الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
23. بَابُ كَلاَمِ الإِمَامِ وَالنَّاسِ فِي خُطْبَةِ الْعِيدِ، وَإِذَا سُئِلَ الإِمَامُ عَنْ شَيْءٍ وَهْوَ يَخْطُبُ:
23. باب: عید کے خطبہ میں امام کا اور لوگوں کا باتیں کرنا۔
(23) Chapter. The talk of the Imam and if the Imam is asked about something while he is delivering the Khutba.
حدیث نمبر: 985
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسلم، قال: حدثنا شعبة، عن الاسود، عن جندب، قال:" صلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر، ثم خطب، ثم ذبح، فقال: من ذبح قبل ان يصلي فليذبح اخرى مكانها، ومن لم يذبح فليذبح باسم الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ جُنْدَبٍ، قَالَ:" صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ ذَبَحَ، فَقَالَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ أُخْرَى مَكَانَهَا، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہو تو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔

Narrated Jundab: On the day of Nahr the Prophet offered the prayer and delivered the Khutba and then slaughtered the sacrifice and said, "Anybody who slaughtered (his sacrifice) before the prayer should slaughter another animal in lieu of it, and the one who has not yet slaughtered should slaughter the sacrifice mentioning Allah's name on it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 15, Number 101


   صحيح البخاري985جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل أن يصلي فليذبح أخرى مكانها ومن لم يذبح فليذبح باسم الله
   صحيح البخاري5562جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل أن يصلي فليعد مكانها أخرى ومن لم يذبح فليذبح
   صحيح البخاري7400جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل أن يصلي فليذبح مكانها أخرى ومن لم يذبح فليذبح باسم الله
   صحيح البخاري5500جندب بن عبد اللهذبح قبل الصلاة فليذبح مكانها أخرى ومن كان لم يذبح حتى صلينا فليذبح على اسم الله
   صحيح مسلم5065جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله
   صحيح مسلم5067جندب بن عبد اللهمن كان ذبح قبل أن يصلي فليعد مكانها ومن لم يكن ذبح فليذبح باسم الله
   صحيح مسلم5064جندب بن عبد اللهمن كان ذبح أضحيته قبل أن يصلي أو نصلي فليذبح مكانها أخرى ومن كان لم يذبح فليذبح باسم الله
   سنن النسائى الصغرى4373جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله
   سنن النسائى الصغرى4403جندب بن عبد اللهمن ذبح قبل الصلاة فليذبح مكانها أخرى ومن كان لم يذبح حتى صلينا فليذبح على اسم الله
   سنن ابن ماجه3152جندب بن عبد اللهمن كان ذبح منكم قبل الصلاة فليعد أضحيته ومن لا فليذبح على اسم الله
   بلوغ المرام1162جندب بن عبد اللهمن كان ذبح قبل الصلاة فليذبح شاة مكانها،‏‏‏‏ ومن لم يكن ذبح فليذبح على اسم الله
   مسندالحميدي793جندب بن عبد اللهمن كان منكم ذبح قبل الصلاة فليعد ذبيحته، ومن لم يكن ذبح، فليذبح على اسم الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1162  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا جندب سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عید قربان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا چکے تو دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے نماز سے پہلے ہی اسے ذبح کر دیا ہے وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا اسے «بسم الله» پڑھ کر ذبح کرنا چاہے۔ (بخاری، مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1162»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد، حديث:5562، ومسلم، الأضاحي، باب وقتها، حديث:1960.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے۔
اگر کسی نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔
2. نماز عید سے مراد عید کی وہ باجماعت نماز ہے جو امام کی اقتدا میں ادا کی جائے اور اس کے بعد خطبہ مسنونہ ہو۔
مطلب یہ ہے کہ جب باجماعت نماز عید ادا کر لی جائے اور خطبہ مسنونہ بھی ہو چکے‘ تب قربانی کی جائے‘ پہلے نہیں۔
اس حکم میں دیہاتی اور شہری سبھی برابر کے شامل ہیں۔
مختلف اقوال میں سے یہی قول راجح ہے۔
3.قربانی کا آخری وقت کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کی شام تک اس کا آخری وقت ہے۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کی ۱۳ تاریخ کی شام تک۔
داود ظاہری اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک منیٰ میں تو بارہ ذوالحجہ کی شام تک اور اس کے سوا صرف قربانی کے دن کی شام تک۔
اور ایک جماعت کی رائے یہ بھی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری دن تک۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو دلیل کے اعتبار سے راجح قرار دیا ہے کہ ایام تشریق کے آخر‘ یعنی ۱۳ ذوالحجہ کی شام تک قربانی جائز ہے۔
احادیث کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث:
«حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ بجیلہ قبیلے کی شاخ عَلَقَہ سے ہونے کی وجہ سے بَجَلی عَلَقِی کہلائے۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
بسااوقات اپنے دادا کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔
پہلے کوفہ میں تھے‘ پھر بصرہ میں تشریف لے گئے۔
۶۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1162   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:985  
985. حضرت جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے عیدالاضحیٰ کے دن نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، پھر قربانی کی اور دوران خطبہ میں فرمایا: جس نے نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کیا تو اسے دسرا جانور ذبح کرنا چاہئے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا اسے چاہئے کہ اب اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:985]
حدیث حاشیہ:
(1)
خطبۂ جمعہ کا سننا واجب ہے۔
اس دوران میں گفتگو کرنا منع ہے۔
خطبۂ عید کے متعلق اتنی سختی نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق حدیث میں ہے کہ جو چاہے سننے کے لیے بیٹھا رہے۔
اور جس کا جی چاہے وہ چلا جائے۔
اس کے علاوہ دیگر مواعظ میں رخصت ہے کہ کوئی اٹھ جائے یا بیٹھ کر سنتا رہے۔
(2)
یہ پابندی صرف مقتدی حضرات کے لیے ہے کیونکہ امام دوران خطبہ میں بات بھی کر سکتا ہے اور کسی کے سوال کا جواب بھی دے سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطبۂ عیدین میں کچھ وسعت سمجھتے ہیں۔
مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی کو ثابت کیا گیا ہے۔
گویا اس میں حسب ذیل دو احکام ہیں:
٭ خطبۂ عید کے دوران خطیب اور سامع کسی مسئلے پر گفتگو کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ٭ کیا خطیب سے دوران خطبہ میں کوئی سوال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بعض شارحین نے اس عنوان کو تکرار قرار دیا ہے، حالانکہ پہلا حکم دوسرے حکم سے عام حیثیت رکھتا ہے۔
مصنف نے جواب اس لیے نہیں دیا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کیونکہ دوران خطبہ میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بردہ بن نیار ؓ کا باہمی گفتگو کرنا پہلا حکم ثابت کرتا ہے جبکہ بکری کے یک سالہ بچے کے متعلق حضرت ابو بردہ ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنا دوسرے حکم کی دلیل ہے، نیز واضح رہے کہ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وہ خطبے کا حصہ ہیں، خطبے کی تکمیل کے بعد آپ نے قربانی کو ذبح فرمایا۔
(فتح الباري: 608/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 985   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.