الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
The Book of Agriculture
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
2. باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators
حدیث نمبر: 3896
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني محمد بن قدامة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن اسيد بن ظهير، قال: اتى علينا رافع بن خديج , فقال: ولم افهم، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهاكم عن امر كان ينفعكم، وطاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم خير لكم مما ينفعكم:" نهاكم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحقل، والحقل: المزارعة بالثلث والربع، فمن كان له ارض فاستغنى عنها فليمنحها اخاه او ليدع، ونهاكم عن المزابنة , والمزابنة: الرجل يجيء إلى النخل الكثير بالمال العظيم فيقول خذه بكذا وكذا وسقا من تمر ذلك العام".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ , فَقَالَ: وَلَمْ أَفْهَمْ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ يَنْفَعُكُمْ، وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ مِمَّا يَنْفَعُكُمْ:" نَهَاكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَقْلِ، وَالْحَقْلُ: الْمُزَارَعَةُ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَمَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ فَاسْتَغْنَى عَنْهَا فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَدَعْ، وَنَهَاكُمْ عَنِ الْمُزَابَنَةِ , وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَجِيءُ إِلَى النَّخْلِ الْكَثِيرِ بِالْمَالِ الْعَظِيمِ فَيَقُولُ خُذْهُ بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرِ ذَلِكَ الْعَامِ".
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا، اور میں اس (ممانعت کے راز) کو سمجھ نہیں سکا، پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا ہے جو تمہارے لیے سود مند تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے اس چیز سے جو تمہیں فائدہ دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں «حقل» سے روکا ہے۔ اور «حقل» کہتے ہیں: تہائی یا چوتھائی پیداوار کے بدلے زمین کو بٹائی پر دینا۔ لہٰذا جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس سے بے نیاز ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دیدے، یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے، اور آپ نے تمہیں مزابنہ سے روکا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ آدمی بہت سارا مال لے کر کھجور کے باغ میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سال کی اس مال کو (یعنی پاس میں موجود کھجور کو) اس سال کی (درخت پر موجود) کھجور کے بدلے اتنے اتنے وسق کے حساب سے لے لو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3894 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن أبي داود3398أسيد بن ظهيرينهاكم عن الحقل من استغنى عن أرضه فليمنحها أخاه أو ليدع
   سنن ابن ماجه2460أسيد بن ظهيرمن استغنى عن أرضه فليمنحها أخاه أو ليدع
   سنن النسائى الصغرى3895أسيد بن ظهيرمن كانت له أرض فليمنحها أو ليدعها نهى عن المزابنة المزابنة الرجل يكون له المال العظيم من النخل فيجيء الرجل فيأخذها بكذا وكذا وسقا من تمر
   سنن النسائى الصغرى3896أسيد بن ظهيرنهاكم رسول الله عن الحقل الحقل المزارعة بالثلث والربع من كان له أرض فاستغنى عنها فليمنحها أخاه أو ليدع نهاكم عن المزابنة المزابنة الرجل يجيء إلى النخل الكثير بالمال العظيم فيقول خذه بكذا وكذا وسقا من تمر ذلك العام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2460  
´مکروہ مزارعت (بٹائی) کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی کو زمین کی حاجت نہیں ہوتی تھی تو اسے تہائی یا چوتھائی یا آدھے کی بٹائی پردے دیتا، اور تین شرطیں لگاتا کہ نالیوں کے قریب والی زمین کی پیداوار، صفائی کے بعد بالیوں میں بچ جانے والا غلہ اور فصل ربیع کے پانی سے جو پیداوار ہو گی وہ میں لوں گا، اس وقت لوگوں کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، وہ ان میں پھاؤڑے سے اور ان طریقوں سے جن سے اللہ چاہتا محنت کرتا اور اس سے فائدہ حاصل کرتا، آخر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک کام سے جو تمہارے لیے مفید تھا منع فرما دیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2460]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نصف یا چوتھائی پیداوار کی جو شرط منع ہے وہ اس طرح ہے کہ زمین کےکسی خاص ٹکڑے کی پیداوار زمین کے مالک کے لیے ہو۔
مالک عموما ایسا ٹکڑا منتخب کرتا ہےتھا جوآبی گزر گاہ یا پانی کی نالی وغیرہ کےقریب واقع ہوتا اس لیے اس میں پیداوار زیادہ ہونے کی توقع ہوتی تھی۔

(2)
کھیت کی کل پیداوار میں سے نصف تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط لگانا جائز ہے۔

(3)
بٹائی کی بجائے زمین عاریتاً دے دینا افضل ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کےحکم کی تعمیل دنیا کےظاہری مفاد سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ارشاد نبوی کی تعمیل میں آخرت کا فائدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2460   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3398  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
اسید بن ظہیر کہتے ہیں ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو ایک ایسے کام سے منع فرما رہے ہیں جس میں تمہارا فائدہ تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو «حقل» سے یعنی مزارعت سے روکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی زمین سے بے نیاز ہو یعنی جوتنے بونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی زمین اپنے کسی بھائی کو (مفت) دیدے یا اسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح سے شعبہ او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3398]
فوائد ومسائل:

علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر روایت آئی ہے۔
تفصیلی روایت میں اسید بن ظہیر کا کلام یوں ہے۔
ہم میں سے جب کوئی اپنی زمین کو خود کاشت نہ کرنا چاہتا۔
یا اس کا ضرورت مند ہوتا تو وہ اسے آدھی تہائی یا چوتھائی پر بٹائی پر دے دیا کرتا تھا۔
اور تین باتوں کی شرط ہوتی تھی کہ نالوں کے ساتھ ساتھ کی کاشت غلہ گاہنے کے بعد نیچے جو باقی رہے گا۔
اور وہ قطعات جو نالوں سے سیرات ہوتے ہوں گے۔
(مالک کے ہوں گے) الخ (نیل الأوطار: 312/5 باب فسادالعقد إذا شرط أحدھما لنفسه التبن أو بقعة یعینھا ونحوہ)

ویسے چھوڑ دینے کی صورت میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔
اس زمین میں اگنے والی گھاس جانورچرتے ہیں۔
فطری پودے اور ان میں رہنے والے چھوٹے بڑے جانور ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3398   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.