الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
18. باب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنه
18. باب: عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3687
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رايت كاني اتيت بقدح من لبن , فشربت منه , فاعطيت فضلي عمر بن الخطاب "، قالوا: فما اولته يا رسول الله؟ قال: " العلم ". قال: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ كَأَنِّي أُتِيتُ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ , فَشَرِبْتُ مِنْهُ , فَأَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ "، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الْعِلْمَ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچا ہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے دیا، تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2284 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: میرے بعد دین کا علم عمر کو ہے (رضی الله عنہ) اس میں ابوبکر رضی الله عنہ کی من جملہ فضیلت کی نفی نہیں ہے صرف علم کے سلسلے میں ان کا علم بڑھا ہوا ثابت ہوتا ہے، بقیہ فضائل کے لحاظ سے سب سے افضل امتی (بعد از نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) ابوبکر ہی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (2400)

   صحيح البخاري82عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت حتى إني لأرى الري يخرج في أظفاري ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري3681عبد الله بن عمربينا أنا نائم شربت يعني اللبن حتى أنظر إلى الري يجري في ظفري أو في أظفاري ثم ناولت عمر فقالوا فما أولته قال العلم
   صحيح البخاري7027عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يجري ثم أعطيت فضله عمر قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري7006عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يخرج من أظفاري ثم أعطيت فضلي يعني عمر قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري7032عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري7007عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يخرج من أطرافي فأعطيت فضلي عمر بن الخطاب فقال من حوله فما أولت ذلك يا رسول الله قال العلم
   صحيح مسلم6190عبد الله بن عمربينا أنا نائم إذ رأيت قدحا أتيت به فيه لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يجري في أظفاري ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولت ذلك يا رسول الله قال العلم
   جامع الترمذي3687عبد الله بن عمررأيت كأني أتيت بقدح من لبن فشربت منه فأعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   جامع الترمذي2284عبد الله بن عمربينما أنا نائم إذ أتيت بقدح لبن فشربت منه ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 82  
´علم کی فضیلت`
«. . . أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْعِلْمَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 82]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث میں علم کی کوئی فضیلت وارد ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا «فضل العلم» یعنی علم کی فضیلت۔۔۔
تو باب اور حدیث میں کچھ اس طرح سے مناسبت ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا دودھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا اور دودھ سے مراد یہاں علم ہے اور یہ علم نبوت ہے، لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچا ہوا دودھ عطا فرمایا اس میں نبوت کا علم تھا اور یہ فضیلت علم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمائی۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قلت لأنه عبر عن العلم بأنه فضلة النبى صلى الله عليه وسلم ونصيب مما اتاه الله وناهيك له فضلا، انه جزء من النبوة.» [المتواري على ابواب البخاري ص63]
حدیث مبارکہ میں فضیلت کا اثبات بایں طور پر موجود ہے (جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے) کہ اس میں علم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا دودھ) اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا اس کے حصہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی فضیلت کے لیے بہت ہے (کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا بچا ہوا دودھ پیا)۔

◈ علامہ بدر الدین بن جماعہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مناسبة الحديث للباب: انه اعطاه فضله، وفضيلة النبى صلى الله عليه وسلم فضيلة علمية و شرف و قد فسرها بالعلم . . .» [مناسبات تراجم البخاري، ص36]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا بچا ہوا دودھ عطا فرمایا۔ آپ کی فضیلت علمی فضیلت ہے اور یہ شرف ہے جسے علم سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس وجہ سے ان کی فضیلت واضح ہوئی (کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا دودھ نوش فرمایا)

↰ مزید اگر غور کیا جائے تو مناسبت یوں بھی ظاہر ہو گی کہ پچھلے باب میں ہم نے بحث کی کہ امام بخاری نے «باب رفع العلم وظهور الجهل» قائم فرمایا، جس میں تعلیم و تبلیغ کی ترغیب دینا مقصود دکھلائی دیتی ہے۔ اور اس باب میں اس کو بیان کرنا اور اس کی تعلیم دینا مقصود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابتداء میں «باب فضل العلم» قائم فرمایا جس سے اہل علم کی فضیلت مراد ہے اور مذکورہ باب میں «فضل علم» سے فضیلت علم مراد ہے۔‏‏‏‏ ديكهيے: [فتح الباري لابن حجر، ج2، ص3]

