الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
1. بَابُ :
1. باب:
Chapter: The One Who Wishes To Offer A Sacrifice Should Not Remove Any Of His Hair
حدیث نمبر: 4368
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مقطوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا شريك، عن عثمان الاحلافي، عن سعيد بن المسيب، قال:" من اراد ان يضحي فدخلت ايام العشر، فلا ياخذ من شعره، ولا اظفاره". فذكرته لعكرمة، فقال: الا يعتزل النساء، والطيب.
(مقطوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عُثْمَانَ الْأَحْلَافِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ:" مَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَدَخَلَتْ أَيَّامُ الْعَشْرِ، فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا أَظْفَارِهِ". فَذَكَرْتُهُ لِعِكْرِمَةَ، فَقَالَ: أَلَا يَعْتَزِلُ النِّسَاءَ، وَالطِّيبَ.
تابعی سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جو شخص قربانی کا ارادہ کرے اور (ذی الحجہ کے ابتدائی) دس دن شروع ہو جائیں تو اپنے بال اور اپنے ناخن نہ کترے، میں نے اس چیز کا ذکر عکرمہ سے کیا تو انہوں نے کہا: وہ عورتوں اور خوشبو سے بھی دور رہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر رقم: 4366 (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ”شریک القاضی“ حافظے کے کمزور ہیں)»

وضاحت:
۱؎: ان کو اس بابت مرفوع حدیث نہیں پہنچی تھی اس لیے بطور طنز ایسا کہا، ویسے اس کی سند ضعیف ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، شريك القاضي عنعن. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 354


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4368  
´باب:`
تابعی سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جو شخص قربانی کا ارادہ کرے اور (ذی الحجہ کے ابتدائی) دس دن شروع ہو جائیں تو اپنے بال اور اپنے ناخن نہ کترے، میں نے اس چیز کا ذکر عکرمہ سے کیا تو انہوں نے کہا: وہ عورتوں اور خوشبو سے بھی دور رہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4368]
اردو حاشہ:
حضرت عکرمہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر حجامت نہیں بنوانی تو پھر عورت اور خوشبو کا استعمال بھی منع ہونا چاہیے کیونکہ محرم سے مشابہت تو تب ہی مکمل ہوگی۔ شاید انھوں نے اسے حضرت سعید بن مسیب کا اپنا قول سمجھا ہوگا۔ اور ان کو مرفوع روایت نہیں پہنچی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر تو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا۔ شریعت نے جتنی پابندی مناسب سمجھی، لگا دی، جیسے وضو اور غسل کا فرق ہے۔ جنبی کے لیے غسل مشروع فرما دیا اور محدث (بے وضو) کے لیے وضو۔ اسی طرح محرم کے لیے زیادہ پابندیاں لگا دیں اور صرف قربانی کرنے والے کے لیے کم۔ یہ کون سی قابل اعتراض بات ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4368   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.