهِمَا:
4. باب: اس بارے میں کہ کیا مٹی پر تیمم کے لیے ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں کو پھونک کر ان کو چہرے اور دونوں ہتھیلوں پر مل لینا کافی ہے؟
(4) Chapter. Can a person blow off the dust from his hands in performing Tayammum (before passing them over his face).
حدیث نمبر: 338
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، حدثنا الحكم، عن ذر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، قال: جاء رجل إلى عمر بن الخطاب، فقال: إني اجنبت فلم اصب الماء؟ فقال عمار بن ياسر لعمر بن الخطاب: اما تذكر انا كنا في سفر انا وانت، فاما انت فلم تصل، واما انا فتمعكت فصليت، فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنما كان يكفيك هكذا، فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بكفيه الارض ونفخ فيهما، ثم مسح بهما وجهه وكفيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبِ الْمَاءَ؟ فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَمَا تَذْكُرُ أَنَّا كُنَّا فِي سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ، فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فَصَلَّيْتُ، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا، فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَفَّيْهِ الْأَرْضَ وَنَفَخَ فِيهِمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حکم بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے ذر بن عبداللہ سے، انہوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے باپ سے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا (تو میں اب کیا کروں) اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔

Narrated `Abdur Rahman bin Abza [??]: A man came to `Umar bin Al-Khattab and said, "I became Junub but no water was available." `Ammar bin Yasir said to `Umar, "Do you remember that you and I (became Junub while both of us) were together on a journey and you didn't pray but I rolled myself on the ground and prayed? I informed the Prophet about it and he said, 'It would have been sufficient for you to do like this.' The Prophet then stroked lightly the earth with his hands and then blew off the dust and passed his hands over his face and hands."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 334


