الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
30. بَابُ غَزْوَةُ الْخَنْدَقِ وَهْيَ الأَحْزَابُ:
30. باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
(30) Chapter. The Ghazwa of Al-Khandaq which is called Al-Ahzab Battle.
حدیث نمبر: Q4097
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال موسى بن عقبة: كانت في شوال سنة اربع.قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: كَانَتْ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ.
‏‏‏‏ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ غزوہ خندق شوال 4 ھ میں ہوا تھا۔

حدیث نمبر: 4097
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم , حدثنا يحيى بن سعيد , عن عبيد الله , قال: اخبرني نافع , عن ابن عمر رضي الله عنهما ," ان النبي صلى الله عليه وسلم عرضه يوم احد وهو ابن اربع عشرة سنة فلم يجزه , وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فاجازه".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ," أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً فَلَمْ يُجِزْهُ , وَعَرَضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَأَجَازَهُ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے آپ کو انہوں نے غزوہ احد کے موقع پر پیش کیا (تاکہ لڑنے والوں میں انہیں بھی بھرتی کر لیا جائے) اس وقت وہ چودہ سال کے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت نہیں دی۔ لیکن غزوہ خندق کے موقع پر جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منظور فرما لیا۔ اس وقت وہ پندرہ سال کی عمر کے تھے۔

Narrated Ibn `Umar: That the Prophet inspected him on the day of Uhud while he was fourteen years old, and the Prophet did not allow him to take part in the battle. He was inspected again by the Prophet on the day of Al- Khandaq (i.e. battle of the Trench) while he was fifteen years old, and the Prophet allowed him to take Part in the battle.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 423


   صحيح البخاري4097عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   صحيح البخاري2664عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني ثم عرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني قال نافع فقدمت على عمر بن عبد العزيز وهو خليفة فحدثته هذا الحديث فقال إن هذا لحد بين الصغير والكبير وكتب إلى عماله أن يفرضوا لمن بلغ خمس عشرة
   صحيح مسلم4837عبد الله بن عمرعرضني رسول الله يوم أحد في القتال وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني
   جامع الترمذي1711عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله في جيش وأنا ابن أربع عشرة فلم يقبلني ثم عرضت عليه من قابل في جيش وأنا ابن خمس عشرة فقبلني
   جامع الترمذي1361عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله في جيش وأنا ابن أربع عشرة فلم يقبلني فعرضت عليه من قابل في جيش وأنا ابن خمس عشرة فقبلني
   سنن أبي داود2957عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن أبي داود4406عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن النسائى الصغرى3461عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن ابن ماجه2543عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله يوم أحد وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضت عليه يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني
   بلوغ المرام731عبد الله بن عمرعرضت على النبي يوم احد وانا ابن اربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضت عليه يوم الخندق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2543  
´جس پر حد واجب نہیں ہے اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (غزوہ میں شریک ہونے کی) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی تو انہوں نے کہا: یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2543]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ پندرہ سال کی عمر بلوغت کی عمر ہے لہٰذااس عمر کےبچے کو بالغ شمار کرنا چاہیے۔

(2)
عام حالات میں بلوغت کی دوسری علامت پراعتماد کیا جاتا ہے مثلا:
زیر ناف بال آ جانا یا احتلام ہونا، لڑکیوں کا مہانہ نظام شروع ہونا۔
لیکن اگر کسی بچے یابچی میں مناسب عمرمیں یہ علامتیں ظاہرنہ ہوتوپندرہ سال عمر مکمل ہونے پرانھیں بالغ قرار دیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2543   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 731  
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے احد کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی۔ پھر خندق کے روز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت نہ دی اور مجھے بالغ نہیں سمجھا۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 731»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب بلوغ الصبيان وشهادتهم، حديث:2664، ومسلم، الإمارة، باب بيان سن البلوغ، حديث:1868، والبيهقي:3 /83.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے تصرفات کی عمر پندرہ سال میں شروع ہو جاتی ہے جسے قابل قبول اور قابل تسلیم سمجھا گیا ہے۔
2. مصنف بھی اس حدیث کو اس باب میں یہی بتانے کے لیے لائے ہیں کہ خرید و فروخت کس عمر کی قابل اعتبار ہے۔
گویا پندرہ سال سے کم عمر‘ بچہ اور پندرہ سال کا نوجوان‘ مردوں کے حکم میں آجاتا ہے۔
3.اس حدیث سے نوجوان کا شوق جہاد ملاحظہ کیجیے کہ آگے بڑھ کر خود اپنے آپ کو خدمت جہاد کے لیے پیش کرتا ہے۔
پہلی بار ناکامی کے بعد اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے عزم و ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
4.معلوم ہوا کہ فوج میں بھرتی کے لیے اس سے کم عمر والوں کو نہیں لینا چاہیے۔
5.اس سے یہ اصول بھی نکلا کہ فوج کی بھرتی کے لیے پہلے جسمانی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اگر مناسب نہ ہو تو واپس بھیج دیا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 731   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1711  
´حد بلوغت کا ذکر اور غنیمت سے اس کو کب حصہ دیا جائے گا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کر لیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہو جائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1711]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہوجائے تو وہ بلوغت کی حدکو پہنچ جاتا ہے،
اسی طرح سے زیرناف بال نکل آنا اوراحتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے،
اور لڑکی کو حیض آجائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1711   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2957  
´لڑائی میں کس عمر کے مرد کا حصہ لگایا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے اس وقت ان کی عمر (۱۴) سال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، پھر وہ غزوہ خندق کے موقع پر پیش کئے گئے اس وقت وہ پندرہ سال کے ہو گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2957]
فوائد ومسائل:

بچہ پندرہ سال کی عمر میں بالغ شمار ہوتا ہے۔
اور شرعی امور کا مکلف ہوجاتا ہے۔
لہذا اسے جنگ وقتال میں بھی شریک کیا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے اسے جنگ میں لے جانا درست نہیں۔


اور جب جنگ میں شریک ہوگا۔
تو غنیمت میں سے باقاعدہ حصہ پائے گا۔


پندرہ سال یا علامات بلوغت سے پہلے اگر کسی جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر شرعی حد لاگو نہیں ہوگی۔
تعزیر وتادیب ہوگی۔
اسی طرح اس کی دی ہوئی طلاق بھی نافذ العمل نہیں ہوگی۔
فیصلے میں اس کے ولی کی شمولیت ضروری ہوگی اور اسے اپنے مال سے باقاعدہ اور آزادانہ تصرف کا اختیار بھی اس کے بعد حاصل ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2957   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4097  
4097. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے خود کو غزوہ اُحد کے دن نبی ﷺ کے سامنے بھرتی کے لیے پیش کیا تو آپ نے انہیں اجازت نہ دی جبکہ ان کی عمر اس وقت چودہ سال تھی، لیکن غزوہ خندق کے موقع پر خود کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ پندرہ سال کی عمر میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4097]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ پندرہ سال کی عمر میں مرد بالغ تصور کیا جا تا ہے اور اس پر شرعی احکام پورے طور پر لاگو ہوجاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4097   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4097  
4097. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے خود کو غزوہ اُحد کے دن نبی ﷺ کے سامنے بھرتی کے لیے پیش کیا تو آپ نے انہیں اجازت نہ دی جبکہ ان کی عمر اس وقت چودہ سال تھی، لیکن غزوہ خندق کے موقع پر خود کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ پندرہ سال کی عمر میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4097]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ احد اور غزوہ خندق کے درمیان ایک سال کا وقفہ تھا کیونکہ غزوہ احد کے وقت حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی عمر چودہ برس تھی اور غزوہ خندق میں وہ پندرہ سال کے ہو گئےتھے۔

دراصل امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ کی تائید میں پیش کیا ہے کہ غزوہ خندق چار ہجری میں ہوا کیونکہ غزوہ احد کا تین ہجری میں ہونا یقینی ہے اور ایک سال بعد غزوہ خندق ہوا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ چار ہجری میں ہوا لیکن دوسرے سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ غزوہ خندق پانچ ہجری میں ہوا کیونکہ غزوہ احد کے موقع پر ابو سفیان نے کہا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر کے مقام پر لڑائی ہوگی مگر مکے میں قحط پڑ جانے کی وجہ سے ان کی تیاری نہ ہوسکی تو وہ اس سال یعنی چار ہجری میں نہ آئے جبکہ نبی ﷺ چار ہجری میں بدر کی طرف تشریف لے گئے تھے تاہم ابو سفیان اور دیگر مشرکین مکہ وگیرہ کے وہاں نہ آنے کی وجہ سے آپ ﷺ مدینہ طیبہ واپس تشریف لے آئے پھر اس کے بعد آئندہ سال پانچ ہجری میں ابو سفیان نے مختلف قبائل اور یہود مدینہ کو ساتھ ملا کر مدینے پر چڑھائی کی۔

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی پیش کردہ حدیث کا جواب یہ ہے کہ غزوہ احد کے وقت ان کی عمرکا چودھواں سال شروع ہو چکا تھا اور غزوہ خندق میں ان کی عمر کے پندرھویں سال کا اختتام تھا اس طرح غزوہ خندق کے درمیان دو سال کی مدت کا ہونا ناممکن نہیں ہے۔
اس لیے غزوہ خندق عام مشہور اور قابل اعتماد قول کے مطابق پانچ ہجری میں ہوا۔
(فتح الباری: 7/491)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4097   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.