الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
24. بَابُ قَتْلُ حَمْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
24. باب: حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بیان۔
(24) Chapter. The martyrdom of Hamza bin Abdul-Muttalib.
حدیث نمبر: 4072
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثني ابو جعفر محمد بن عبد الله حدثنا حجين بن المثنى حدثنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة عن عبد الله بن الفضل عن سليمان بن يسار عن جعفر بن عمرو بن امية الضمري قال خرجت مع عبيد الله بن عدي بن الخيار، فلما قدمنا حمص قال لي عبيد الله هل لك في وحشي نساله عن قتل حمزة قلت نعم. وكان وحشي يسكن حمص فسالنا عنه فقيل لنا هو ذاك في ظل قصره، كانه حميت. قال فجئنا حتى وقفنا عليه بيسير، فسلمنا، فرد السلام، قال وعبيد الله معتجر بعمامته، ما يرى وحشي إلا عينيه ورجليه، فقال عبيد الله يا وحشي اتعرفني قال فنظر إليه ثم قال لا والله إلا اني اعلم ان عدي بن الخيار تزوج امراة يقال لها ام قتال بنت ابي العيص، فولدت له غلاما بمكة، فكنت استرضع له، فحملت ذلك الغلام مع امه، فناولتها إياه، فلكاني نظرت إلى قدميك. قال فكشف عبيد الله عن وجهه ثم قال الا تخبرنا بقتل حمزة قال نعم، إن حمزة قتل طعيمة بن عدي بن الخيار ببدر، فقال لي مولاي جبير بن مطعم إن قتلت حمزة بعمي فانت حر، قال فلما ان خرج الناس عام عينين- وعينين جبل بحيال احد، بينه وبينه واد- خرجت مع الناس إلى القتال، فلما اصطفوا للقتال خرج سباع فقال هل من مبارز قال فخرج إليه حمزة بن عبد المطلب فقال يا سباع يا ابن ام انمار مقطعة البظور، اتحاد الله ورسوله صلى الله عليه وسلم قال ثم شد عليه فكان كامس الذاهب- قال- وكمنت لحمزة تحت صخرة فلما دنا مني رميته بحربتي، فاضعها في ثنته حتى خرجت من بين وركيه- قال- فكان ذاك العهد به، فلما رجع الناس رجعت معهم فاقمت بمكة، حتى فشا فيها الإسلام، ثم خرجت إلى الطائف، فارسلوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، فقيل لي إنه لا يهيج الرسل- قال- فخرجت معهم حتى قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رآني قال: «آنت وحشي» . قلت نعم. قال: «انت قتلت حمزة» . قلت قد كان من الامر ما بلغك. قال: «فهل تستطيع ان تغيب وجهك عني» . قال فخرجت، فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج مسيلمة الكذاب قلت لاخرجن إلى مسيلمة لعلي اقتله فاكافئ به حمزة- قال- فخرجت مع الناس، فكان من امره ما كان- قال- فإذا رجل قائم في ثلمة جدار، كانه جمل اورق ثائر الراس- قال- فرميته بحربتي، فاضعها بين ثدييه حتى خرجت من بين كتفيه- قال- ووثب إليه رجل من الانصار، فضربه بالسيف على هامته. قال: قال عبد الله بن الفضل فاخبرني سليمان بن يسار انه سمع عبد الله بن عمر يقول فقالت جارية على ظهر بيت وا امير المؤمنين، قتله العبد الاسود.حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ قَالَ لِي عُبَيْدُ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِي وَحْشِيٍّ نَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَةَ قُلْتُ نَعَمْ. وَكَانَ وَحْشِيٌّ يَسْكُنُ حِمْصَ فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَقِيلَ لَنَا هُوَ ذَاكَ فِي ظِلِّ قَصْرِهِ، كَأَنَّهُ حَمِيتٌ. قَالَ فَجِئْنَا حَتَّى وَقَفْنَا عَلَيْهِ بِيَسِيرٍ، فَسَلَّمْنَا، فَرَدَّ السَّلاَمَ، قَالَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِهِ، مَا يَرَى وَحْشِيٌّ إِلاَّ عَيْنَيْهِ وَرِجْلَيْهِ، فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ يَا وَحْشِيُّ أَتَعْرِفُنِي قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لاَ وَاللَّهِ إِلاَّ أَنِّي أَعْلَمُ أَنَّ عَدِيَّ بْنَ الْخِيَارِ تَزَوَّجَ امْرَأَةً يُقَالُ لَهَا أُمُّ قِتَالٍ بِنْتُ أَبِي الْعِيصِ، فَوَلَدَتْ لَهُ غُلاَمًا بِمَكَّةَ، فَكُنْتُ أَسْتَرْضِعُ لَهُ، فَحَمَلْتُ ذَلِكَ الْغُلاَمَ مَعَ أُمِّهِ، فَنَاوَلْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَكَأَنِّي نَظَرْتُ إِلَى قَدَمَيْكَ. قَالَ فَكَشَفَ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ أَلاَ تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَةَ قَالَ نَعَمْ، إِنَّ حَمْزَةَ قَتَلَ طُعَيْمَةَ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ بِبَدْرٍ، فَقَالَ لِي مَوْلاَيَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَةَ بِعَمِّي فَأَنْتَ حُرٌّ، قَالَ فَلَمَّا أَنْ خَرَجَ النَّاسُ عَامَ عَيْنَيْنِ- وَعَيْنَيْنِ جَبَلٌ بِحِيَالِ أُحُدٍ، بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ وَادٍ- خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَى الْقِتَالِ، فَلَمَّا اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ خَرَجَ سِبَاعٌ فَقَالَ هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ قَالَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ يَا سِبَاعُ يَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُورِ، أَتُحَادُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَكَانَ كَأَمْسِ الذَّاهِبِ- قَالَ- وَكَمَنْتُ لِحَمْزَةَ تَحْتَ صَخْرَةٍ فَلَمَّا دَنَا مِنِّي رَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُهَا فِي ثُنَّتِهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ وَرِكَيْهِ- قَالَ- فَكَانَ ذَاكَ الْعَهْدَ بِهِ، فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَهُمْ فَأَقَمْتُ بِمَكَّةَ، حَتَّى فَشَا فِيهَا الإِسْلاَمُ، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى الطَّائِفِ، فَأَرْسَلُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولاً، فَقِيلَ لِي إِنَّهُ لاَ يَهِيجُ الرُّسُلَ- قَالَ- فَخَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: «آنْتَ وَحْشِيٌّ» . قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ: «أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَةَ» . قُلْتُ قَدْ كَانَ مِنَ الأَمْرِ مَا بَلَغَكَ. قَالَ: «فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُغَيِّبَ وَجْهَكَ عَنِّي» . قَالَ فَخَرَجْتُ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ قُلْتُ لأَخْرُجَنَّ إِلَى مُسَيْلِمَةَ لَعَلِّي أَقْتُلُهُ فَأُكَافِئَ بِهِ حَمْزَةَ- قَالَ- فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ- قَالَ- فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَةِ جِدَارٍ، كَأَنَّهُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرُ الرَّأْسِ- قَالَ- فَرَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُهَا بَيْنَ ثَدْيَيْهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ- قَالَ- وَوَثَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَضَرَبَهُ بِالسَّيْفِ عَلَى هَامَتِهِ. قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ فَأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ فَقَالَتْ جَارِيَةٌ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ وَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَتَلَهُ الْعَبْدُ الأَسْوَدُ.
