الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
24. بَابُ عَلاَمَةِ الْمُنَافِقِ:
24. باب: منافق کی نشانیوں کے بیان میں۔
(24) Chapter. The signs of a hypocrite.
حدیث نمبر: 34
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قبيصة بن عقبة، قال: حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا، اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر"، تابعه شعبة، عن الاعمش.(مرفوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا، اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ"، تَابَعَهُ شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ.
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے، وہ اعمش بن عبیداللہ بن مرہ سے نقل کرتے ہیں، وہ مسروق سے، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔ اس حدیث کو شعبہ نے (بھی) سفیان کے ساتھ اعمش سے روایت کیا ہے۔


Hum se Qabisah bin ’Uqbah ne yeh Hadees bayan ki, un se Sufyan ne, woh A’mash bin Ubaidullah bin Murrah se naql karte hain, woh Masrooq se, woh Abdullah bin Umar Radhiallahu Anhuma se riwayat karte hain ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke chaar aadatein jis kisi mein hon to woh khaalis munafiq hai aur jis kisi mein un chaaron mein se ek aadat ho to woh (bhi) nifaaq hi hai, jab tak use na chor de. (Woh yeh hain) jab use ameen banaaya jaaye to (amanat mein) khayanat kare aur baat karte waqt jhoot bole aur jab (kisi se) ahed kare to use poora na kare aur jab (kisi se) lade to gaaliyon par utar aaye. Is Hadees ko Sho’bah ne (bhi) Sufyan ke saath A’mash se riwayat kiya hai.

Narrated 'Abdullah bin 'Amr: The Prophet said, "Whoever has the following four (characteristics) will be a pure hypocrite and whoever has one of the following four characteristics will have one characteristic of hypocrisy unless and until he gives it up. 1. Whenever he is entrusted, he betrays. 2. Whenever he speaks, he tells a lie. 3. Whenever he makes a covenant, he proves treacherous. 4. Whenever he quarrels, he behaves in a very imprudent, evil and insulting manner."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 34


   صحيح البخاري2459عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا أو كانت فيه خصلة من أربعة كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   صحيح البخاري34عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان إذا حدث كذب إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   صحيح البخاري3178عبد الله بن عمروأربع خلال من كن فيه كن منافقا خالصا إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر من كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها
   صحيح مسلم210عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خلة منهن كانت فيه خلة من نفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا عاهد غدر إذا وعد أخلف إذا خاصم فجر
   جامع الترمذي2632عبد الله بن عمروأربع من كن فيه كان منافقا وإن كانت خصلة منهن فيه كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها من إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا خاصم فجر إذا عاهد غدر
   سنن أبي داود4688عبد الله بن عمروأربع من كن فيه فهو منافق خالص ومن كانت فيه خلة منهن كان فيه خلة من نفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   سنن النسائى الصغرى5023عبد الله بن عمروأربعة من كن فيه كان منافقا أو كانت فيه خصلة من الأربع كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا عاهد غدر إذا خاصم فجر
   مشكوة المصابيح56عبد الله بن عمرواربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 34  
´منافق کی نشانیوں کے بیان میں`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا، اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 34]

تشریح:
پہلی حدیث میں اور دوسری میں کوئی تعارض نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث میں «منافق خالص» کے الفاظ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جس میں چوتھی عادت بھی ہو کہ لڑائی کے وقت گالیاں بکنا شروع کرے تو اس کا نفاق ہر طرح سے مکمل ہے اور اس کی عملی زندگی سراسر نفاق کی زندگی ہے اور جس میں صرف ایک عادت ہو، تو بہرحال نفاق تو وہ بھی ہے۔ مگر کم درجے کا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایمان کی کمی و بیشی ثابت کرنا ہے جو ان احادیث سے ظاہر ہے نیز یہ بتلانا بھی کہ معاصی سے ایمان میں نقصان آ جاتا ہے۔

ان احادیث میں نفاق کی جتنی علامتیں ذکر ہوئی ہیں وہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھر عمل میں نفاق کا مظاہرہ ہو اور اگر نفاق قلب ہی میں ہے یعنی سرے سے ایمان ہی موجود نہیں اور محض زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے تو وہ نفاق تو یقیناً کفر و شرک ہی کے برابر ہے۔ بلکہ ان سے بڑھ کر۔ آیت شریفہ «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ» [النساء: 145] یعنی منافقین دوزخ کے نیچے والے درجے میں ہوں گے۔ یہ ایسے ہی اعتقادی منافقوں کے بارے میں ہے۔ البتہ نفاق کی جو علامتیں عمل میں پائی جائیں، ان کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ قلب کا اعتقاد اور ایمان کا پودا کمزور ہے اور اس میں نفاق کا گھن لگا ہوا ہو خواہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بنا ہوا ہو، اس کو عملی نفاق کہتے ہیں۔

نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔ شرع میں منافق اس کو کہتے ہیں جس کا باطن کفر سے بھرپور ہو اور ظاہر میں وہ مسلمان بنا ہوا ہو۔ رہا ظاہری عادات مذکورہ کا اثر سو یہ بات متفق علیہ ہے کہ محض ان خصائل ذمیمہ سے مومن منافق نہیں بن سکتا۔ وہ مومن ہی رہتا ہے۔

امانت سے مراد امانت الٰہی یعنی حدود اسلامی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اسی کے بارے میں فرمایا ہے۔ «إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ» [الاحزاب: 72] یعنی ہم نے اپنی امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر انہوں نے اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا۔ مگر انسان نے اس کے لیے اقرار کر لیا۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے اس کے بعد باہمی طور پر ہر قسم کی امانت مراد ہیں، وہ مالی ہوں یا جانی یا قولی، ان سب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور پورے طور پر ان کی حفاظت کرنا ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا بھی بڑی مذموم عادت ہے۔ خدا ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 56  
´منافق کی علامات`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذا خَاصم فجر» . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص میں یہ چاروں علامتیں موجود ہوں گی وہ خالص اور پکا منافق ہو گا اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک بات ہے تو نفاق کی ایک علامت ہو گی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے (وہ چار باتیں یہ ہیں) جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد و اقرار کرے تو اس کے خلاف کر کے اس کو توڑ دے اور جب جھگڑے تو گالی گلوچ بکے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 56]

تخریج:
[صحيح بخاري 34]،
[صحيح مسلم 210]

فقہ الحدیث:
➊ گالیاں دینا کبیرہ گناہ ہے۔
➋ سچا مسلمان کبھی غدار نہیں ہوتا۔
➌ اس حدیث میں منافق کی اہم اور مشہور چار خصلتیں بیان کی گئی ہیں، جب کہ کتاب و سنت میں اس کی مزید کئی عادات و اطوار کا ذکر ملتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 56   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2632  
´منافق کی پہچان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ (مکمل) منافق ہو گا۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: وہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2632]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا عمل منافقوں جیسا ہے۔
اس کے عمل میں نفاق ہے،
لیکن ہم اس کے منافق ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔
اسے اس کے ایمان میں جھوٹا ٹھہرا کر منافق قرار نہیں دے سکتے۔
ایسا تو صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوسکتا تھا۔
کیوں کہ آپ ﷺ صاحب وحی تھے،
وحی الٰہی کی روشنی میں آپﷺ کسی کے بارے میں کہہ سکتے تھے کہ فلاں منافق ہے مگر ہمیں اور آپ کو کسی کے منافق ہونے کا فیصلہ کرنے کاحق و اختیار نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4688  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4688]
فوائد ومسائل:
نفاق بنیادی طور پر قول وعمل کے شدید تضاد کا نام ہے، اگر کسی نے اقرارباللسان کیا، لیکن اس کے اعمال اس کے برعکس ہیں تو اس کا اقرار غیر حقیقی یا انتہائی کمزورہے۔
آپؐ نے جن چیزوں کو علامات نفاق قراردیا ہے وہ اعمال شنیعہ ہی ہیں۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ کسی پر مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا حکم اس کے دعوی اور اعمال کے مطابق لگایا جاسکتا ہے، لیکن بعض بنیادی عمل ایسے ہیں کہ صرف زبانی اقرار والے عموماان کا اہتمام نہیں کرسکتے۔
چاہے وہ بڑے بڑے اعمال جیسے نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے بھی ہوں، جہاں نیکی ایمان میں اضافے اور ترقی کا باعث بنتی ہے تو وہاں ہر گناہ اور برائی ایمان میں کمی لاتی ہے اور کسی مسلمان میں نفاق کی علامتوں کا پایا جانا ہی قبیح اور بڑا عیب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4688   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:34  
34. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہو گا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بھی ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو دغا بازی کرے اور جھگڑے تو بے ہودہ بکواس کرے۔ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کرنے میں (سفیان کی) متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:34]
حدیث حاشیہ:

شرک، ظلم کا فرد اعلیٰ ہے اور نفاق، کفرکا فرد اعلیٰ ہے اس میں کفر باللہ کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکا دینا بھی شامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عام کفار کے مقابلے میں اس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ بلا شبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔
(النساء: 4/145)
اسی مناسبت کی بنا پر کفر سے متعلقہ ابواب کے اختتام پر اسے ذکر کیا گیا ہے۔
پھر نفاق کی دوقسمیں ہیں۔
ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا ہوتا ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے جس کی نشاندہی صرف وحی سے ممکن ہے۔
دوسرا عملی نفاق ہے جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں واضح رہے کہ نفاق میں بھی کفر اور ظلم کی طرح مراتب ہیں بعض ادنیٰ ہیں اور بعض اعلیٰ، اعلیٰ مرتبہ تو نفاق اعتقادی کا ہے جس کا کفر ہونا محتاج بیان نہیں باقی مراتب عملی مراتب نفاق کے ہیں اور ان میں درجات کا تفاوت ہے جب ایمان کے اضداد میں یہ مراتب قائم ہیں تو ایمان میں بھی ضرور ہونے چاہئیں لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد واضح ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور معاصی ایمان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
اس سے بڑھ کر اور نقصان کیا ہو سکتا ہے کہ احادیث میں بیان کردہ افعال قبیحہ کے ارتکاب سے انسان زمرہ منافقین میں آجاتا ہے۔

نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔
یہ لفظ دراصل نافقاء سے لیا گیا ہے جو چوہے کی طرح ایک جانور کے بل کے پوشیدہ دروازے کا نام ہے جو بظاہر ہموار زمین کی طرح نظر آتاہے منافق بھی بظاہرمسلمان نظرآتا ہے مگراندورنی طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا محض دھوکا دینے کے لیے یہ روپ اختیار کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ﴾ اور جب وہ تمھارےپاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لیے آئے تھےاور اس کفر کے ساتھ ہی واپس ہو گئے۔
اور جو کچھ یہ چھپا رہے ہیں، اسے اللہ خوب جانتا ہے۔
(المائدة: 61/5 وشرح الکرماني: 147/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف نہیں ہے کہ ان خصائل کے اختیار کرنے سے ایک مومن انسان منافق بن جاتا ہے بلکہ ان کا مرتکب اس انسان کے اعتبار سے منافق ہے جس کے ساتھ نقض عہد کیا ہے۔
جس سے وعدہ خلافی کی ہے۔
جس کی امانت میں خیانت کی ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اصطلاح نفاق کو بیان نہیں فرما رہے بلکہ وہ ایمان میں کمی بیشی کے اثبات کے لیے کفروظلم میں کمی بیشی کا اثبات کر چکے ہیں اور اب نفاق میں اس کمی بیشی کا اثبات چاہتے ہیں تاکہ نفاق کے درجات کے اثبات سے ایمان میں بھی درجات کا اثبات کیا جائے نیز ان چیزوں کو نفاق کی علت نہیں کہا گیا کہ جس کی موجودگی میں معلول کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے بلکہ یہاں انھیں صرف علامت قراردیا گیا ہے اور ضروری نہیں کہ جہاں علامت موجود ہو وہاں اصل شئے بھی پائی جائے جیسے نبض کی تیزی بخار کی علامت ہے مگر کبھی قوت نفس کی بنا پر بھی نبض تیز ہو جاتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں نفاق کی تین علامتیں بیان ہوئی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق کی چار علامتیں ہیں ان چار میں دو علامتیں تو پہلی روایت کی ہیں اور دو علامتیں مزید ہیں۔
اس طرح کل پانچ علامتیں ہو جاتی ہیں۔

دروغ گوئی 2۔
خیانت 3۔
وعدہ خلافی 4۔
عہد شکنی 5۔
فجور۔
اگر غور کیا جائےتو ان پانچوں کو تین ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ وعدہ خلافی اور عہد شکنی میں مصداق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
اسی طرح فجوربھی دروغ گوئی کے تحت آسکتا ہے۔
ایسی صورت میں تین ہی خصلتیں باقی رہ جاتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کےاسلوب بیان سے معلوم ہو رہا ہے کہ علامات نفاق کا انحصار تین ہی میں ہے۔
کذب بیانی سے فساد قول، خیانت سے فساد عمل اور وعدہ خلافی سے فساد نیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
فساد نیت پر استدلال اس طرح ہے کہ وعدہ خلافی وہی معیوب ہے جس میں وعدہ کرتے وقت یہ نیت کرلی گئی ہو کہ اسے پورا نہیں کرنا ہے اور اگر پورا کرنے کی نیت ہو اور کوشش کے باوجود اس کا ایفا نہ ہو سکے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔
(فتح الباري: 122/1)

روایت کے آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اعمش سے بیان کرنے میں شعبہ نے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی متابعت کی ہے۔
اس متابعت کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قبیصہ عن سفیان کے طریق کو امام یحییٰ بن معین نے ضعیف قراردیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب اس کی متابعت موجود ہے تو اس طریق کو ضعیف قراردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے قبیصہ کے طریق کے علاوہ وکیع (حدَّثنا)
سفیان کا طریق بیان کیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 210(58)
پھر اعمش سے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ شعبہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے جسے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المظالم میں ذکر کیا ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر2458)
۔
لہٰذا اس روایت کے قابل حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
(فتح الباري: 123/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 34   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.