الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
The Book of Judicial Decisions
3. باب بيان ان حكم الحاكم لا يغير الباطن
3. باب: حاکم کے فیصلہ سے امر واقعی غلط نہ ہو گا۔
حدیث نمبر: 4475
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني حرملة بن يحيي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير ، عن زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " سمع جلبة خصم بباب حجرته فخرج إليهم، فقال: إنما انا بشر وإنه ياتيني الخصم، فلعل بعضهم ان يكون ابلغ من بعض، فاحسب انه صادق فاقضي له، فمن قضيت له بحق مسلم، فإنما هي قطعة من النار فليحملها او يذرها "،وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَمِعَ جَلَبَةَ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَهُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِي لَهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ فَلْيَحْمِلْهَا أَوْ يَذَرْهَا "،
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے والوں کا شور و غوغا سنا، آپ باہر نکل کر ان کی طرف گئے اور فرمایا: "میں ایک انسان ہوں اور میرے پاس جھگڑا کرنے والے آتے ہیں، ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ زبان آور ہو، میں سمجھوں کہ وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ میں جس شخص کے حق میں کسی (دوسرے) مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے اٹھا لے یا چاہے تو چھوڑ دے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمرہ کے دروازہ پر جھگڑنے والوں کا شور سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے اور فرمایا: میں بھی ایک انسان ہوں اور صورت حال یہ ہے، میرے پاس جھگڑنے والے (اپنا جھگڑا) لے کر آتے ہیں اور ممکن ہے، ان میں سے بعض، بعض کے مقابلہ میں زیادہ مؤثر بیان کرے اور میں سمجھوں یہ سچا ہے، اس لیے اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں جس کے حق میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کروں تو وہ اس کے لیے آگ ہی کا ٹکڑا ہو گا، اس کو اٹھا لے یا چھوڑ دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1713

   صحيح البخاري6967زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وأقضي له على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح البخاري2458زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها
   صحيح البخاري7185زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضا أن يكون أبلغ من بعض أقضي له بذلك وأحسب أنه صادق فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليدعها
   صحيح البخاري7181زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو ليتركها
   صحيح البخاري2680زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له بحق أخيه شيئا بقوله فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذها
   صحيح البخاري7169زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار
   صحيح مسلم4473زينب بنت عبد اللهإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو مما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له به قطعة من النار
   صحيح مسلم4475زينب بنت عبد اللهأنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضهم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صادق فأقضي له فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليحملها أو يذرها
   جامع الترمذي1339زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فإن قضيت لأحد منكم بشيء من حق أخيه فإنما أقطع له قطعة من النار فلا يأخذ منه شيئا
   سنن النسائى الصغرى5403زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطعه به قطعة من النار
   سنن النسائى الصغرى5424زينب بنت عبد اللهتختصمون إلي وإنما أنا بشر ولعل بعضكم ألحن بحجته من بعض فإنما أقضي بينكما على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   سنن ابن ماجه2317زينب بنت عبد اللهأنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وإنما أقضي بينكم على نحو مما أسمع منكم فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار يأتي بها يوم القيامة
   بلوغ المرام1194زينب بنت عبد الله إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار
   مسندالحميدي298زينب بنت عبد اللهإنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأيكم قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذ به؛ فإنما أقطع له به قطعة من النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2317  
´حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2317]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
قاضی کو فریقین کے دلائل گواہوں کی گواہی اور دیگر قرائن کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کے باوجود اگر اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے گناہ نہیں ہوگا۔

(2)
  اگر ایک شخص کو معلوم ہے کہ اس معاملے میں میرا موقف درست نہیں لیکن قاضی اس کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے تو اس سے اصل حقیقت میں فرق نہیں پڑتا لہٰذا اس کے لیے وہ چیز لینا جائز نہیں جسے قاضی اس کی قرار دے چکا ہے۔

(3)
  اس حدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:
قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہوتا ہے باطناً نہیں۔
اس کا یہی مطلب ہے کہ قاضی کے فیصلے سے کسی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو جاتی مثلاً اگر جھوٹے گواہوں کی مدد سے یہ فیصلہ لے لیا جائے کہ فلاں عورت کا نکاح ہو چکا ہے تو مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہو گا۔
اگر وہ ایسا کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا اور قیامت والے دن اسے اس کی سزا ملے گی۔
اس طرح اگر قاضی یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں عورت کو طلاق ہو چکی ہے جبکہ حقیقت میں مرد نے طلاق نہ دی ہو تو مرد اپنی اس بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم رکھنے پر اللہ کے ہاں مجرم نہیں ہو گا۔

(4)
  نبی اکرم ﷺ کو علم غیب حاصل نہیں تھا البتہ بعض معاملات میں وحی کے ذریعے سے آپ کو خبر دے دی جاتی تھی۔

