الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
18. باب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنه
18. باب: عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3689
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث ابو عمار المروزي، حدثنا علي بن الحسين بن واقد، حدثني ابي، حدثني عبد الله بن بريدة، قال: حدثني ابي بريدة، قال: اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعا بلالا، فقال: " يا بلال بم سبقتني إلى الجنة؟ ما دخلت الجنة قط إلا سمعت خشخشتك امامي، دخلت البارحة الجنة فسمعت خشخشتك امامي، فاتيت على قصر مربع مشرف من ذهب، فقلت: لمن هذا القصر؟ فقالوا: لرجل من العرب، فقلت: انا عربي، لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من قريش، قلت: انا قرشي، لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من امة محمد، قلت: انا محمد، لمن هذا القصر؟ قالوا: لعمر بن الخطاب "، فقال بلال: يا رسول الله ما اذنت قط إلا صليت ركعتين، وما اصابني حدث قط إلا توضات عندها ورايت ان لله علي ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بهما ". وفي الباب عن جابر، ومعاذ، وانس، وابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " رايت في الجنة قصرا من ذهب، فقلت: لمن هذا؟ فقيل: لعمر بن الخطاب ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، ومعنى هذا الحديث اني دخلت البارحة الجنة يعني رايت في المنام كاني دخلت الجنة، هكذا روي في بعض الحديث، ويروى عن ابن عباس انه قال: رؤيا الانبياء وحي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي بُرَيْدَةَ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا بِلَالًا، فَقَالَ: " يَا بِلَالُ بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، فَأَتَيْتُ عَلَى قَصْرٍ مُرَبَّعٍ مُشْرِفٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ فَقَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ، فَقُلْتُ: أَنَا عَرَبِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قُلْتُ: أَنَا قُرَشِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: أَنَا مُحَمَّدٌ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ "، فَقَالَ بِلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأْتُ عِنْدَهَا وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلَّهِ عَلَيَّ رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِهِمَا ". وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَمُعَاذٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " رَأَيْتُ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ يَعْنِي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ.
بریدہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) صبح کی تو بلال رضی الله عنہ کو بلایا اور پوچھا: بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے، میں نے کہا: میں (بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے، بلال رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کر لیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں دونوں رکعتوں (یا خصلتوں) کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے ۱؎)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہا گیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے،
۳- حدیث کے الفاظ «أني دخلت البارحة الجنة» کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے،
۴- ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء کے خواب وحی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1966)، و مسند احمد (5/354، 360) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: وضو کے بعد دو رکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، یا ایک خصلت وضو ٹوٹتے وضو کر لینا یعنی ہمیشہ باوضو رہنا، دوسری خصلت: ہر وضو کے بعد دو رکعت بطور تحیۃ الوضو کے پڑھنا، ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضو رہنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے، وہیں اس سے بلال رضی الله عنہ کی فضیلت اور دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری کا پتا چلا اور عمر رضی الله عنہ کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 99)

   جامع الترمذي3689عامر بن الحصيببم سبقتني إلى الجنة ما دخلت الجنة قط إلا سمعت خشخشتك أمامي دخلت البارحة الجنة فسمعت خشخشتك أمامي فأتيت على قصر مربع مشرف من ذهب فقلت لمن هذا القصر فقالوا لرجل من العرب فقلت أنا عربي لمن هذا القصر قالوا لرجل من قريش قلت أنا قرشي لمن هذا القصر قالوا لرجل من

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3689  
´عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
بریدہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) صبح کی تو بلال رضی الله عنہ کو بلایا اور پوچھا: بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3689]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وضو کے بعد دو رکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا،
یا ایک خصلت وضوء ٹوٹتے وضوء کر لینا یعنی ہمیشہ باوضو رہنا،
دوسری خصلت: ہر وضوء کے بعد دو رکعت بطورتحیۃ الوضوء کے پڑھنا،
ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا،
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضوء رہنا بڑے اجروثواب کا کام ہے،
وہیں اس سے بلال کی فضیلت اور دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری کا پتا چلا اور عمر رضی اللہ عنہ کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3689   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.