مجھ سے ابو جعفر محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حجین بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن فضل نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب حمص پہنچے تو مجھ سے عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ کو وحشی (ابن حرب حبشی جس نے غزوہ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور ہندہ زوجہ ابوسفیان نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا) سے تعارف ہے۔ ہم چل کے ان سے حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں معلوم کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ضرور چلو۔ وحشی حمص میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں، جیسے کوئی بڑا سا کپا ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے پاس کھڑے رہے۔ پھر سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ بیان کیا کہ عبیداللہ نے اپنے عمامہ کو جسم پر اس طرح لپیٹ رکھا تھا کہ وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں دیکھ سکتے تھے۔ عبیداللہ نے پوچھا: اے وحشی! کیا تم نے مجھے پہچانا؟ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس نے عبیداللہ کو دیکھا اور کہا کہ نہیں، اللہ کی قسم! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا۔ اسے ام قتال بنت ابی العیص کہا جاتا تھا پھر مکہ میں اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور میں اس کے لیے کسی دایا کی تلاش کے لیے گیا تھا۔ پھر میں اس بچے کو اس کی (رضاعی) ماں کے پاس لے گیا اور اس کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ غالباً میں نے تمہارے پاؤں دیکھے تھے۔ بیان کیا کہ اس پر عبیداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا اور کہا، ہمیں تم حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات بتا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کر دیا تو تم آزاد ہو جاؤ گے۔ انہوں نے بتایا کہ پھر جب قریش عینین کی جنگ کے لیے نکلے۔ عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اور اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے ہو لیا۔ جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے) لڑنے کے لیے صف آراء ہو گئیں تو (قریش کی صف میں سے) سباع بن عبدالعزیٰ نکلا اور اس نے آواز دی، ہے کوئی لڑنے والا؟ بیان کیا کہ (اس کی اس دعوت مبازرت پر) امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نکل کر آئے اور فرمایا، اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی، تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے؟ بیان کیا کہ پھر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس پر حملہ کیا (اور اسے قتل کر دیا) اب وہ واقعہ گزرے ہوئے دن کی طرح ہو چکا تھا۔ وحشی نے بیان کیا کہ ادھر میں ایک چٹان کے نیچے حمزہ رضی اللہ عنہ کی تاک میں تھا اور جوں ہی وہ مجھ سے قریب ہوئے، میں نے ان پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا، نیزہ ان کی ناف کے نیچے جا کر لگا اور ان کی سرین کے پار ہو گیا۔ بیان کیا کہ یہی ان کی شہادت کا سبب بنا، پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آ گیا اور مکہ میں مقیم رہا۔ لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آ گیا تو میں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا تو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاء کسی پر زیادتی نہیں کرتے (اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد تمہاری پچھلی تمام غلطیاں معاف ہو جائیں گی) چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا، کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ہی نے حمزہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے عرض کیا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے میں معلوم ہے وہی صحیح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: کیا تم ایسا کر سکتے ہو کہ اپنی صورت مجھے کبھی نہ دکھاؤ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نکل گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو مسیلمہ کذاب نے خروج کیا۔ اب میں نے سوچا کہ مجھے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے میں اسے قتل کر دوں اور اس طرح حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدل ہو سکے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی اس کے خلاف جنگ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلا۔ اس سے جنگ کے واقعات سب کو معلوم ہیں۔ بیان کیا کہ (میدان جنگ میں) میں نے دیکھا کہ ایک شخص (مسیلمہ) ایک دیوار کی دراز سے لگا کھڑا ہے۔ جیسے گندمی رنگ کا کوئی اونٹ ہو۔ سر کے بال منتشر تھے۔ بیان کیا کہ میں نے اس پر بھی اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ اس کے سینے پر لگا اور شانوں کو پار کر گیا۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک صحابی انصاری جھپٹے اور تلوار سے اس کی کھوپڑی پر مارا۔ انہوں (عبدالعزیز بن عبداللہ) نے کہا، ان سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا کہ پھر مجھے سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ (مسیلمہ کے قتل کے بعد) ایک لڑکی نے چھت پر کھڑی ہو کر اعلان کیا کہ امیرالمؤمنین کو ایک کالے غلام (یعنی وحشی) نے قتل کر دیا۔

