(مرفوع) حدثنا زكرياء بن يحيى، قال: حدثنا عبد الله بن نمير، قال: حدثنا هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" اصيب سعد يوم الخندق في الاكحل، فضرب النبي صلى الله عليه وسلم خيمة في المسجد ليعوده من قريب، فلم يرعهم، وفي المسجد خيمة من بني غفار إلا الدم يسيل إليهم، فقالوا: يا اهل الخيمة، ما هذا الذي ياتينا من قبلكم؟ فإذا سعد يغذو جرحه دما فمات فيها".(مرفوع) حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فِي الْأَكْحَلِ، فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ، فَلَمْ يَرُعْهُمْ، وَفِي الْمَسْجِدِ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا: يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ، مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ؟ فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا فَمَاتَ فِيهَا".
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہ کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ بن زبیر کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے فرمایا کہ غزوہ خندق میں سعد (رضی اللہ عنہ) کے بازو کی ایک رگ (اکحل) میں زخم آیا تھا۔ ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک خیمہ نصب کرا دیا تاکہ آپ قریب رہ کر ان کی دیکھ بھال کیا کریں۔ مسجد ہی میں بنی غفار کے لوگوں کا بھی ایک خیمہ تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ کے زخم کا خون (جو رگ سے بکثرت نکل رہا تھا) بہہ کر جب ان کے خیمہ تک پہنچا تو وہ ڈر گئے۔ انہوں نے کہا کہ اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ کیسا خون ہمارے خیمہ تک آ رہا ہے۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ یہ خون سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے بہہ رہا ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ کا اسی زخم کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔
Narrated `Aisha: On the day of Al-Khandaq (battle of the Trench' the medial arm vein of Sa`d bin Mu`ad [??] was injured and the Prophet pitched a tent in the mosque to look after him. There was another tent for Banu Ghaffar in the mosque and the blood started flowing from Sa`d's tent to the tent of Bani Ghaffar. They shouted, "O occupants of the tent! What is coming from you to us?" They found that Sa`d' wound was bleeding profusely and Sa`d died in his tent.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 452
أصيب سعد يوم الخندق رماه رجل من قريش يقال له حبان بن العرقة وهو حبان بن قيس من بني معيص بن عامر بن لؤي رماه في الأكحل فضرب النبي خيمة في المسجد ليعوده من قريب فلما رجع رسول الله من الخندق وضع السلاح واغتسل فأتاه جبريل
ضرب النبي خيمة في المسجد ليعوده من قريب فلم يرعهم وفي المسجد خيمة من بني غفار إلا الدم يسيل إليهم فقالوا يا أهل الخيمة ما هذا الذي يأتينا من قبلكم فإذا سعد يغذو جرحه دما فمات فيها
وضع السلاح فاغتسل فأتاه جبريل وهو ينفض رأسه من الغبار فقال وضعت السلاح والله ما وضعناه اخرج إليهم فقال رسول الله فأين فأشار إلى بني قريظة فقاتلهم رسول الله فنزلوا على حكم رسول الله فرد رسول الله صلى
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 711
´مسجد میں خیمہ لگانے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، قبیلہ قریش کے ایک شخص نے ان کے ہاتھ کی رگ ۱؎ میں تیر مارا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 711]
711 ۔ اردو حاشیہ: ➊ عیادت کے علاوہ ایک اور سبب علاج بھی تھا جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے کہ آپ ان کا علاج بھی کرتے رہے تھے، لیکن اس رگ میں زخم ہو جائے تو عموماً خون نہیں رکتا بلکہ موت یقینی ہو جاتی ہے۔ ➋ اس حدیث سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی منقبت و مرتبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ مریض کی تیمارداری کرنا سنت ہے، اس سے اس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 711
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 202
´مساجد کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ” غزوہ خندق کے روز سیدنا سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے مسجد میں خیمہ لگوایا تھا، تاکہ قریب سے ان کی تیمارداری (بآسانی) کر سکیں۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 202]
202 لغوی تشریح: «أُصِيبَ سَعْدٌ» «سعد» سے مراد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جو اوس کے سردار تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر ان کے بازو کی رگ (اکحل ہفت اندام رگ) میں دشمن کا تیر لگا اور خون جاری ہو گیا۔ خون رکنے میں نہیں آتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰٰ سے استدعا کی کہ وہ انہیں اس وقت تک موت نہ دے جب تک وہ بنو قریظہ کا انجام نہ دیکھ لیں۔ اسلامی لشکر نے ان کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ خون بہنا بند ہو گیا۔ پھر جب بنو قریظہ نے ان کو حکم بنایا کہ جو وہ فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے۔ جب بنو قریظہ ان کے فیصلہ کے مطابق گڑھیوں سے نیچے اتر آئے اور ان کے قابل جنگ مردوں کو قتل کر دیا گیا تو خون دوبارہ جاری ہو گیا، یہاں تک کہ وفات پا گئے اور ان کی وفات غزوہ خندق میں تیر لگنے کے ایک ماہ بعد ہوئی۔ اور غزوہ احزاب شوال 5 ھ میں پیش آیا۔ اس معرکہ میں قریش، غطفان وغیرہ قبائل یہودی سازش سے مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہو گئے تھے اور سب نے مل کر مدینے کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ مسلمانوں کو جب ان لوگوں کی سازش کا علم ہوا تو انہوں نے مدینے کی شمالی جانب خندق کھود لی۔ محاصرے نے پچیس 25 روز تک طول کھینچا۔ پھر ناکام و نامراد ہو کر واپس لوٹ گئے۔ «فَضَرَبَ عَلَيْهِ» خیمہ اس کے لئے نصب کیا۔ «لِيَعُودَهُ» تاکہ ان کی تیمارداری کر سکیں۔ «عيادة» سے ماخوز ہے۔ عیادت مریض کے حال احوال پوچھنے کے لئے جانے اور ملاقات کرنے کو کہتے ہیں
فوائد و مسائل: ➊ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت مسجد میں مریض کے قیام کے لئے خیمہ وغیرہ نصب کرنا جائز ہے۔ ➋ مسجد میں سونا، بیمار یا زخمی کی تیمارداری کرنا اور اس کے علاج کا بندوبست کرنا بھی درست اور جائز ہے
۔ راوی حدیث: حضرت سعد رضی اللہ عنہ، یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جو قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ کبار صحابہ میں سے ہیں، انہوں نے بیت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شرکت کی اور اسلام قبول کیا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بن عبدالاشہل نے اسلام قبول کیا۔ اپنی قوم میں سردار اور شریف انسان تھے، قوم ان کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتی۔ ان کی رگ اکحل میں غزوہ خندق کے موقع پر ایک تیر لگا جس کی وجہ سے ذی تعدہ 5 ھ کو واقعہ بنی قریظہ کے بعد فوت ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 202
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3101
´بیمار کی کئی بار عیادت (بیمار پرسی) کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3101]
فوائد ومسائل: 1۔ مریض کے احوال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عیادت کے لئے بار بار آنا اسلامی اور اخلاق حسنہ کا حصہ ہے۔ نہ کہ کوئی معوب بات۔ بالخصوص مریض جب کوئی اہم آدمی ہو۔
2۔ ضرورت شرعی کے تحت مسجد (یا اس کے ساتھ ملحق حجروں) میں اقامت اختیارکرلینا یا کسی کو اقامت دینا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3101