الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر
سلسله احاديث صحيحه
سیرت نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار
रसूल अल्लाह ﷺ का चरित्र, आदतें और व्यवहार
2672. واقعہ فتح مکہ
“ मक्का की विजय की घटना ”
حدیث نمبر: 4061
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
- (مضى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، واستخلف على المدينة ابا رهم كلثوم بن حصين الغفاري. وخرج لعشر مضين من رمضان، فصام رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وصام الناس معه، حتى إذا كان بـ (الكديد)- (مضى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، واستخلف على المدينة أبا رُهْمٍ كلثوم بن حُصين الغفاري. وخرج لعشر مضين من رمضان، فصام رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وصام الناس معه، حتى إذا كان بـ (الكديد)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی دس تاریخ کو (‏‏‏‏مدینہ) سے نکلے اور مدینہ پر ابورہم کلثوم بن حصین غفاری کو اپنا نائب مقرر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزے سے تھے اور لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور کدید کے مقام پر پہنچ گئے، جو عسفان اور امج کے درمیان واقع تھا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا۔ پھر چل پڑے اور (‏‏‏‏مکہ کے قریب ایک مقام) مرّالظھران پر اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار مسلمانوں کا لشکر تھا۔ مزینہ اور سلیم کے لوگ بھی تھے، کیونکہ ہر قبیلے سے کافی لوگ مسلمان ہو چکے تھے، رہا مسئلہ مہاجرین و انصار کا، تو وہ تو سارے کے سارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، کوئی ایک بھی پیچھے نہ رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرالظھران میں پڑاؤ ڈالا، ا‏‏‏‏دھر قریش بالکل غافل تھے، ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی اور وہ نہیں جانتے تھے کہ آپ کیا کرنے والے ہیں؟ اس رات ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا جاسوسی کرنے اور جائزہ لینے کے لیے نکلے کہ کیا کوئی خبر موصول ہوتی ہے یا کوئی بات سنائی دیتی ہے۔ عباس بن عبدالمطلب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی تھی، یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی مقام پر ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اور عبداللہ بن ابوامیہ بن مغیرہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو چکی تھی، (‏‏‏‏اس لیے وہ جاسوسی کرنے کے لیے نکلے تھے)۔ جب ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ چلا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا چاہا اور ان کے لیے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سفارش کی اور کہا: اے اللہ کے رسول! (‏‏‏‏عبداللہ بن امیہ) آپ کے چچے کا بیٹا ہے اور (‏‏‏‏ابوسفیان) آپ کی پھوپھی کا بیٹا اور آپ کا سسر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں، اس چچازاد نے میری توہین کی تھی اور اس پھوپھی زاد اور سسر نے تو مکہ میں مجھے بہت کچھ کہا تھا۔ ‏‏‏‏ جب ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کا علم ہوا تو ابوسفیان، جبکہ اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، نے کہا: اللہ کی قسم! یا تو آپ ہمیں اجازت دیں گے یا پھر اپنے اس بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر ہم زمین (‏‏‏‏کی کسی جہت کی طرف) نکل جائیں گے اور پیاس اور بھوک کی وجہ سے مر جائیں گے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس بات کا علم ہوا تو آپ نرم پڑ گئے اور ان کو آنے کی اجازت دے دی۔ سو وہ داخل ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرالظھران میں اترے ہوئے تھے تو عباس نے کہا تھا: ہائے قریشیوں کی صبح! اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان نہ لے سکے اور آپ زبردستی مکہ میں گھس گئے تو ہمیشہ کے لیے قریش ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر بیٹھا اور نکل پڑا، یہاں تک کہ اراک پہنچ گیا، میرا خیال تھا کہ شاید کوئی لکڑیاں جمع کرنے والا یا کوئی دودھ والا یا مکہ کی طرف جانے والا کوئی ضرورت مند مل جائے گا، (‏‏‏‏تو میں اسے ساری صورتحال سے آگاہ کر دوں گا) اور وہ ان کو بتلا دے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں مقام تک پہنچ چکے ہیں، تاکہ وہ آپ کے پاس پہنچ کر آپ سے امان طلب کر لیں، قبل اس کے کہ آپ بزور مکہ مکرمہ میں داخل ہوں۔ عباس کہتے ہیں: بخدا! میں خچر پر جا رہا تھا اور اپنے مقصود کی تلاش میں تھا، اچانک میں نے ابوسفیان اور بدیل بن ورقا کی آوازیں سنیں، وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے، ابوسفیان یہ کہہ رہا تھا: یہ جو آج بہت ساری آگ اور لشکر نظر آ رہا ہے، یہ تو میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں۔ جبکہ بدیل یہ کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! یہ خزاعہ کی آگ ہے، لڑائی نے ان کو آگ لگا رکھی ہے۔ لیکن ابوسفیان نے اس کا یوں جواب دیا: خزاعہ اس سے ذلیل، کمینے اور رذیل ہیں کہ یہ آگ اور لشکر ان کا ہو۔ عباس کہتے ہیں: میں نے اس کی آواز پہچان لی اور اسے آواز دی: ابوحنظلہ! اس نے میری آواز پہچان لی اور کہا: ابوالفضل ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: تجھے کیا ہوا ہے؟ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔ میں نے کہا: ابوسفیان! تو ہلاک ہو جائے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ آ گئے ہیں، ہائے قریش کی صبح! اس نے کہا: میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں، اب کیا کیا جائے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر قابو پا لیا تو تیری گردن کاٹ دیں گے، تو اس طرح کر کہ میرے ساتھ اس خچر پر سوار ہو جا، میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاتا ہوں اور تیرے لیے امان طلب کرتا ہوں۔ وہ (‏‏‏‏ابوسفیان) میرے پیچھے سوار ہو گیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس چلے گئے، میں اس کو لے کر آ گیا، میں جب بھی مسلمانوں کی آگ کے پاس سے گزرتا تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے: یہ کون ہے؟ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر دیکھتے تو کہتے: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا اس پر سوار ہے۔ جب میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی آگ سے گزرا تو انہوں نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہ کھڑے ہو کر میری طرف آئے اور جب سواری کے پچھلے حصے پر ابوسفیان کو دیکھا تو کہا: ابوسفیان ہے، اللہ کا دشمن، اللہ کی تعریف ہے، جس نے عقد و عہد کے بغیر ہمیں تجھ پر قادر بنا دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے، میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی، میں ان سے اتنا آگے نکل گیا، جتنا سست رفتار جانور سست رفتار آدمی سے آگے نکل جاتا ہے۔ میں نے خچر سے چھلانگ لگائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ابوسفیان ہے، اللہ تعالیٰ نے بغیر عقد و عہد کے ہمیں اس پر قادر بنا دیا ہے، مجھے اجازت دو، میں اس کی گردن اتار دیتا ہوں۔ میں (‏‏‏‏عباس) نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو پناہ دی ہے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اس کے سر کو پکڑا اور کہا: اللہ کی قسم! میرے علاوہ آپ سے کوئی بھی سرگوشی نہیں کر سکتا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ سیدنا عمر تو اس کے بارے میں بہت زیادہ باتیں کر رہے ہیں تو میں نے کہا: عمر! ٹھہر جاؤ، اللہ کی قسم! اگر یہ (‏‏‏‏سفیان) بنوعدی بن کعب سے ہوتا تو تم یہ باتیں نہ کرتے، وجہ یہ ہے کہ یہ بنو عبدمناف میں سے ہے۔ آگےسے انہوں نے کہا: عباس! رہنے دو اس بات کو، اللہ کی قسم! عباس! جس دن تم مسلمان ہوئے تو تمہارا اسلام مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام کی بہ نسبت تمہارا اسلام زیادہ محبوب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباس! اس کو اپنی رہائش گاہ پر لے جاؤ، صبح کے وقت دوبارہ لے آنا۔ ‏‏‏‏پس میں اس کو اپنی رہائش گاہ میں لے گیا، اس نے میرے پاس رات گزاری، جب صبح ہوئی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: ابوسفیان! تو ہلاک ہو جائے، کیا وہ وقت قریب آ گیا ہے کہ تجھے بھی اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کا علم ہو جائے؟! اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کتنے معزز ہیں، کتنے بردبار ہیں اور کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں! اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے کفایت کر چکا ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏سفیان! تو ہلاک ہو جائے، کیا وہ وقت قریب آ چکا ہے کہ تجھے بھی میری رسالت کے برحق ہونے کا علم ہو جائے؟! اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کتنے بردبار ہیں، کتنے معزز ہیں اور کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں! اللہ کی قسم! اس وقت تک تو میرے دل میں کچھ نہ کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوسفیان! تو ہلاک ہو جائے! اسلام قبول کر اور اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دے، قبل اس کے کہ تیری گردن اتار دی جائے۔ پس اس نے شہادت حقہ کا اقرار کیا اور اسلام قبول کر لیا۔ میں (‏‏‏‏عباس) نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک ابوسفیان اس فخر (‏‏‏‏یعنی عہد و منصب) کو پسند کرتا ہے، اس لیے اس سلسلے میں اس کا اکرام کیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، جو بندہ ابوسفیان کے گھر داخل ہو گیا اسے امن حاصل ہو جائے گا اور اپنا دروازہ بند کر دینے والے کو بھی امان دی جائے گی اور مسجد میں داخل ہونے والا بھی امن پائے گا۔ جب وہ جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباس! اس کو خطم الجبل کے پاس تنگ وادی میں روک لینا، تاکہ جب اﷲ تعالیٰ ٰ کے لشکر گزریں تو یہ دیکھ سکے۔ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اس کے ساتھ نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسی مقام پر اس کو روک لیا۔ قبائل اپنے اپنے جھنڈے لے کر گزرنے لگے۔ جب ایک قبیلے کا گزر ہوا تو یہ پوچھتا: یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سلیم قبیلے والے۔ پھر اس نے کہا: میرا سلیم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اتنے میں اگلا قبیلہ گزرا، اس نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: مزینہ قبیلے والے ہیں۔ اس نے کہا: میرا مزینہ کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ایسے ہی ہوتا رہا یہاں تک کہ قبائل ختم ہو گئے، جب بھی کوئی قبیلہ گزرتا تو یہ پوچھتا کہ یہ کون ہیں، میں کہتا کہ یہ فلاں قبیلے والے ہیں، پھر وہ کہتا کہ میرا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے لشکر کے ساتھ گزرے، اس میں مہاجرین و انصار تھے، ہر طرف سے لوہے کی سیاہی نظر آ رہی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! عباس! یہ کون ہیں؟ میں نے کہا یہ مہاجرین و انصار کے جلو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس نے کہا: ابوالفضل! اللہ کی قسم! ان کے مقابلے کی کسی کو کوئی طاقت اور قدرت حاصل نہیں ہے، تیرے بھتیجے کی بادشاہت عظیم ہو گئی ہے؟ میں نے کہا: ابوسفیان! بیشک یہ نبوت ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں بالکل۔ میں نے کہا: اپنی قوم کے لیے نجات طلب کرو۔ پس وہ وہاں سے نکل پڑا اور اپنی قوم کے پاس پہنچ کر بلند آواز سے کہا: او قریشیو! یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے ہیں، ایسے لشکر کے ساتھ کہ تم میں جس کا مقابلہ کرنے کی کوئی قدرت نہیں ہے، (‏‏‏‏سنو) جو ابوسفیان کے گھر داخل ہو گا، وہ امن پائے گا۔ یہ سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ کھڑی ہوئی، اس کی مونچھیں پکڑیں اور کہا: قتل کر دو اس کالے رنگ کے ذلیل آدمی کو، قوم کا سرکردہ بندہ ہی قبیح ہو گیا ہے، اس نے کہا: تمہارا ستیاناس ہو جائے! اپنے آپ کو دھوکے میں نہ ڈالو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس لشکر کے ساتھ آیا ہے، تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے، (‏‏‏‏سنو) جو بھی ابوسفیان کے گھر داخل ہوا، اسے امان مل جائے گی۔ انہوں نے کہا: تو ہلاک ہو جائے! تیرا گھر کتنوں کو کفایت کرے گا؟ اس نے کہا: اور جس نے اپنا دروازہ بند کر دیا، وہ بھی امن میں رہے گا اور جو مسجد میں داخل ہو گیا، وہ بھی امن پائے گا۔ (‏‏‏‏یہ سن کر) لوگ اپنے گھروں اور مسجد کی طرف چل پڑے۔
हज़रत अब्दुल्लाह बिन अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम रमज़ान की दस तारीख़ को (मदीने) से निकले और मदीना पर अबू रुहम कुलसूम बिन हुसेन ग़फ़्फ़ारी को अपना उपाध्यक्ष नियुक्त किया, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम भी रोज़े से थे और लोगों ने भी रोज़ा रखा हुआ था, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम चलते रहे और कदीद के स्थान पर पहुंच गए, जो असफ़ान और उमज के बीच था, वहां आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने रोज़ा तोड़ दिया। फिर चल पड़े और (मक्का के क़रीब एक जगह) मर्रा अज़्ज़हरान पर उतरे, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ दस हज़ार मुसलमानों की फ़ौज थी। मुज़ेनह और सलीम के लोग भी थे, क्योंकि हर क़बीले से काफ़ी लोग मुसलमान हो चुके थे, रही बात महाजिरों और अन्सार की, वे तो सारे के सारे रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ निकल आए, कोई एक भी पीछे न रहा। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने मर्रा अज़्ज़हरान में पड़ाव डाला, इधर क़ुरैश बिलकुल बेख़बर थे, उनको आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के बारे में कोई सूचना नहीं थी और वे नहीं जानते थे कि आप क्या करने वाले हैं ? उस रात हज़रत अबु सुफ़ियान बिन हर्ब, हकीम बिन हिज़ाम और बुदेल बिन वरक़ा जासूसी करने और देखने के लिये निकले कि क्या कोई ख़बर मिल जाए या कोई बात सुनाई देती है। अब्बास बिन अब्दुल मत्तलिब की रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से मुलाक़ात होगई थी, यह याद रहे कि मक्का और मदीने के बीच किसी जगह पर हमारी अबू सुफ़ियान बिन हरिस बिन अब्दुल मुत्तलिब और अब्दुल्लाह बिन अबु उमय्या बिन मुग़ीरह की रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से मुलाक़ात हो चुकी थी, (इस लिये वह जासूसी करने के लिये निकले थे)। जब उनको आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का पता चला तो उन्हों ने आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आना चाहा और उनके लिये उम्मुल मोमिनीन हज़रत उम्म सलमह रज़ि अल्लाहु अन्हा ने सिफ़ारिश की और कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, (अब्दुल्लाह बिन उमईय्याह) आप के चाचा का बेटा है और (अबू सुफ़ियान) आप की बुआ का बेटा और आप का ससुर है। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया कि “मुझे उनकी कोई ज़रूरत नहीं, उस चचेरे ने मेरा अपमान किया था और उस फूफी और ससुर ने तो मक्का में मुझे बहुत कुछ कहा था।” जब उनको आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की इस बात का पता चला तो अबु सुफ़ियान, जबकि उसके साथ उसका बेटा भी था, ने कहा कि अल्लाह की क़सम, या तो आप हमें अनुमति देंगे या फिर अपने इस बेटे का हाथ पकड़ कर हम ज़मीन (किसी दिशा की ओर) निकल जाएंगे और प्यास और भूक के कारण मर जाएंगे। जब आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को उसकी इस बात का पता चला तो आप नरम पड़ गए और उनको आने की अनुमति देदी। तो वे आए और इस्लाम स्वीकार कर लिया। जब रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मर्रा अज़्ज़हरान में उतरे हुए थे तो अब्बास ने कहा था कि हाय क़ुरैश की सुबह, यदि वे आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से शांति नहीं मिल सकी और आप ज़बरदस्ती मक्का में घुस गए तो सदा के लिये क़ुरैश हलाक हो जाएंगे। वह कहते हैं कि मैं रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के सफ़ेद ख़च्चर पर बेठा और निकल पड़ा, यहाँ तक कि अराक पहुंच गया, मेरा ख़्याल था कि शायद कोई लकड़ियां इकट्टा करने वाला या कोई दूध वाला या मक्का की ओर जाने वाला कोई मोहताज मिल जाएगा, (तो मैं उसे सारे हालात बतादूँगा) और वह उनको बतादेगा कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम फ़लां जगह तक पहुंच चुके हैं, ताकि वे आपके पास पहुंच कर आप से सुरक्षा की मांग करलें, इस से पहले कि आप बल द्वारा मक्का मुकर्रमा में घुस जाएं। अब्बास कहते हैं कि अल्लाह की क़सम, मैं ख़च्चर पर जारहा था और अपने लक्ष्य की तलाश में था, अचानक मैं ने अबु सुफ़ियान और बुदेल बिन वरक़ा की आवाज़ें सुनीं, वे आपस में बातचीत कर रहे थे, अबु सुफ़ियान यह कह रहा था कि यह जो आज बहुत सारी आग और फ़ौज नज़र आरही है, यह तो मैं पहली दफ़ा देख रहा हूँ। जबकि बुदेल यह कह रहा था कि अल्लाह की क़सम, यह ख़ुज़ाअ की आग है, लड़ाई ने उनको आग लगा रखी है। लेकिन अबु सुफ़ियान ने उसका ऐसे जवाब दिया, ख़ुज़ाअ बहुत रुस्वा, कमीने हैं कि यह आग और फ़ौज उनकी हो। अब्बास कहते हैं कि मैं ने उसकी आवाज़ पहचान ली और उसे आवाज़ दी कि अबू हन्ज़ला, उसने मेरी आवाज़ पहचान ली और कहा कि अबूल्फ़ज़ल हो ? मैं ने कहा कि जी हाँ। उसने कहा कि तुझे क्या हुआ है ? मेरे माता पिता तुझ पर क़ुरबान हों। मैं ने कहा कि अबु सुफ़ियान, तू हलाक होजाए, यह रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम लोगों के साथ आगए हैं, हाय क़ुरैश की सुबह, उसने कहा कि मेरे माता पिता तुझ पर क़ुरबान हों, अब क्या किया जाए ? में ने कहा कि अल्लाह की क़सम, यदि आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने तुझे पकड़ लिया तो तेरी गर्दन काट देंगे, तू इस तरह कर कि मेरे साथ इस ख़च्चर पर सवार होजा, मैं तुझे रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास ले जाता हूँ और तेरे लिये सुरक्षा की मांग करता हूँ। वह (अबू सुफ़ियान) मेरे पीछे सवार होगया और उसके दोनों साथी वापस चले गए, मैं उसको लेकर आगया, मैं जब भी मुसलमानों की आग के पास से गुज़रता तो वे एक दूसरे से पछते कि यह कौन है ? जब वे रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का ख़च्चर देखते तो कहते कि यह आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का