◈ علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
کتاب العلم کے ابتداء میں فضیلت علم مراد ہے اور اس مقام پر فضلہ یعنی زائد علم مراد ہے۔‏‏‏‏ [لكواب الدراري، ج2، ص180]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رحجان بھی یہی ہے۔ ديكهيے: [فتح الباري، ج1، ص180]

◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مقام پر «باب فضل العلم» قائم فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس فضل کے ساتھ کیا کیا جائے؟ حدیث کے باب سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس کچھ زائد علم ہو تو دوسروں کو دینا چاہئیے۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس عالم میں یہ بھی ممکن ہو کہ علم زائد ہو جائے کہ دوسروں کو دینے کی نوبت آئے؟ علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ علم کے زائد ہونے کی صورت ہو سکتی ہے۔ بایں طور کہ کسی کے پاس اگر زائد کتابیں ہیں تو وہ دوسروں کو ملکاً یا عاریتاً دے دے۔ اسی طرح اگر ایک شیخ سے انتفاع کرتا ہوا خود شیخ کے مرتبے کو پہنچ گیا تو دوسروں کو ان سے انتفاع کا موقع فراہم کرے۔ [حاشية السندي على الصحيح البخاري. ج1. ص49]

لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث سے جس مسئلے کی تائید ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس باب میں تبلیغ و تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ ابواب سابقہ اور لاحقہ سے ظاہر ہوتا ہے۔

◈ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود زیادت علم کی ترغیب دینا ہو یعنی یہ نہ ہو کہ صرف بقدر حاجت پر آدمی اکتفا کرے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں دودھ بقدر ضرورت نہیں نوش فرمایا بلکہ اس قدر پیا کہ آپ کے ناخنوں سے دودھ نکلا۔ گویا مصنف رحمہ اللہ نے یہاں ترجمۃ الباب سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث کی تائید کی ہے۔
«منهومان لا يشبعان ...» [شعب الايمان للبيهقي ج7، ص271]
(قلت) مذکورہ بالا حدیث میں کئی اہم فضیلتیں موجود ہیں جس سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوتی ہے۔
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا یہ فطری عمل ہے۔
➋ یہ دودھ علم سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں مرقوم ہے۔
➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ دودھ نصیب ہوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا تھا۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا یہ نبوت کا علم ہے جس سے صحابی سیراب ہوئے۔
➎ اصل علم کا منبہ اور سرچشمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، کیونکہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے علم سے استفادہ کرتی ہے۔
➏ بچا ہوا دودھ اس مکمل دودھ کا حصہ ہے۔ لہٰذا علم نبوت میں کسی کو اپنی رائے یا من مانی کی ہرگز اجازت نہیں۔ یہ بھی تطبیق ہو سکتی ہے کہ کتاب العلم کے ابتداء میں فضل علم بااعتبار رفع درجات مراد ہے، کیونکہ وہاں آیت کریمہ المجادلۃ 11 سے استدلال ہے اور یہاں فضل علم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا ہے۔ [الكنز المتواري، ج2، ص210]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 109   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3687  
´عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچا ہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے دیا، تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3687]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی: میرے بعد دین کا علم عمر کو ہے (رضی اللہ عنہ) اس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی من جملہ فضیلت کی نفی نہیں ہے صرف علم کے سلسلے میں ان کا علم بڑھا ہوا ثابت ہوتا ہے،
بقیہ فضائل کے لحاظ سے سب سے افضل امتی (بعد از نبی اکرمﷺ) ابوبکرہی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3687   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2284  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں دودھ اور قمیص دیکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس سے پیا پھر اپنا جوٹھا عمر بن خطاب کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ فرمایا: علم سے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرؤيا/حدیث: 2284]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علم سے اس کی تعبیربیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دودھ میں بکثرت فائدے ہیں اوررب العالمین اسے گوبر اور خون کے درمیان سے نکالتا ہے اسی طرح علم کے فوائدبے انتہا ہیں،
اسے بھی رب العالمین شک اورجہالت کے درمیان سے نکالتا ہے پھراپنے بندوں میں سے جسے چاہتاہے اس سے نوازتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2284   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.