الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
4. بَابُ : ذَبْحِ النَّاسِ بِالْمُصَلَّى
4. باب: عیدگاہ میں قربانی کرنے کا بیان۔
Chapter: The People Slaughtering The Sacrifice In The Prayer Place
حدیث نمبر: 4373
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابي الاحوص، عن الاسود بن قيس، عن جندب بن سفيان، قال: شهدت اضحى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , فصلى بالناس، فلما قضى الصلاة راى غنما قد ذبحت، فقال:" من ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها، ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله عز وجل".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ، قَالَ: شَهِدْتُ أَضْحًى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ رَأَى غَنَمًا قَدْ ذُبِحَتْ، فَقَالَ:" مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيَذْبَحْ شَاةً مَكَانَهَا، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ ذَبَحَ فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی میں تھا، آپ نے لوگوں کو نماز عید پڑھائی، جب نماز مکمل کر لی تو آپ نے دیکھا کہ کچھ بکریاں (نماز سے پہلے ہی) ذبح کر دی گئیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز عید سے پہلے جس نے ذبح کیا ہے اسے چاہیئے کہ وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا ہے تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 23 (985)، الصید 17 (5500)، الأضاحی 12 (5562)، الأیمان 15 (6674)، التوحید 13 (7400)، صحیح مسلم/الأضاحی 1 (1960)، سنن ابن ماجہ/الأضاحی 12 (3152)، (تحفة الأشراف: 3251)، مسند احمد (4/312، 313)، ویأتی عند المؤلف برقم: 4403 (صحیح)»

وضاحت:
: ۱؎ واضح طور پر باب کے مطابق پچھلی حدیث ہے، مؤلف نے اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں ذبح پر کچھ نہیں فرمایا: بلکہ صرف نماز عید سے پہلے ذبح کر دیئے جانے پر اعتراض کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري985جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل أن يصلي فليذبح أخرى مكانها ومن لم يذبح فليذبح باسم الله
   صحيح البخاري5562جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل أن يصلي فليعد مكانها أخرى ومن لم يذبح فليذبح
   صحيح البخاري7400جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل أن يصلي فليذبح مكانها أخرى ومن لم يذبح فليذبح باسم الله
   صحيح البخاري5500جندب بن عبد اللهذبح قبل الصلاة فليذبح مكانها أخرى ومن كان لم يذبح حتى صلينا فليذبح على اسم الله
   صحيح مسلم5065جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله
   صحيح مسلم5067جندب بن عبد اللهمن كان ذبح قبل أن يصلي فليعد مكانها ومن لم يكن ذبح فليذبح باسم الله
   صحيح مسلم5064جندب بن عبد اللهمن كان ذبح أضحيته قبل أن يصلي أو نصلي فليذبح مكانها أخرى ومن كان لم يذبح فليذبح باسم الله
   سنن النسائى الصغرى4373جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله
   سنن النسائى الصغرى4403جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل الصلاة فليذبح مكانها أخرى ومن كان لم يذبح حتى صلينا فليذبح على اسم الله
   سنن ابن ماجه3152جندب بن عبد اللهمن كان ذبح منكم قبل الصلاة فليعد أضحيته ومن لا فليذبح على اسم الله
   بلوغ المرام1162جندب بن عبد اللهمن كان ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها،‏‏‏‏ ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله
   مسندالحميدي793جندب بن عبد اللهمن كان منكم ذبح قبل الصلاة فليعد ذبيحته، ومن لم يكن ذبح، فليذبح على اسم الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4373  
´عیدگاہ میں قربانی کرنے کا بیان۔`
جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی میں تھا، آپ نے لوگوں کو نماز عید پڑھائی، جب نماز مکمل کر لی تو آپ نے دیکھا کہ کچھ بکریاں (نماز سے پہلے ہی) ذبح کر دی گئیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز عید سے پہلے جس نے ذبح کیا ہے اسے چاہیئے کہ وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا ہے تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4373]
اردو حاشہ:
(1) مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب باندھا ہے، وہ عام لوگوں کے عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کے متعلق ہے۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عید ادا کرنے کے بعد دیکھا تو کچھ بکریاں ذبح کی جا چکی تھیں، ظاہر ہے کہ آپ نے نماز عید، عید گاہ ہی میں پڑھائی تھی، لہٰذا ذبح کی ہوئی بکریاں بھی آپ نے وہاں ہی دیکھی ہوں گی۔
(2) مسجد سے الگ، باہر کھلے میدان میں نماز عید ادا کرنا سنت ہے۔ عام حالات میں باہر، عید گاہ ہی میں عید ادا کی جائے، تاہم بوقت ضرورت یعنی بارش، آندھی اور سخت سردی وغیرہ کی صورت میں نماز عید، مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
(3) نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کا جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی ذبح کرے گا تو اس کی قربانی ہرگز ہرگز نہیں ہوگی، لہٰذا اس پر قربانی کے لیے دوسرا جانور ذبح کرنا ضروری ہوگا، بشرطیکہ دوسرے جانور کی استطاعت ہو۔ یہ اس لیے کہ قربانی کا وقت مقرر ہے۔ اس سے پہلے قربانی غیر معتبر ہے، جیسے نماز کا وقت مقرر ہے۔ وقت سے پہلے پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ اسی طرح عید کی نماز کے اختتام سے قبل قربانی کا وقت نہیں ہوتا، لہٰذا قربانی دوبارہ کرنا ہوگی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4373   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1162  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا جندب سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عید قربان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا چکے تو دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے نماز سے پہلے ہی اسے ذبح کر دیا ہے وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا اسے «بسم الله» پڑھ کر ذبح کرنا چاہے۔ (بخاری، مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1162»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد، حديث:5562، ومسلم، الأضاحي، باب وقتها، حديث:1960.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے۔
اگر کسی نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔
2. نماز عید سے مراد عید کی وہ باجماعت نماز ہے جو امام کی اقتدا میں ادا کی جائے اور اس کے بعد خطبہ مسنونہ ہو۔
مطلب یہ ہے کہ جب باجماعت نماز عید ادا کر لی جائے اور خطبہ مسنونہ بھی ہو چکے‘ تب قربانی کی جائے‘ پہلے نہیں۔
اس حکم میں دیہاتی اور شہری سبھی برابر کے شامل ہیں۔
مختلف اقوال میں سے یہی قول راجح ہے۔
3.قربانی کا آخری وقت کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کی شام تک اس کا آخری وقت ہے۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کی ۱۳ تاریخ کی شام تک۔
داود ظاہری اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک منیٰ میں تو بارہ ذوالحجہ کی شام تک اور اس کے سوا صرف قربانی کے دن کی شام تک۔
اور ایک جماعت کی رائے یہ بھی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری دن تک۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو دلیل کے اعتبار سے راجح قرار دیا ہے کہ ایام تشریق کے آخر‘ یعنی ۱۳ ذوالحجہ کی شام تک قربانی جائز ہے۔
احادیث کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث:
«حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ بجیلہ قبیلے کی شاخ عَلَقَہ سے ہونے کی وجہ سے بَجَلی عَلَقِی کہلائے۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
بسااوقات اپنے دادا کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔
پہلے کوفہ میں تھے‘ پھر بصرہ میں تشریف لے گئے۔
۶۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1162   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.