ख़च्चर है और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का चाचा इस पर सवार है। जब मैं हज़रत उमर बिन ख़त्ताब रज़ि अल्लाहु अन्ह की आग से गुज़रा तो उन्हों ने कहा कि यह कौन है ? फिर वह खड़े होकर मेरी ओर आए और जब सवारी के पीछे अबु सुफ़ियान को देखा तो कहा कि अबु सुफ़ियान है, अल्लाह का दुश्मन, अल्लाह की तअरीफ़ है कि जिस ने समझौते के बिना हमें तुझ पर हावी करदिया, फिर वह रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की ओर दौड़े और में ने भी ख़च्चर को टहोका लगाई, मैं उनसे इतना आगे निकल गया, जितना सुस्त जानवर सुस्त आदमी से आगे निकल जाता है। मैं ने ख़च्चर से छलांग लगाई और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास पहुंच गया, इतने में हज़रत उमर रज़ि अल्लाहु अन्ह भी पहुंच गए और कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, यह अबु सुफ़ियान है, अल्लाह तआला ने बिना समझौते के हमें इस पर हावी करदिया है, मुझे अनुमति दो, मैं इस की गर्दन उतार देता हूँ। मैं (अब्बास) ने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, मैं ने इसको शरण दी है, फिर मैं रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास बैठ गया और उसके सिर को पकड़ा और कहा कि अल्लाह की क़सम, मेरे सिवा आप से कोई भी चुपके से बात नहीं कर सकता। लेकिन जब मैं ने देखा कि हज़रत उमर तो इसके बारे में बहुत बातें कर रहे हैं तो मैं ने कहा कि उमर, ठहर जाओ, अल्लाह की क़सम, यदि यह (सुफ़ियान) बिन अदि बिन कअब से होता तो तुम यह बातें न करते, कारण यह है कि यह बनि अब्द मनाफ़ में से है। आगे से उन्हों ने कहा कि अब्बास, रहने दो इस बात को, अल्लाह की क़सम, अब्बास, जिस दिन तुम मुसलमान हुए तो तुम्हारा इस्लाम मुझे अपने पिता ख़त्ताब के इस्लाम से अधिक पसंद था, क्योंकि मैं जानता था कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को ख़त्ताब के इस्लाम की तुलना में तुम्हारा इस्लाम बहुत पसंद था। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया कि “अब्बास, इस को अपने पड़ाव पर लेजाओ, सुबह के समय दोबारा लेआना।” बस मैं उसको अपने पड़ाव में लेगया, उसने मेरे पास रात गुज़ारी, जब सुबह हुई तो उसे रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास लेआया। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने उसे देखकर फ़रमाया कि “अबु सुफ़ियान, तू हलाक होजाए, क्या वह समय क़रीब आगया है कि तुझे भी अल्लाह तआला के सच्चा ईश्वर होने की जानकारी होजाए ? !” उसने कहा कि मेरे मां पिता आप पर क़ुरबान हों, आप कितने सम्मानित हैं, कितने बुर्दबार हैं और कितने रहमदिली करने वाले हैं, अल्लाह की क़सम, मेरा ख़्याल है कि यदि अल्लाह तआला के सिवा कोई और ईश्वर होता तो वह मुझे बचा चुका होता। फिर आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया कि “सुफ़ियान, तू हलाक हो जाए, क्या वह समय क़रीब आचुका है कि तुझे भी मेरी रिसालत के सच्च होने की जानकारी हो जाए ?,” उस ने कहा कि मेरे माता पिता आप पर क़ुरबान हों, आप कितने बुर्दबार हैं, कितने सम्मानित हैं और कितने रहमदिली करने वाले हैं, अल्लाह की क़सम, उस समय तक तो मेरे दिल में कुछ न कुछ झिझक थी। हज़रत अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा कि अबु सुफ़ियान, तू हलाक हो जाए, इस्लाम स्वीकार कर और अल्लाह तआला के सच्चा ईश्वर होने और मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के रसूल होने की गवाही दे, इस से पहले कि तेरी गर्दन उतार दी जाए। बस उसने गवाही दी और इस्लाम स्वीकार कर लिया। मैं (अब्बास) ने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, बेशक अबु सुफ़ियान घमंड (यानि समझौते और पद) को पसंद करता है, उस लिये इस सिलसिले में उसका इकराम कीजिए। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया “हाँ, जो बंदा अबु सुफ़ियान के घर में चला गया वह सुरक्षित हो जाएगा और अपना दरवाज़ा बंद कर देने वाले को भी सुरक्षा दी जाएगी और मस्जिद में जाएने वाला भी अमन पाएगा।” जब वह जाने लगा तो रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया कि “अब्बास, इसको ख़तम अलजबल के पास तंग घाटी में रोक लेना, ताकि जब अल्लाह तआला ٰ की फ़ौजें गुज़रें तो यह देख सके।” अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि मैं उसके साथ निकला और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के हुक्म के अनुसार उसी जगह पर उसको रोक लिया। क़बीले अपने अपने झंडे लेकर गुज़रने लगे। जब एक क़बीले का गुज़र हुआ तो यह पूछता कि यह कौन हैं ? मैं ने कहा कि सलीम क़बीले वाले। फिर उसने