Narrated Jafar bin `Amr bin Umaiya: I went out with 'Ubaidullah bin `Adi Al-Khaiyar. When we reached Hims (i.e. a town in Syria), 'Ubaidullah bin `Adi said (to me), "Would you like to see Wahshi so that we may ask him about the killing of Hamza?" I replied, "Yes." Wahshi used to live in Hims. We enquired about him and somebody said to us, "He is that in the shade of his palace, as if he were a full water skin." So we went up to him, and when we were at a short distance from him, we greeted him and he greeted us in return. 'Ubaidullah was wearing his turban and Wahshi could not see except his eyes and feet. 'Ubaidullah said, "O Wahshi! Do you know me?" Wahshi looked at him and then said, "No, by Allah! But I know that `Adi bin Al-Khiyar married a woman called Um Qital, the daughter of Abu Al-Is, and she delivered a boy for him at Mecca, and I looked for a wet nurse for that child. (Once) I carried that child along with his mother and then I handed him over to her, and your feet resemble that child's feet." Then 'Ubaidullah uncovered his face and said (to Wahshi), "Will you tell us (the story of) the killing of Hamza?" Wahshi replied "Yes, Hamza killed Tuaima bin `Adi bin Al-Khaiyar at Badr (battle) so my master, Jubair bin Mut`im said to me, 'If you kill Hamza in revenge for my uncle, then you will be set free." When the people set out (for the battle of Uhud) in the year of 'Ainain ..'Ainain is a mountain near the mountain of Uhud, and between it and Uhud there is a valley.. I went out with the people for the battle. When the army aligned for the fight, Siba' came out and said, 'Is there any (Muslim) to accept my challenge to a duel?' Hamza bin `Abdul Muttalib came out and said, 'O Siba'. O Ibn Um Anmar, the one who circumcises other ladies! Do you challenge Allah and His Apostle?' Then Hamza attacked and killed him, causing him to be non-extant like the bygone yesterday. I hid myself under a rock, and when he (i.e. Hamza) came near me, I threw my spear at him, driving it into his umbilicus so that it came out through his buttocks, causing him to die. When all the people returned to Mecca, I too returned with them. I stayed in (Mecca) till Islam spread in it (i.e. Mecca). Then I left for Taif, and when the people (of Taif) sent their messengers to Allah's Apostle, I was told that the Prophet did not harm the messengers; So I too went out with them till I reached Allah's Apostle. When he saw me, he said, 'Are you Wahshi?' I said, 'Yes.' He said, 'Was it you who killed Hamza?' I replied, 'What happened is what you have been told of.' He said, 'Can you hide your face from me?' So I went out when Allah's Apostle died, and Musailamah Al-Kadhdhab appeared (claiming to be a prophet). I said, 'I will go out to Musailamah so that I may kill him, and make amends for killing Hamza. So I went out with the people (to fight Musailamah and his followers) and then famous events took place concerning that battle. Suddenly I saw a man (i.e. Musailamah) standing near a gap in a wall. He looked like an ash-colored camel and his hair was dishevelled. So I threw my spear at him, driving it into his chest in between his breasts till it passed out through his shoulders, and then an Ansari man attacked him and struck him on the head with a sword. `Abdullah bin `Umar said, 'A slave girl on the roof of a house said: Alas! The chief of the believers (i.e. Musailamah) has been killed by a black slave."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 399


   صحيح البخاري4072ألا تخبرنا بقتل حمزة قال نعم إن حمزة قتل طعيمة بن عدي بن الخيار ببدر فقال لي مولاي جبير بن مطعم إن قتلت حمزة بعمي فأنت حر قال فلما أن خرج الناس عام عينين وعينين جبل بحيال أحد بينه وبينه واد خرجت مع الناس إلى القتال فلما أن اصطفوا للقتال خرج سباع فقال هل م