   صحيح البخاري343عبد الرحمن بن أبزىضرب النبي بيده الأرض فمسح وجهه وكفيه
   صحيح البخاري339عبد الرحمن بن أبزىضرب بيديه الأرض ثم أدناهما من فيه ثم مسح بهما وجهه وكفيه
   صحيح البخاري338عبد الرحمن بن أبزىيكفيك هكذا فضرب النبي بكفيه الأرض ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه
   صحيح مسلم820عبد الرحمن بن أبزىيكفيك أن تضرب بيديك الأرض ثم تنفخ ثم تمسح بهما وجهك وكفيك
   سنن أبي داود327عبد الرحمن بن أبزىضربة واحدة للوجه والكفين
   سنن أبي داود322عبد الرحمن بن أبزىيكفيك أن تقول هكذا وضرب بيديه إلى الأرض ثم نفخهما ثم مسح بهما وجهه ويديه إلى نصف الذراع
   سنن النسائى الصغرى319عبد الرحمن بن أبزىيكفيك وضرب بكفه ضربة ونفخ فيها ثم دلك إحداهما بالأخرى ثم مسح بهما وجهه
   سنن النسائى الصغرى320عبد الرحمن بن أبزىيكفيك وضرب النبي بيديه إلى الأرض ثم نفخ فيهما فمسح بهما وجهه وكفيه
   سنن النسائى الصغرى317عبد الرحمن بن أبزىالصعيد لكافيك وضرب بكفيه إلى الأرض ثم نفخ فيهما ثم مسح وجهه وبعض ذراعيه
   سنن النسائى الصغرى313عبد الرحمن بن أبزىيكفيك فضرب النبي يديه إلى الأرض ثم نفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه لا يدري فيه إلى المرفقين أو إلى الكفين
   سنن النسائى الصغرى318عبد الرحمن بن أبزىيكفيك هكذا وضرب بيديه على ركبتيه ونفخ في يديه ومسح بهما وجهه وكفيه مرة واحدة
   سنن ابن ماجه569عبد الرحمن بن أبزىيكفيك وضرب النبي بيديه إلى الأرض ثم نفخ فيهما ومسح بهما وجهه وكفيه
   سنن أبي داود324عبد الرحمن بن أبزىإنما كان يكفيك، وضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيده إلى الارض
   مسندالحميدي144عبد الرحمن بن أبزىإنما كان يكفيك من ذلك التيمم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 322  
´تیمم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: بسا اوقات ہم کسی جگہ ماہ دو ماہ ٹھہرے رہتے ہیں (جہاں پانی موجود نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہو جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب تک مجھے پانی نہ ملے میں نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ کہتے ہیں: اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹوں میں تھے (اونٹ چراتے تھے) اور ہمیں جنابت لاحق ہو گئی، بہرحال میں تو مٹی (زمین) پر لوٹا، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں بس اس طرح کر لینا کافی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمار! اللہ سے ڈرو ۱؎، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! اگر آپ چاہیں تو قسم اللہ کی میں اسے کبھی ذکر نہ کروں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، قسم اللہ کی ہم تمہاری بات کا تمہیں اختیار دیتے ہیں، یعنی معاملہ تم پر چھوڑتے ہیں تم اسے بیان کرنا چاہو تو کرو۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 322]
322. اردو حاشیہ:
 اس میں کلائی تک کے الفاظ شیخ البانی کے نزدیک شاذ (غیر صحیح) ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 322   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 324  
´تیمم کا بیان۔`
اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن ابزی سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں بس اتنا کر لینا کافی تھا، اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اس میں پھونک مار کر اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیر لیا، سلمہ کو شک ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ اس میں «إلى المرفقين» ہے یا «إلى الكفين‏.» (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہنیوں تک پھیرا، یا پہونچوں تک)۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 324]
324. اردو حاشیہ:
 اس روایت میں  «كفّين»  یعنی ہاتھوں کا ذکر ہی صحیح طور پر محفوظ ہے، نہ کہ کہنیوں تک کا (شیخ البانی رحمہ اللہ) جیسے کہ حدیث (326) میں آ رہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 324   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 313  
´حضر میں (دوران اقامت) تیمم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا، (کیا کروں؟) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (غسل کئے بغیر) نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ دونوں ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، تو ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، اور رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے ہم نے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا - سلمہ کو شک ہے، وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس میں مسح کا ذکر دونوں کہنیوں تک ہے یا دونوں ہتھیلیوں تک - (عمار رضی اللہ عنہ کی بات سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 313]
313۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا ایک اجتہادی عمل تھا اور شاید اس بنا پر تھا کہ تیمم بھی غسل کی جگہ کفایت کر سکے گا جب وہ اس کی مثل ہو، یعنی پورے بدن پر مٹی لگے۔
➋ اگر اجتہاد کرنے والے سے غلطی ہو جائے تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔
➌ جو آدمی اپنے اجتہاد سے کوئی عمل کر لے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس کا عمل قرآن وسنت کے منافی تھا تو اس کے لیے اسے دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں۔
➍ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں تک ایک ضرب کے ساتھ ہے۔ دو ضرب اور کہنیوں تک کی روایات کلام سے خالی نہیں، اس لیے محدثین نے ایک ضرب کے ساتھ ہتھیلیوں تک تیمم کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ صحیح ترین روایات ہیں۔ احناف نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا ہے اور ان روایات کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ بتلایا ہے کہ وضو والا تیمم ہی غسل کے لیے کافی ہے۔ تیمم کا طریقہ بتلانا مقصود نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بیان کرنے والے صحابہ نے تو یہ مفہوم نہیں سمجھا۔ حاضرین کا فہم معتبر ہے یا غیر حاضرین کا؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک ضرب اور ہتھیلیوں تک تیمم کافی ہے، البتہ دو ضرب کے ساتھ کہنیوں تک افضل اور مستحب ہے لیکن یہ تطبیق بھی محل نظر ہے کیونکہ استحباب اور افضلیت کے اثبات کے لیے صحیح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ تیمم سے متعلق دیگر احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ۔
➎ حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہا غسل کی جگہ تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے، مگر یہ صرف ان کی احتیاط تھی ورنہ قرآن مجید میں آیت تیمم کے اندر جنابت سے بھی تیمم کی اجازت ہے۔ دیکھیے: [النسآء 43: 4 و المائدة 6: 5]
➏ مذکورہ حدیث پر بعض نسخوں میں عنوان قائم نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے پہلے والی حدیث پر بھی یہی عنوان قائم کیا گیا ہے جس سے یہ محض تکرار ہی محسوس ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 313   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث569  
´تیمم میں زمین پر ضرب (ہاتھ مارنا) ایک بار۔`
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا، اور نبی اکرم صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 569]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے تیمم کا طریقہ معلوم ہوا کہ پاک زمین پر ہاتھ مار کر ان پر پھونک مارلی جائے پھر وہ ہاتھ چہرے پر پھیر لیے جائیں اور پھر دونوں ہاتوں کو ایک دوسرے پر پھیر لیا جائے تو تیمم مکمل ہوجاتا ہے۔
بازوؤں اور پاؤں پر ہاتھ پھیرنے کی ضرورت نہیں، نہ سر اور کانوں کا مسح کیا جائےگا۔

(2)
یہ تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہوتا ہے اسی طرح غسل کا بھی قائم مقام ہوجاتا ہے۔
غسل کی حاجت ہونے کی صورت میں پورے جسم پر مٹی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔

(3)
جب کسی مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو تو اجتہاد کرنا جائز ہے۔

(4)
دو مجتہدین کے اجتہاد میں باہم اختلاف پایا جائے تو ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے۔

(5)
مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ اس غلطی کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوگا۔

(6)
رسول اللہﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو وہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا جو انھوں نے تیمم کے بجائے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر ادا کی تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر کیا جانے والا عمل بعد میں صحیح مسئلہ معلوم ہونے پردوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ آئندہ کے لیے صحیح مسئلہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔

(7)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد نہیں رہا اس لیے سائل کو نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا فقیہ غلط فہمی کا شکار ہو کر کسی مسئلہ میں غلط موقف اختیار کر سکتا ہے کیونکہ وہ معصوم نہیں لہٰذا اختلافی مسائل میں زیادہ قوی موقف کو ترجیح دینا چاہیے خواہ اس کا قائل کوئی بھی عالم ہو۔
کسی خاص عالم ہی کے قول کو اختیار کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔

(8)
تیمم میں زمین پر ہاتھ مار کر ان میں پھونک مارنے کا مقصد یہ ہے کہ زائد غبار اتر جائےکیونکہ مقصد صرف حکم کی تعمیل ہے جسم کو غبار آلود کرنا نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 569   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:338  
338. حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی فرماتے ہیں: ایک شخص حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے لیکن پانی نہیں مل سکا۔ اس موقع پر حضرت عمار بن یاسر ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں اور آپ دونوں سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تھے؟ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی تھی۔ پھر میں نے نبی ﷺ سے ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: تیرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ یہ فر کر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری، اس کے بعد آپ نے ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:338]
حدیث حاشیہ:
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب تک مٹی کا اثر تیمم کے وقت چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں نہ ہو اس وقت تک مٹی کا استعمال درست نہیں۔
بعض شوافع کا یہ بھی خیال ہے کہ تیمم کے لیے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ غبار ہاتھوں کو لگ جائے تب تیمم درست ہوگا، جبکہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی طرح مٹی کے اثرات کا چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں ہونا ضروری نہیں، مٹی سے آلودہ ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا طہارت ونظافت کے خلاف ہے، اس لیے تیمم کے لیے مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مار کر زائد مٹی کو اڑادیا جائے اس کے بعد چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا جائے۔
امام بخاری اس سلسلے میں جوروایت لائے ہیں وہ مختصر ہے کیونکہ روایت بخاری میں سائل کے جواب میں سیدنا عمر ؓ کا جواب منقول نہیں ہے البتہ دیگر طرق روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
جنابت کے بعد اگر پانی نہ مل سکے تو نماز نہ مل سکے تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
جیسا کہ سنن نسائی وغیرہ میں ہے کہ میں اگر پانی نہ پاؤں تو نماز نہیں پڑھتا ہوں تا آنکہ مجھے پانی میسر آجائے یعنی غسل کر کے نماز پڑھوں گا۔
(سنن النسائي، الطهارة، حدیث: 317)
بہرحال امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت سے ان کا مدعا پورا ہوتا ہے، کیونکہ اس میں ہاتھوں کو زمین پر مارنے کے بعد ان میں پھونک مارنے کی صراحت ہے۔
اب اس میں ایک اشکال ہے کہ جب روایت میں پھونک مارنے کی صراحت ہے تو امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل)
کیوں استعمال کیا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجرؒ نے بایں طور دیا ہے احتمال تھا کہ آپ کا پھونک مارنا مٹی کی وجہ سے ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ ہاتھ پر کسی تنکے وغیرہ کے لگ جانے کی بنا پر ہو یا رسول اللہ ﷺ پھونک مارنے کی مشروعیت بیان کرنا چاہتے ہوں، ان احتمالات کی بنا پر امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل)
استعمال فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 574/1)
امام بخاری کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جہاں احتمالات ہوں وہاں عنوان کو (هَل)
کے ساتھ مقید کر دیتے ہیں. بعض اوقات کسی خاص وجہ سے اللہ کے ہاں گرد و غبار کی بہت اہمیت ہوتی ہے، جیسا کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے وقت جو گردو غبار اڑتی ہے اور مجاہد کے قدموں پر یا نتھنوں میں پڑتی ہے۔
اسی طرح تیمم کا گرد و غبار بھی اللہ ہی کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا عقلی تقاضا ہے کہ اسے دور کرنے کے لیے پھونک نہ ماری جائے، امام بخاری ؒ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ عقلی تقاضے کے مقابلے میں نص پر عمل کیا جائے گا اور وہ ہے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مارنا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 338   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.