कहा कि मेरा सलीम के साथ क्या संबंध है ? इतने में अगला क़बीला गुज़रा तो उसने पूछा कि यह कौन हैं ? मैं ने कहा कि मुज़ेनह क़बीले वाले हैं। उसने कहा कि मेरा मुज़ेनह के साथ क्या संबंध है ? ऐसे ही होता रहा यहाँ तक कि क़बीले ख़त्म हो गए, जब भी कोई क़बीला गुज़रता तो यह पूछता कि यह कौन हैं, मैं केहता कि यह फ़लां क़बीले वाले हैं, फिर वह केहता कि मेरा इनके साथ क्या संबंध है ? यहाँ तक कि आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम बड़ी फ़ौज के साथ गुज़रे, उसमें महाजिर और अन्सार थे, हर ओर से लोहे की स्याही नज़र आरही थी। उसने कहा कि सुब्हान अल्लाह, अब्बास, यह कौन हैं ? मैं ने कहा यह महाजिरों और अन्सार के साथ में अल्लाह के रसूल सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम हैं। उसने कहा कि अबूल्फ़ज़ल, अल्लाह की क़सम, इनके मुक़ाबले की किसी को कोई शक्ति और क़ुदरत हासिल नहीं है, तेरे भतीजे की बादशाहत महान हो गई है ? मैं ने कहा कि अबु सुफ़ियान, बेशक यह नबवत है। उसने कहा कि जी हाँ बिलकुल। मैं ने कहा कि अपनी क़ौम के लिये मुक्ति की मांग करो। बस वह वहां से निकल पड़ा और अपनी क़ौम के पास पहुंच कर ऊँची आवाज़ से कहा कि क़ुरैशियों, यह मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम आगए हैं, ऐसी फ़ौज के साथ कि तुम में जिस का मुक़ाब्ला करने की कोई शक्ति नहीं है, (सुनो) जो अबु सुफ़ियान के घर में चला गया, वह अमन पाएगा। यह सुनकर उसकी पत्नी हिन्द बिन्त उतबह खड़ी हुई, उसकी मूंछें पकड़ीं और कहा कि क़त्ल करदो इस काले रंग के घटिया आदमी को, क़ौम का प्रमुख ही बुरा हो गया है, उसने कहा कि तुम बरबाद हो जाओ, अपने आप को धोके में न डालो, मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम जिस फ़ौज के साथ आया है, तुम में उसका मुक़ाब्ला करने की शक्ति नहीं है, (सुनो) जो भी अबु सुफ़ियान के घर में चला गया, उसे सुरक्षा मिल जाएगी। उन्हों ने कहा कि तू हलाक हो जाए, तेरा घर कितनों को बचाले गा ? उसने कहा कि और जिस ने अपना दरवाज़ा बंद कर लिया, वह भी अमन में रहेगा और जो मस्जिद में चला गया, वह भी अमन पाएगा। (यह सुनकर) लोग अपने घरों और मस्जिद की ओर चल पड़े।
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3341

قال الشيخ الألباني:
- (مضى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، واستخلف على المدينة أبا رُهْمٍ كلثوم بن حُصين الغفاري. وخرج لعشر مضين من رمضان، فصام رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وصام الناس معه، حتى إذا كان بـ (الكديد)
‏‏‏‏_____________________
‏‏‏‏
‏‏‏‏(¬1) ما بين (عُسْفان) و (أمَجَ) أفطر.
‏‏‏‏ثم مضَى حتى نزل (مرَّ الظّهران)
‏‏‏‏(¬2) في عشَرة آلاف من المسلمين؛
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) قلت: وفي "البخاري " (4275) : حتى إذا بلغ (الكديد) : الماء الذي بين (قديد)
‏‏‏‏و (عسفان) أفطر. و (أمج) : بلد من أعراض المدينة على يومين أو ثلاثة منها؛ كما في "معجم البلدان ". وعليه ففي ذكره هنا نظر. والله أعلم.
‏‏‏‏(¬2)
‏‏‏‏(الظهران) : واد قرب مكة، وعنده قرية يقال لها: (مَر) تضاف إليه. "معجم ". ******
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1023__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏من مزينة وسُليم، وفي كل القبائل عدد وإسلام، وأوعب (¬1) مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - المهاجرون والأنصار، فلم يتخلف منهم أحد، فلما نزل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ب (مرِّ الظَّهران) ، وقد عميت الأخبار عن قريش؛ فلم يأتهم عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خبر، ولا يدرون ما هو فاعل؟!
‏‏‏‏خرج في تلك الليلة أبو سفيان بن حرب، وحكيم بن حزام، وبديل ابن ورقاء، يتحسسون وينظرون؛ هل يجد ون خبراً، أو يسمعون به؟! وقد كان العباس بن عبد المطلب أتى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ببعض الطريق.
‏‏‏‏وقد كان أبو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب، وعبد الله بن أبي أمية بن المغيرة قد لقيا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -[أيضاً] فيما بين مكة والمدينة، فالتمسا الدخول عليه، فكلمته أم سلمة فيهما، فقالت: يا رسول الله! ابن عمك، وابن عمتك وصهرك، قال:
‏‏‏‏لا حاجة لي بهما، أما ابن عمي، فهتك عرضي (¬2) ، وأما ابن عمتي وصهري، فهو الذي قال لي بمكة ما قال (¬3) .
‏‏‏‏فلما أخرج إليهما بذلك- ومع أبي سفيان بنيٌّ له- فقال: والله
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) أي: خرج جميعهم معه - صلى الله عليه وسلم -.