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4072  
4072. حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری سے روایت ہے، اس نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب ہم حمص پہنچے تو مجھے عبیداللہ بن عدی نے کہا: کیا تمہیں وحشی بن حرب حبشی ؓ کو دیکھنے کی خواہش ہے، ہم اس سے حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں؟ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وحشی نے حمص میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ہم نے اس کے متعلق لوگوں سے پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ گویا وہ پانی سے بھری ہوئی سیاہ مشک ہے۔ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے ہاں ٹھہرے رہے۔ پھر ہم نے سلام کیا تو انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ عبیداللہ نے پگڑی کے ساتھ چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔ حضرت وحشی ؓ کو صرف اس کی آنکھیں اور پاؤں نظر آ رہے تھے۔ عبیداللہ نے پوچھا: اے وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وحشی نے عبیداللہ کی طرف دیکھ کر کہا: نہیں، اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4072]
حدیث حاشیہ:
عرب میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی ختنہ ہوتا تھا اور جس طرح مردوں کے ختنے مرد کیا کرتے تھے عورتوں کے ختنے عورتیں کیا کرتی تھیں۔
یہ طریقہ جاہلیت میں بھی رائج تھا اور اسلام نے اسے باقی رکھا کیونکہ ابراہیم ؑ کی جو بعض سنتیں عربوں باقی رہ گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔
چونکہ سباع بن عبدالعزی کی ماں عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی اس لیے حمزہ ؓ نے اسے اس کی ماں کے پیشے کی عار دلائی۔
وحشی مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے بعد اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔
لیکن انہوں نے آپ ﷺ کے محترم چچا حضرت حمزہ ؓ کو قتل کیا تھا اتنی بے دردی سے کہ جب وہ شہید ہو گئے تو ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور لاش کو بگاڑدیا۔
اس لیے یہ ایک قدرتی بات تھی کہ انہیں دیکھ کر حمزہ ؓ کی غم انگیز شہادت آنحضرت ﷺ کو یاد آجاتی۔
اس لیے آپ نے اس کو اپنے سے دور رہنے کے لیے فرمایا۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کو سید الشہداء قرار دیا۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَمِسُ حَمْزَةَ فَوَجَدَهُ بِبَطْنِ الْوَادِي قَدْ مُثِّلَ بِهِ فَقَالَ لَوْلَا أَنْ تَحْزَنَ صَفِيَّةُ يَعْنِي بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَتَكُونُ سُنَّةً بَعْدِي لَتَرَكْتُهُ حَتَّى يُحْشَرَ مِنْ بُطُونِ السِّبَاعِ وحواصل الطير زَاد بن هِشَامٍ قَالَ وَقَالَ لَنْ أُصَابَ بِمِثْلِكَ أَبَدًا وَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَقَالَ إِنَّ حَمْزَةَ مَكْتُوبٌ فِي السَّمَاءِ أَسَدُ اللَّهِ وَأَسَدُ رَسُولِهِ وَرَوَى الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ فِيهِ ضَعْفٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى حَمْزَةَ قَدْ مُثِّلَ بِهِ قَالَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ لَقَدْ كُنْتَ وَصُولًا لِلرَّحِمِ فَعُولًا لِلْخَيْرِ وَلَوْلَا حُزْنُ مَنْ بَعْدِكَ لَسَرَّنِي أَنْ أَدَعَكَ حَتَّى تُحْشَرَ مِنْ أَجْوَافٍ شَتَّى ثُمَّ حَلَفَ وَهُوَ بِمَكَانِهِ لَأُمَثِّلَنَّ بِسَبْعِينَ مِنْهُمْ فَنَزَلَ الْقُرْآن وان عَاقَبْتُمْ الْآيَةَ الخ (فتح الباری)
یعنی احد کے موقع پر رسول کریم ﷺ حضرت امیر حمزہ ؓ کی لاش تلاش کرنے نکلے تو اس کو ایک وادی میں پایا جس کا مثلہ کردیا گیا تھا۔
آپ کو اسے دیکھ کر اتنا غم ہوا کہ آپ نے فرمایا اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبد المطلب کو اپنے بھائی کی لاش کا یہ حال دیکھ کر کس قدر صدمہ ہوگا اور یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ میرے بعد ہر شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں اس لاش کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا۔
اسے درندے اور پرندے کھا جاتے اور یہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔
ابن ہشام نے یہ زیادہ کیا کہ آپ نے فرمایا اے حمزہ! ایسا برتاؤ جیسا تمہارے ساتھ ان کافروں نے کیا ہے کسی کے ساتھ کبھی نہ ہوا ہوگا۔
اسی اثناءمیں حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا کہ حضرت ا میر حمزہ ؓ کا آسمانوں میں یہ نام لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں اور بزار اور طبرانی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب امیر حمزہ ؓ کی لاش کو دیکھا تو فرمایا اے حمزہ! اللہ پاک تم پر رحم کرے۔
