الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الأكابر
166. بَابُ إِذَا لَمْ يَتَكَلَّمِ الْكَبِيرُ هَلْ لِلأَصْغَرِ أَنْ يَتَكَلَّمَ‏؟‏
166. جب بڑا بات نہ کرے تو کیا چھوٹا بات کر سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 360
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مسدد، قال‏:‏ حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله قال‏:‏ حدثني نافع، عن ابن عمر قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”اخبروني بشجرة مثلها مثل المسلم، تؤتي اكلها كل حين بإذن ربها، لا تحت ورقها“، فوقع في نفسي النخلة، فكرهت ان اتكلم، وثم ابو بكر وعمر رضي الله عنهما، فلما لم يتكلما قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”هي النخلة“، فلما خرجت مع ابي قلت‏:‏ يا ابت، وقع في نفسي النخلة، قال‏:‏ ما منعك ان تقولها‏؟‏ لو كنت قلتها كان احب إلي من كذا وكذا، قال‏:‏ ما منعني إلا لم ارك، ولا ابا بكر تكلمتما، فكرهت‏.‏حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”أَخْبِرُونِي بِشَجَرَةٍ مَثَلُهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا، لاَ تَحُتُّ وَرَقَهَا“، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي النَّخْلَةُ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَثَمَّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا لَمْ يَتَكَلَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”هِيَ النَّخْلَةُ“، فَلَمَّا خَرَجْتُ مَعَ أَبِي قُلْتُ‏:‏ يَا أَبَتِ، وَقَعَ فِي نَفْسِي النَّخْلَةُ، قَالَ‏:‏ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَهَا‏؟‏ لَوْ كُنْتَ قُلْتَهَا كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا، قَالَ‏:‏ مَا مَنَعَنِي إِلاَّ لَمْ أَرَكَ، وَلاَ أَبَا بَكْرٍ تَكَلَّمْتُمَا، فَكَرِهْتُ‏.‏
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس درخت کے بارے میں بتاؤ جس کی صفت مسلمان کی طرح ہے۔ یہ ایسا درخت ہے جو اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ پھل دیتا ہے، وہ اپنے پتے نہیں گراتا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن مجلس میں سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی موجودگی اور خاموشی کی وجہ سے میں نے بات کرنا نامناسب سمجھا۔ جب ان دونوں بزرگوں نے کوئی جواب نہ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کھجور کا درخت ہے۔ جب میں اپنے باپ کے ساتھ نکلا تو میں نے کہا: ابا جان! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں یہ بتانے میں کیا رکاوٹ تھی؟ اگر تم بتا دیتے تو یہ میرے لیے اتنے اتنے مال سے زیادہ خوشی کا باعث ہوتی۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے کوئی رکاوٹ نہ تھی سوائے اس کے کہ آپ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں خاموش تھے، اس لیے میں نے بات کرنا مناسب خیال نہ کیا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب إكرام الكبير......: 6144 و مسلم: 2811»

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 360  
1
فوائد ومسائل:
(۱)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اگر آپ بات کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب دیتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی کہ میرا بیٹا لائق فائق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب بڑے بات نہ کر رہے ہوں تو چھوٹے گفتگو کرسکتے ہیں۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کھجور کا درخت مفید ہے کہ اس کی ہر چیز قابل استعمال ہے اسی طرح مومن بھی ہر حال میں نفع بخش ہوتا ہے۔ کھجور کے درخت پر جو پتھر پھینکے وہ اسے بھی پھل پتا ہے۔ مومن اپنے دشمنوں کا بھی فائدہ ہی سوچتا ہے۔ جس طرح موسمی تغیرات کھجور کو متاثر نہیں کرتے اسی طرح حالات کا تغیر و تبدل مومن پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
(۳) جس طرح کھجور کے فوائد اس کے کٹنے کے بعد بھی ہوتے ہیں اسی طرح مومن کا نفع اس کے فوت ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ خود اس کے لیے اس کے نیک عمل کا ثواب جاری رہتا ہے اور دوسروں کے لیے اس کے زندگی کے کارہائے نمایاں فائدہ بخش ہوتے ہیں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 360   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.