‏‏‏‏(¬2) العرض: موضع المدح والذم من الإنسان، سواء كان في نفسه أو في خلفه، أو من يلزمه أمره. "نهاية"، ويشير إلى (عبد الله بن أبي أمية) أخي أم سلمة أم المؤمنين.
‏‏‏‏(¬3) يشير- والله أعلم- إلى قوله مع جماعة من المشركين كما في القرآن الكريم: (وقالوا لن نؤمن لك حتى تفجر لنا من الأرض ينبوعاً ... ) الآيات (90- 93/ الإسراء) . انظر "تفسير ابن كثير" (3/62- 63) . ******
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1024__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏ليأذنن لي أو لآخذن بيد ابني هذا، ثم لنذهبن في الأرض حتى نموت عطشاً وجوعاً، فلما بلغ ذلك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - رق لهما، ثم أذن لهما، فد خلا وأسلما. (¬1)
‏‏‏‏فلما نزل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بـ (مر الظهران) ؛ قال العباس: واصباح فريش! والله لئن دخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عنوة قبل أن يستأمنوه؛ إنه لهلاك قريش إلى آخر الدهر. قال: فجلست على بغلة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - البيضاء؛ فخرجت عليها حتى جئت الأراك، فقلت: لعلي ألقى بعض الحطابة، أو صاحب لبن، أو ذا حاجة يأتي مكة ليخبرهم بمكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ليخرجوا إليه، فيستأمنونه قبل أن يد خلها عليهم عنوة. قال: فوالله إني لأسير عليها وألتمس ما خرجت له؛ إذ سمعت كلام أبي سفيان وبد يل بن ورقاء؛ وهما يتراجعان، وأبو سفيان يقول: ما رأيت كاليوم قط نيراناً ولا عسكراً. قال يقول بديل: هذه- والله- نيران خزاعة؛ حمشتها الحرب (¬2) . قال: يقول أبو سفيان: خزاعة- والله- أذل وألأم من أن تكون هذه نيرانها وعسكرها. قال: فعرفت صوته، فقلت: يا أبا حنظلة! فعرف صوتي فقال: أبو الفضل؟ فقلت: نعم، قال: ما لك فداك أبي وأمي؟! فقلت: ويحك يا أبا سفيان! هذا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في الناس، واصباح قريش والله! قال: فما الحيلة فداك أبي وأمي؟! قال: قلت: والله لئن ظفر بك ليضربن عنقك، فاركب
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) هكذا وقعت هذه الفقرة والتي قبلها في القصة متقدمة على إسلامهما الآتي ذكره.
‏‏‏‏(¬2) أي: أحرقتها الحرب. ******
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1025__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏معي هذه البغلة حتى آتي بك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أستأمنه لك. قال: فركب خلفي، ورجع صاحباه، فحركت به (¬1) ، كلما مررت بنار من نيران المسلمين قالوا: من هذا؟ فإذا رأوا بغلة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قالوا: عم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على بغلته، حتى مررت بنار عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: من هذا؟ وقام إليِّ، فلما رأى أبا سفيان على عجز الناقة قال؛. أبو سفيان عدو الله! الحمد لله الذي أمكن منك بغير عقد ولا عهد، ثم خرج يشتد نحو رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وركضت البغلة، فسبقته بما تسبق الدابة البطيئة (¬2) الرجل البطيء، فاقتحمت عن البغلة، فدخلت على رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ودخل عمر، فقال: يا رسول الله! هذا أبو سفيان، قد أمكن الله منه بغير عقد ولا عهد، فدعني فلأضرب عنقه، قال: قلت: يا رسول الله! إني [قد] أجرته، ثم جلست إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فأخذت برأسه فقلت: لا والله؛ لا يناجيه الليلة رجل دوني، فلما أكثر عمر في شأنه، قلت: مهلاً يا عمر! والله لو كان من رجال بني عديِّ بن كعب ما قلت هذا، ولكنك عرفت أنه رجل من رجال بني عبد مناف! فقال: مهلاً يا عباس! فو الله لإسلامك يوم أسلمت كان أحب إليّ من إسلام الخطاب لو أسلم، وما بي إلا أني قد عرفت أن إسلامك كان أحب إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من إسلام الخطاب [لو أسلم] ، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) كذا الأصل، و"المجمع "! وفي "السيرة!: (فجئت به) ، ولكل وجه.
‏‏‏‏(¬2) الأصل و"المجمع ": (البطيء) ! والمثبت من "السيرة"، و"تاريخ ابن كثير". ******
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1026__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏اذهب به إلى رحلك يا عباس! فإذا أصبح فأتني به.
‏‏‏‏فذهبت به إلى رحلي فبات عندي، فلما أصبح غدوت به إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فلما رآه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال:
‏‏‏‏ويحك يا أبا سفيان! ألم يأن لك أن تعلم أن لا إله إلا الله؟!.