(5)
  ناجائز طور پر حاصل کیا ہوا مال قیامت کے دن سزا کا باعث بھی ہو گا اور رسوائی کا سبب بھی، جب مجرم سب لوگوں کےسامنے اپنے جرم کے ثبوت سمیت موجود ہو گا اور اسے اس کے مطابق سرعام سزا ملے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2317   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1194  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لے کر آتے ہو اور تم میں سے بعض اپنے دلائل بڑی خوبی و چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس جسے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو میں اس کے لئے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1194»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب موعظة الإمام للخصوم، حديث:7169، ومسلم، الأقضية، باب الحكم بالظاهر واللحن بالحجة، حديث:1713.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ظاہر بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے۔
2. حاکم کا فیصلہ کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے نہ کسی معاملے کو بدل سکتا ہے‘ یعنی نہ حرام کو حلال کر سکتا ہے اور نہ حلال کو حرام۔
جمہور کا یہی موقف ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے‘ مثلاً: ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ خاتون اجنبی ہے تو وہ اس مرد کے لیے حلال ہو جائے گی۔
لیکن اس قول کی قباحت اور اس کا باطل ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1339  
´قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کا مال لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1339]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے،
حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا،
اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام،
جمہورکی یہی رائے ہے،
لیکن امام ابوحنیفہ ؒ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہوجاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہوجائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1339   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4475  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جَلَبه يا لَجَبه:
شور،
آوازوں کا ٹکراؤ۔
(2)
خَصم:
مفرد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں جمع کے معنی میں ہے،
جھگڑا کرنے والے۔
فوائد ومسائل:
إِنَّمَا أَنَا بَشَر:
میں بھی انسان ہوں اور ایک انسان غیب کا علم نہیں رکھتا اور اشیاء کے باطن سے آگاہ نہیں ہوتا،
اس لیے میں ایک قاضی اور حکم کی حیثیت سے عام انسانوں کی طرح ظاہر کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں،
تاکہ بعد میں آنے والے قاضی اور حاکم کے لیے،
میرا یہ فیصلہ نمونہ اور اسوہ بنے کہ وہ اصول شریعت کے مطابق بینہ (شہادت)
یا قسم کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے،
شہادت اور قسم کی اصل حقیقت کہ وہ سچی ہے یا جھوٹی تک پہنچنے کا پابند نہیں ہے،
جیسا وہ گواہوں یا قسم کو صحیح سمجھتا ہے،
اگرچہ وہ فی الواقع جھوٹی ہے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کر دے گا،
اب یہ مدعی اور مدعی علیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلط طریقہ نہ اپنائیں،
اگر وہ غلط رویہ اختیار کریں گے تو وہ مجرم ہوں گے،
قاضی بری الذمہ ہو گا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی شہادت اور چرب زبانی سے کام لینے والے کو مخاطب کیا ہے کہ وہ قاضی کے فیصلہ کو جبکہ مدعی اصل حقیقت سے آگاہ ہے،
اس لیے جواز کا باعث نہ سمجھ لے،
وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رسول تھے،
اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حقیقت سے آگاہ کر سکتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ اصل حقیقت اور واقعہ کے مطابق کر سکتے تھے۔
فَأَحسبُ أَنَّهُ صَادِقٌ:
یعنی میں چرب لسانی کرنے والے یا اپنی بات اور اپنا مقدمہ مؤثر انداز سے پیش کرنے والے کو سچا سمجھ لوں،
اس طرح اس کا تعلق فیصلہ یا مقدمہ سے ہے،
باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کے لیے احکام و فرامین جو آپﷺ نے اپنے اجتہاد سے دئیے،
اس سے اس کا تعلق نہیں ہے،
کیونکہ وہاں تو اگر جمہور کے مطابق غلطی کے امکان کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی آپﷺ کی فورا اللہ کی طرف سے تصحیح کر دی جاتی تھی اور مقدمہ میں ظاہر کے مطابق فیصلہ کرنا خطا یا غلطی نہیں ہے،
بلکہ قاضی اور حاکم اس کا پابند ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ ہونے کی حیثیت سے اس اصول کے پابند تھے،
اس لیے اللہ کی طرف سے آپﷺ کو حقیقت حال سے آگاہ نہیں کیا جانا تھا،
وگرنہ حاکموں کے لیے فیصلہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔
فَلْيَحْمِلْهَا أَوْ يذَرَهَا:
اس کو اٹھا لے یا چھوڑ دے،
اختیار کے لیے نہیں ہے،
بلکہ تہدید اور دھمکی کے لیے ہے،
جیسا کہ فرمایا:
﴿فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے اور فرمایا:
﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ﴾ جو چاہو عمل کرو،
مقصد یہ ہے حاضر تو ہمارے سامنے ہی ہونا ہے تو ہم محاسبہ اور باز پرس کر لیں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4475   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.