الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
روزوں کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 430
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا النضر، نا شعبة، عن سلیمان، قال: سمعت مسلم البطین، عن سعید بن جبیر عن ابن عباس، عن النبی صلی اللٰه علیه وسلم مثله وقال قضی عنها.اَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَیْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُسْلِمَ الْبِطِّیْنَ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهٗ وَقَالَ قَضَی عَنْهَا.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی سابقہ حدیث کی مثل روایت کیا ہے اور بیان کیا: اس نے اس (اپنی والدہ) کی طرف سے (روزے) ادا کیے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الايمان والنذور، باب قضاء عن الميت، رقم: 3307. قال الشيخ الالباني: صحيح.»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 430  
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی سابقہ حدیث کی مثل روایت کیا ہے اور بیان کیا: اس نے اس (اپنی والدہ) کی طرف سے (روزے) ادا کیے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:430]
فوائد:
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا میت کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے اور اس میں نیابت درست ہے۔ کیا میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے یا مستحب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ (نیل الاوطار: 3؍ 214)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک میت کی طرف سے روزے رکھنا واجب ہے۔ (المحلی بالاثار: 4؍ 420)
شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ یہ عمل واجب نہیں ہے۔ (التعلیقات الرضیة علی الروضة الندیة: 2؍ 25)
مولانا داود راز رحمہ اللہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بات نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں: ایک میت کے اعتبار سے، کیونکہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں، ان کو اس بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا، اس سے فوت ہوگئی ہے۔
اس لیے وہ نفوس رنج والم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے، اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں۔ اس شخص کے قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے۔ اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کیے مر گیا، تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہیے۔ (شرح بخاری از مولانا داود راز، مطبوعہ: 3؍ 205، 206 بحوالہ حجۃ اللہ البالغہ)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 430   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.