تم بہت ہی صلہ رحمی کرنے والے بہت ہی نیک کام کرنے والے تھے اور اگر تمہارے بعد یہ غم باقی رہنے کا ڈر نہ ہوتا تو میری خوشی تھی کہ تمہاری لاش اسی حال میں چھوڑدیتا اور تم کو مختلف جانورکھا جاتے اور تم ان کے پیٹوں سے نکل کر میدان حشر میں حاضری دیتے۔
پھر آپ نے اسی جگہ قسم کھائی کہ میں کفار کے ستر آدمیوں کے ساتھ یہی معاملہ کروں گا۔
اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی اور اگر تم دشمنوں کو تکلیف دینا چاہو تو اسی قدر دے سکتے ہو جتنی تم کو ان کی طرف سے دی گئی ہے اور اگر صبر کرو اور کوئی بدلہ نہ لو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ یا اللہ! میں اب بالکل بدلہ نہ لوں گا بلکہ صبر ہی کروں گا۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4072   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4072  
4072. حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری سے روایت ہے، اس نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب ہم حمص پہنچے تو مجھے عبیداللہ بن عدی نے کہا: کیا تمہیں وحشی بن حرب حبشی ؓ کو دیکھنے کی خواہش ہے، ہم اس سے حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں؟ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وحشی نے حمص میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ہم نے اس کے متعلق لوگوں سے پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ گویا وہ پانی سے بھری ہوئی سیاہ مشک ہے۔ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے ہاں ٹھہرے رہے۔ پھر ہم نے سلام کیا تو انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ عبیداللہ نے پگڑی کے ساتھ چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔ حضرت وحشی ؓ کو صرف اس کی آنکھیں اور پاؤں نظر آ رہے تھے۔ عبیداللہ نے پوچھا: اے وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وحشی نے عبیداللہ کی طرف دیکھ کر کہا: نہیں، اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4072]
حدیث حاشیہ:

وحشی نے حضرت حمزہ ؓ کو ایسی بے دردی سے قتل کیا کہ ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور آپ کی لاش کو بگاڑدیا۔

یہ ایک قدرتی بات تھی کہ وحشی کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو حضرت حمزہ ؓ کی المناک شہادت یاد آجاتی، اس لیے آپ نے اسے اپنے سے دوررہنے کی تلقین فرمائی، بلکہ آپ نے اسے فرمایا:
اے وحشی!جاؤ اللہ کے راستے میں جہاد کرو جس طرح تم پہلے اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے تھے۔
پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک آپ کے سامنے نہیں آئے۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اُحد کے موقع پر ر سول اللہ ﷺ حضرت حمزہ ؓ کی لاش تلاش کرنے کے لیے نکلے تو انھیں ایک نشیبی علاقے میں پایا۔
ان کی شکل کو بگاڑدیا گیا تھا۔
انھیں دیکھ کر آپ کو بہت غم ہوا۔
آپ نے فرمایا:
اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر کس قدر صدمے سے نڈھال ہوگی، نیز میرے بعد لوگ شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں انھیں اس حالت میں چھوردیتا، اسے درندے اور پرندے کھاجاتے پھر قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے برآمد ہوکر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔
(مسند أبي یعلیٰ (حسین سلیم)
حدیث 3568 و فتح الباري: 464/7)


اگرچہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، تاہم وحشی کے دل میں اللہ کا ڈر تھا انھوں نے سوچا کہ جس طرح میں نے زمانہ کفر میں ایک بڑے جلیل القدر آدمی کو شہید کیا، اسی طرح زمانہ اسلام میں کسی خبیث اور بدترین انسان کو مار کر اس کا بدلہ چکاؤں، چنانچہ انھوں نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دورخلافت میں مسیلمہ کذاب کو قتل کیا جس کی تفصیل کتاب الفتن میں آئے گی۔

اس حدیث سے حضرت وحشی ؓ کی ذکاوت اور قیافہ شناسی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
ایک روایت میں تفصیل ہے کہ وحشی نے عبیداللہ سے کہا:
جب سے میں نے تجھے تیری رضاعی والدہ کے حوالے کیا، جس نے تجھے دودھ پلایا تھا، اس وقت سے آج تک نہیں دیکھا اور وہ بھی میں نے اس حالت میں اسے دیا تھا کہ وہ ذی طویٰ مقام میں اپنے اونٹ پر سوارتھی تو میں نے تجھے اٹھا کر اس کے حوالے کردیا تھا۔
اٹھاتے وقت مجھے تیراپاؤں نظر آیا تھا۔
اب تو میرے پاس آکر کھڑا ہوا ہے تو میں نے اس پاؤں کو پہچان لیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت وحشی ؓ نے عبیداللہ کے قدموں کو اس بچے کے قدموں سے تشبیہ دی جسے پچاس سال پہلے اٹھایا تھا۔
(فتح الباري: 461/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4072   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.