‏‏‏‏قال: بأبي أنت وأمي، ما أكرمك [وأحلمك] وأوصلك! والله لقد ظننت أن لو كان مع الله غيره، لقد أغنى عني شيئاً [بعد] ، قال: ويحك يا أبا سفيان! ألم يأن لك أن تعلم أني رسول الله؟!.
‏‏‏‏قال: بأبي أنت وأمي، ما أحلمك وأكرمك وأوصلك! هذه- والله- كان في نفسي منها شيء حتى الآن (¬1) ، قال العباس: ويحك يا أبا سفيان! أسلم واشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمداً رسول الله قبل أن يضرب عنقك، قال: فشهد بشهادة الحق وأسلم (¬2) .
‏‏‏‏قلت: يا رسول الله! إن أبا سفيان رجل يحب هذا الفخر، فاجعل له شيئاً. قال:
‏‏‏‏نعم، من دخل دار أبي سفيان، فهو آمن، ومن أغلق بابه؛ فهو آمن، ومن دخل المسجد، فهو آمن.
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) كذا الأصل، و"المجمع "! وفي "السيرة": أما هذه- والله- فإن في النفس منها حتى الآن شيئاً ... والزيادات منه.
‏‏‏‏(¬2) انظر التعليق المتقدم رقم (1) صفحة (1025) . ******
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1027__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏فلما ذهب لينصرف؛ قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:
‏‏‏‏يا عباس! احبسه بمضيق الوادي عند خطم الجبل، حتى تمر به جنود الله فيراها.
‏‏‏‏قال: فخرجت به حتى حبسته حيث أمرني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن أحبسه. قال: ومرت به القبائل على راياتها، كلما مرت قبيلة قال: من هؤلاء؟ فأقول: (سُليم) ، فيقول: ما لي ولـ (سليم) ؟ قال: ثم تمر القبيلة، قال: من هؤلاء؟ فأقول: (مزينة) ، فيقول: ما لي ولـ (مزينة) ؟ حتى تفذت (¬1) القبائل؛ لا تمر قبيلة إلا قال: من هؤلاء؟ فأقول: بنو فلان، فيقول: ما لي ولبني فلان؟ حتى مر رسول الله في كتيبته الخضراء (¬2) فيها المهاجرون والأنصار، لا يرى منهم إلا الحدق [من الحديد] ، قال: سبحان الله! من هؤلاء يا عباس؟! قلت: هذا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في المهاجرين والأنصار، قال: ما لأحد بهؤلاء قبل ولا طاقة، والله يا أبا الفضل! لقد أصبح ملك ابن أخيك الغداة عظيماً! قلت: يا أبا سفيان! إنها النبوة، قال: فنعم إذاً، قلت: النجاء إلى قومك.
‏‏‏‏قال: فخرج حتى إذا جاءهم؛ صرخ بأعلى صوته: يا معشر قريش!
‏‏‏‏هذا محمد قد جاءكم بما لا قبل لكم به، فمن دخل دار أبي سفيان؛ فهو آمن، فقامت إليه امرأته هند بنت عتبة، فأخذت بشاربه فقالت:
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) الأصل: (تعدت) ! والتصحيح من " السيرة"، و"البداية ".
‏‏‏‏(¬2) الأصل: (في الخضراء كتيبة) ! والمثبت من المصدرين المذكورين. ******************
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1028__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏اقتلوا الدسم الأحمش (¬1) قبح من طليعة قوم! قال: ويحكم لا تغرنكم هذه من أنفسكم، فإنه قد جاء ما لا قبل لكم به، من دخل دار أبي سفيان؛ فهو آمن، قالوا: ويلك وما تغني دارك؟! قال: ومن أغلق بابه؛ فهو آمن، ومن دخل المسجد، فهو آمن. فتفرق الناس إلى دورهم، وإلى المسجد) .
‏‏‏‏أخرجه ابن إسحاق في "السيرة" (4/17- 24- ابن هشام) ، والطبراني في "المعجم الكبير" (8/ 10- 15) - والسياق له-، والطبري في "التاريخ " (3/ 114) - ببعضه-، وكذا الحاكم (3/43- 44) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" (5/32) ، وأبو داود (3021) - فقرة منه (¬2) - من طريق محمد بن إسحاق: حدثني محمد بن مسلم الزهري عن عبيد الله بن عتبة بن عبد الله بن مسعود عن ابن عباس به. وقال الحاكم: "صحيح على شرط مسلم "، ووافقه الذهبي!
‏‏‏‏ونحوه قول الهيثمي في "المجمع " (6/167) :
‏‏‏‏"رواه الطبراني، ورجاله رجال الصحيح ".
‏‏‏‏فأقول: محمد بن إسحاق إنما أخرج له مسلم متابعة، وهو حسن الحديث - بعامة- بشرط التصريح بالتحديث كما هنا، وهو حجة في السيرة النبوية كما هو معروف عند العلماء، ولذلك نقله الحافظ ابن كثير في تاريخه "البداية" (4/288- 291) عن "السيرة" ساكتاً عنه، وكذلك الحافظ في "الفتح " (7/8- 12) قطعاً
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) (الدسم) : ا


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.