الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
Chapters on Zuhd
34. بَابُ : صِفَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
34. باب: امت محمدیہ کی صفات۔
حدیث نمبر: 4282
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , قال , حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة , عن ابي مالك الاشجعي , عن ابي حازم , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تردون علي غرا محجلين من الوضوء سيماء امتي , ليس لاحد غيرها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , قَالَ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ , عَنْ أَبِي حَازِمٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنَ الْوُضُوءِ سِيمَاءُ أُمَّتِي , لَيْسَ لِأَحَدٍ غَيْرِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس آؤ گے اس حال میں کہ وضو کی وجہ سے تمہارے ہاتھ پاؤں اور پیشانیاں روشن ہوں گی، یہ میری امت کا نشان ہو گا، اور کسی امت کا یہ نشان نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 12 (247)، (تحفة الأشراف: 13399) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري136عبد الرحمن بن صخرأمتي يدعون يوم القيامة غرا محجلين من آثار الوضوء فمن استطاع منكم أن يطيل غرته فليفعل
   صحيح مسلم582عبد الرحمن بن صخرغرا محجلين من آثار الوضوء وليصدن عني طائفة منكم فلا يصلون فأقول يا رب هؤلاء من أصحابي فيجيبني ملك
   صحيح مسلم580عبد الرحمن بن صخرأمتي يأتون يوم القيامة غرا محجلين من أثر الوضوء فمن استطاع منكم أن يطيل غرته فليفعل
   صحيح مسلم579عبد الرحمن بن صخرأنتم الغر المحجلون يوم القيامة من إسباغ الوضوء فمن استطاع منكم فليطل غرته وتحجيله
   سنن ابن ماجه4282عبد الرحمن بن صخرغرا محجلين من الوضوء سيماء أمتي ليس لأحد غيرها
   بلوغ المرام40عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏إن امتي ياتون يوم القيامة غرا محجلين من اثر الوضوء،‏‏‏‏ فمن استطاع منكم ان يطيل غرته فليفعل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 40  
´اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا`
«. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: ‏‏‏‏إن امتي ياتون يوم القيامة غرا محجلين من اثر الوضوء،‏‏‏‏ فمن استطاع منكم ان يطيل غرته فليفعل . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے روز میری امت کہ لوگ ایسی حالت میں آئیں گے کہ وضو کے اثرات کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ تم میں سے جو شخص اس چمک اور روشنی کو زیادہ بڑھا سکتا ہو اسے ضرور بڑھانی چاہیئے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 40]

لغوی تشریح:
«غُرًّا» «یَأتُونَ» کی «هُمْ» ضمیر سے حال واقع ہو رہا ہے۔ غین پر ضمہ اور را پر تشدید ہے۔
«أَغُرًّ» کی جمع ہے اور «أَغُرًّ» اسے کہتے ہیں جس کے لیے سفیدی ہو۔ اور «غُرَّة» دراصل اس سفید چمک کو کہتے ہیں جو گھوڑے کی پیشانی میں ہوتی ہے۔
«مُحَجَّلِيْن» «تَحْجِيْل» سے اسم مفعول واقع ہو رہا ہے۔ اس سفیدی کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے پاؤں میں ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وضو کی چمک کی وجہ سے ان کے چہرے، ہاتھ اور پاؤں چمک رہے ہوں گے۔
«يُطِيلُ» «إِطَالَة» سے ماخوذ ہے۔ دراز، لمبا اور طویل کرنے کے معنی میں آتا ہے۔
«غُرَّتَهُ» اپنے چہرے کی چمک اور روشنی اور اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کی روشنی۔ مطلب یہ ہوا کہ جہاں تک پانی پہچانا لازمی ہو وہاں سے آگے پہنچایا جائے۔

