الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
The Book of Transactions
3. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ:
3. باب: حبل الحبلہ کی بیع کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 3809
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، ومحمد بن رمح ، قالا: اخبرنا الليث . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن نافع ، عن عبد الله ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه: " نهى عن بيع حبل الحبلة ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ ".
لیث نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ) سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ جانور کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1514

   صحيح البخاري3843عبد الله بن عمريتبايعون لحوم الجزور إلى حبل الحبلة قال وحبل الحبلة أن تنتج الناقة ما في بطنها ثم تحمل التي نتجت فنهاهم النبي عن ذلك
   صحيح البخاري2256عبد الله بن عمريتبايعون الجزور إلى حبل الحبلة فنهى النبي عنه
   صحيح البخاري2143عبد الله بن عمربيع حبل الحبلة
   صحيح مسلم3810عبد الله بن عمريتبايعون لحم الجزور إلى حبل الحبلة وحبل الحبلة أن تنتج الناقة ثم تحمل التي نتجت فنهاهم رسول الله عن ذلك
   صحيح مسلم3809عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن أبي داود3380عبد الله بن عمربيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4627عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4628عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4629عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن ابن ماجه2197عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم502عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى ان تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها
   بلوغ المرام662عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة،‏‏‏‏ وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية
   مسندالحميدي706عبد الله بن عمرنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع حبل الحبلة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 502  
´غیر موجود چیز بیچنے کا حکم`
«. . . 240- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جانور کے پیٹ میں) حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے اور یہ سودا تھا جو اہل جاہلیت ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے۔ آدمی اس اونٹ کا سودا کرتا تھا کہ اونٹنی ایک بچی جنے گی پھر اس سے جو اونٹ پیدا ہو گا وہ میرا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 502]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2143، من حديث مالك، و مسلم 1514، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ جو چیز موجود ہی نہیں ہے اس کا بیچنا ممنوع ہے۔
➋ سد ذرائع کے طور پر بعض امور سے منع کیا جا سکتا ہے۔
➌ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ اتفاق اور ہم آہنگی رہے۔
➍ حبل الحبلہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ بیع کی میعاد یہ مقرر کر لے کہ جب تک یہ جنے پھر اس کا بچہ بھی جنے۔ یہ میعاد مجہول ہے اس لئے منع ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 240   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2197  
´جانوروں کے پیٹ اور تھن میں جو ہو اس کی بیع یا غوطہٰ خور کے غوطہٰ کی بیع ممنوع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2197]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  (بَيْعُ حَبَلِ الْحَبَلَةِ)
کا ایک مطلب یہ ہے کہ جانور کا بچہ پیدائش سے پہلے خریدا اور بیچا جائے، یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں غرر ہے۔
معلوم نہیں وہ بچہ مذکر ہوگا یا مؤنث، صحیح ہوگا یا عیب دار۔

(2)
  اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز خرید کر ادائیگی کی میعاد کسی جانور کے بچہ دینے تک مقرر کی جائے۔
یہ مجہول مدت ہے، اس لیے یہ بھی منع ہے۔

(3)
  اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ فلاں حاملہ جانور سے پیدا ہونے والا بچہ جب بڑا ہو کر بچہ دے گا، وہ جانور میں بیچتا ہوں، یا کسی دوسری چیز کی رقم کی ادائیگی اس وقت ہوگی۔
اس میں بھی غرر اورمدت نامعلوم ہے۔
معلوم نہیں اس حاملہ جانور سے مذکر پیدا ہوگا یا مؤنث، اور مؤنث ہوا تو اس سے کب بچہ پیدا ہوگا۔

(4)
  ادھار کی ادائیگی کے لیے مدت کا وضح تعین ہونا چاہیے، پھر اگر مقروض آدمی اس وقت ادا نہ کر سکےتو مزید مہلت مانگ لے۔
یا مدت کا تعین کیا ہی نہ جائے، مقروض اپنی سہولت کے مطاق ادا کردے۔
مقروض کو اس طرح سہولت دینا بہت فضیلت والا عمل ہے، تاہم مقروض اس سہولت کی وجہ سے قرض کی ادائیگی سے بے نیاز نہ ہو جائے بلکہ قرض خواہ کے حق میں دعا کرتا رہے اور ادائیگی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہے۔
اس میں تساہل یا کوتاہی نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2197   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 662  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے اور یہ بیع دور جاہلیت میں تھی کہ آدمی اونٹنی اس شرط پر خریدتا کہ اس کی قیمت اس وقت دے گا جب اونٹنی بچہ جنے، پھر وہ بچہ جو اونٹنی کے پیٹ میں ہے وہ (ایک آگے بچہ) جنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 662»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الغرر وحبل الحبلة، حديث:2143، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع حبل الحبلة، حديث:1514.»
تشریح:
1. مذکورہ حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنین کی فروخت ممنوع ہے‘ جبکہ وہ اپنی ماں کے شکم میں ہو۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مادہ کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پا رہا ہے‘ اس کا بچہ فروخت کرنا ممنوع ہے‘ یعنی اونٹنی کے حمل کا حمل۔
اس کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع معدوم اور مجہول دونوں پہلو رکھتی ہے۔
اور اسے حاصل کرنے کی قدرت نہیں ہوتی کیونکہ ایک طرح یہ دھوکے کی بیع ہے۔
اور یہ قول بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں: کسی شے کی بیع اس وقت تک کرنا کہ اونٹنی بچہ جنم دے‘ یا اس اونٹنی کا بچہ جوان ہو کر بچہ جنے۔
اس میں نہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع ایسی ہے جس کی مدت نامعلوم ہے۔
2.حدیث میں مذکور ممنوع بیع کی جو تفسیر وَکَانَ بَیْعًا…الخ کے الفاظ کے ساتھ منقول ہے‘ وہ نافع یا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادائیگی ٔ قیمت کی میعاد مقرر کی جاتی تھی‘ اس طرح کہ جو بچہ اس وقت اونٹنی کے پیٹ میں زیر پرورش ہے اس کے جوان ہونے پر اس سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس اونٹ کی قیمت ہوگی۔
اس تفسیر کو امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
وہ اس صورت میں ممانعت کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی کی میعاد غیر متعین ہے‘ اس لیے ایسی بیع بھی ممنوع ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 662   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3380  
´دھوکہ کی بیع منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حبل الحبلة» (بچے کے بچہ) کی بیع سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3380]
فوائد ومسائل:
(حبل الحبلة) حاملہ کا حمل اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کوئی سودا کیا جاتا تو اس کی ادایئگی کےلئے ایک مجہول لمبی مدت مقرر کی جاتی۔
کہ جب یہ اونٹنی مادہ بچہ جنے گی پھر وہ حاملہ ہوگی۔
تو اس وقت ادایئگی ہوگی۔
ایک مفہوم یہ بھی آتا ہے کہ میں تجھ سے اس حاملہ اونٹنی کے بچے کے بچے کی بیع کرتا ہوں۔
جیسا کہ اگلی ر وایت میں آرہا ہے یہ ناجائز ہے۔
اس میں دھوکا ہے۔
نہ معلوم یہ بچہ جنے گی یا نہیں۔
اور پھر پیدا ہونے والا نر ہوگا یا مادہ اور نہ معلوم وہ کب حاملہ ہو۔
اس حدیث میں اس جاہلی رواج کی بھی تردید اور ممانعت ہے۔
جو ہمارے پنجاب اور سندھ کے بعض خاندانوں میں مروج ہے۔
یہ یہ لوگ رشتے ناتے میں وٹہ سٹہ کرتے ہوئے جب مقابلے میں لڑکی موجود نہ ہو تو شرط کرلیتے ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ ہونے والی لڑکی ہمیں دینا ہوگی۔
اسے وہ لوگ پیٹ دینے یا تھنداساک (آیئندہ پیدا ہونے والا رشتہ دینا) سے تعبیر کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3380   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3809  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
حبله:
حابل کی جمع ہے،
جس طرح ظالم کی جمع ظلمه ہے یا كاتب کی جمع كتبه ہے،
بعض کے نزدیک یہ مصدر ہے اور مجہول کے معنی میں ہے اور بقول علامہ نووی،
حبل کا لفظ عورتوں کے لیے خاص ہے اور حیوانات کے لیے حمل کا لفظ ہے،
اس لیے بکری یا اونٹنی کو حاملہ کہتے ہیں،
حیوانات کے لیے حابلہ کا لفظ صرف اس حدیث میں آیا ہے۔
اور بقول امام نووی اس پر اہل لغت کا اتفاق ہے،
لیکن علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حابلہ کا لفظ ہر مونث کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
حَبَل الحَبله کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں:
(1)
کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا جب حاملہ اونٹنی بچہ جنے گی اور وہ بچہ بڑا ہو کر،
بچہ دے،
بخاری شریف کی روایت کی ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خود یہی تفسیر کی ہے۔
(2)
کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا،
جب مخصوص اونٹنی اپنا حمل وضع کرے گی،
امام نافع نے یہی تفسیر کی ہے،
ابن المسیب،
امام مالک،
امام شافعی اور فقہاء کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔
(3)
کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا،
جب حاملہ اونٹنی بچہ دے اور پھر وہ بچہ بڑا ہو کر حاملہ ہو جائے۔
لیکن اس کے حمل کے وضع ہونے کی شرط نہیں ہے،
اگلی روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے اور امام ابو اسحاق نے اس کو اختیار کیا ہے،
ان تینوں صورتوں میں ممانعت کا سبب یہ ہے،
قیمت کی ادائیگی کا وقت و مدت مجہول ہے۔
(4)
حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے بچہ کی یا پیٹ کے بچے کے بچہ کی بیع کرنا،
امام ترمذی نے اس کو اختیار کیا ہے۔
امام ابو عبیدہ،
ابو عبید،
احمد اور اسحاق کا یہی نظریہ ہے اور اس کے منع ہونے کا سبب مبیع یعنی جو چیز بیچی گئی ہے کا مجہول ہونا ہے کیونکہ معلوم نہیں ہے اونٹنی کا بچہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں،
دوسرے بچہ کی پیدائش تو بعد کی بات ہے،
اس طرح اس میں غرر بھی ہے،
اس لیے امام بخاری نے،
اس کو بیع الغرر کے تحت بیان کیا ہے۔
اور بعض حضرات نے اس کا معنی انگوروں کا ان کے پکنے کی صلاحیت کو پہنچنے سے پہلے بیچنا بیان کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3809   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.