فوائد ومسائل:
➊ اس حدیث کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں:
◄ ایک یہ کہ اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا، مثلاً: ہاتھوں کو کندھوں تک اور پاؤں کو گھٹنوں تک۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے یہی مفہوم سمجھا اور اسی پر ان کا اپنا عمل تھا۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمها اللہ بھی اسے مستحب سمجھتے ہیں، مگر امام مالک رحمہ اللہ اسے مستحب نہیں سمجھتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وضو کی حد متعین ہے اور زیور اپنے مقام پر ہے۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمها اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حد فرض سے زیادہ دھونا پسندیدہ امر نہیں۔ دیکھئے: [تيسير العلام شرح عمدة الأحكام 46/1 - 48]
◄ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر عضو وضو کو تین تین مرتبہ دھوئے۔ اور تیسرا مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ وضو موجود ہو مگر ثواب کی نیت سے تازہ وضو کرے اور ہر وقت باوضو رہنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں مفہوم ظاہر کے خلاف ہیں۔
➋ اس آخری جملے کے بارے میں راوی کو تردد ہے کہ یہ مرفوع ہے یا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جیسا کہ مسند احمد اور فتح الباری میں ہے۔ [1؍236، حدیث: 136]
اس لیے اس سے مقررہ حد سے زائد حصے کو دھونے کے استحباب پر استدلال محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إغاثة اللهفان: 1/ 200]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 40   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 136  
´ وضو کے نشانات سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں گے `
«. . . عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمِرِ، قَالَ: رَقِيتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ عَلَى ظَهْرِ الْمَسْجِدِ فَتَوَضَّأَ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ أُمَّتِي يُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يُطِيلَ غُرَّتَهُ فَلْيَفْعَلْ . . .»
. . . سعید بن ابی ہلال سے نقل کرتے ہیں، وہ نعیم المجمر سے، وہ کہتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا۔ تو آپ نے وضو کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے (یعنی وضو اچھی طرح کرے) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ، وَالْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ: 136]

تخريج الحديث:
[141۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 3 باب فضل الوضوء 136، مسلم 246، ابن حبان 1049]
لغوی توضیح:
«غُرًّا» وہ چمک جو گھوڑے کی پیشانی میں ہوتی ہے اور «تَحْجِيْل» وہ چمک جو گھوڑے کی ٹانگوں میں ہوتی ہے۔ یہاں مراد اعضائے وضو کی چمک دمک اور سفیدی ہے۔
«آثَار» نشانات۔
فھم الحدیث:
سفیدی و چمک کو لمبا کرنے کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں، ایک مفہوم وہ ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا یعنی بازوؤں کو کندھوں تک، قدموں کو گھٹنوں تک یا کم از کم مقررہ حد سے زیادہ دھونا۔ دوسرا مفہوم یہ کہ ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرنا اور تیسرا یہ کہ باوضو ہونے کے باوجود ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا وغیرہ۔ یہاں یہ یاد رہے کہ حدیث کے آخری الفاظ (یعنی جو چمک زیادہ کر سکتا ہے۔۔۔) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول، اس میں اختلاف ہے اور اس کے متعلق سعودی مجلس افتاء کا یہی فتویٰ ہے کہ یہ الفاظ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہیں۔ [فتاويٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء 201/5]
اس لیے بہتر یہی ہے کہ وضو کی مقررہ حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 141   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4282  
´امت محمدیہ کی صفات۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس آؤ گے اس حال میں کہ وضو کی وجہ سے تمہارے ہاتھ پاؤں اور پیشانیاں روشن ہوں گی، یہ میری امت کا نشان ہو گا، اور کسی امت کا یہ نشان نہ ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4282]
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
نمازسب سے بڑا نیک عمل ہے۔
حتیٰ کہ اس کی تیاری کے لئے کیا جانے والا وضو بھی بہت ثواب اور آخرت میں عزت وشرف کاباعث ہے۔

(2)
  وضو احتیاط سے اچھی طرح کرنا چاہیے تاہم بہت زیادہ پانی خرچ کرنا یا پانی ضائع کرنا گناہ ہے۔

(3)
وضو کے اعضاء کا چمکنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کی علامت ہے۔
بے نماز وضو نہیں کرتے۔
اس لئے انھیں یہ علامت حاصل نہیں ہوگی۔
چنانچہ وہ قیامت کے دن حضرت محمد ﷺ کی امت س میں سے ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکیں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4282   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.