الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
125. بَابُ: {وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ} :
125. باب: اس آیت میں جو بیان ہے کہ اور وہ بچے جو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچے ہیں اس کے لیے کیا حکم ہے؟
(125) Chapter. “And those among you who have not come to the age of puberty." (V.24:58)
حدیث نمبر: 5249
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا سفيان، عن عبد الرحمن بن عابس، سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، ساله رجل:" شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العيد اضحى او فطرا؟ قال: نعم، ولولا مكاني منه ما شهدته يعني من صغره، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى ثم خطب ولم يذكر اذانا ولا إقامة، ثم اتى النساء فوعظهن وذكرهن وامرهن بالصدقة، فرايتهن يهوين إلى آذانهن وحلوقهن يدفعن إلى بلال، ثم ارتفع هو وبلال إلى بيته".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَأَلَهُ رَجُلٌ:" شَهِدْتَ مَع رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَ أَضْحًى أَوْ فِطْرًا؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَوْلَا مَكَانِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ يَعْنِي مِنْ صِغَرِهِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ وَلَمْ يَذْكُرْ أَذَانًا وَلَا إِقَامَةً، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَرَأَيْتُهُنَّ يَهْوِينَ إِلَى آذَانِهِنَّ وَحُلُوقِهِنَّ يَدْفَعْنَ إِلَى بِلَالٍ، ثُمَّ ارْتَفَعَ هُوَ وبِلَالٌ إِلَى بَيْتِهِ".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا کہ تم بقر عید یا عید کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ دار نہ ہوتا تو میں اپنی کم سنی کی وجہ سے ایسے موقع پر حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کا اشارہ (اس زمانے میں) اپنے بچپن کی طرف تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور (لوگوں کے ساتھ عید کی) نماز پڑھی اور اس کے بعد خطبہ دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا، پھر آپ عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں خیرات دینے کا حکم دیا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ پھر وہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھا بڑھا کر (اپنے زیورات) بلال رضی اللہ عنہ کو دینے لگیں۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے۔

Narrated `Abdur-Rahman bin `Abis: I heard Ibn `Abbas answering a man who asked him, "Did you attend the prayer of `Id al Adha or `Idal- Fitr with Allah's Apostle?" Ibn `Abbas replied, "Yes, and had it not been for my close relationship with him, I could not have offered it." (That was because of his young age). Ibn `Abbas further said, Allah's Apostle went out and offered the Id prayer and then delivered the sermon." Ibn `Abbas did not mention anything about the Adhan (the call for prayer) or the Iqama. He added, "Then the Prophet went to the women and instructed them and gave them religious advice and ordered them to give alms and I saw them reaching out (their hands to) their ears and necks (to take off the earrings and necklaces, etc.) and throwing (it) towards Bilal. Then the Prophet returned with Bilal to his house . "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 176


   صحيح البخاري7325عبد الله بن عباسأتى العلم الذي عند دار كثير بن الصلت فصلى ثم خطب لم يذكر أذانا ولا إقامة أمر بالصدقة فجعل النساء يشرن إلى آذانهن وحلوقهن فأمر بلالا فأتاهن ثم رجع إلى النبي
   صحيح البخاري5883عبد الله بن عباسصلى يوم العيد ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي قرطها
   صحيح البخاري959عبد الله بن عباسلم يكن يؤذن بالصلاة يوم الفطر إنما الخطبة بعد الصلاة
   صحيح البخاري964عبد الله بن عباسصلى يوم الفطر ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلن يلقين تلقي المرأة خرصها وسخابها
   صحيح البخاري975عبد الله بن عباسصلى ثم خطب أتى النساء فوعظهن وذكرهن أمرهن بالصدقة
   صحيح البخاري5249عبد الله بن عباسصلى ثم خطب ولم يذكر أذانا ولا إقامة أتى النساء فوعظهن وذكرهن أمرهن بالصدقة فرأيتهن يهوين إلى آذانهن وحلوقهن يدفعن إلى بلال ثم ارتفع هو و بلال إلى بيته
   صحيح البخاري962عبد الله بن عباسيصلون قبل الخطبة
   صحيح البخاري977عبد الله بن عباسصلى ثم خطب أتى النساء ومعه بلال فوعظهن وذكرهن أمرهن بالصدقة فرأيتهن يهوين بأيديهن يقذفنه في ثوب بلال ثم انطلق هو وبلال إلى بيته
   صحيح البخاري989عبد الله بن عباسخرج يوم الفطر فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها ومعه بلال
   صحيح البخاري1449عبد الله بن عباسصلى قبل الخطبة لم يسمع النساء فأتاهن ومعه بلال ناشر ثوبه فوعظهن أمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تلقي وأشار أيوب إلى أذنه وإلى حلقه
   صحيح البخاري1431عبد الله بن عباسصلى ركعتين لم يصل قبل ولا بعد مال على النساء ومعه بلال فوعظهن أمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تلقي القلب والخرص
   صحيح مسلم2045عبد الله بن عباسصلى قبل الخطبة ثم خطب لم يسمع النساء فأتاهن فذكرهن ووعظهن أمرهن بالصدقة وبلال قائل بثوبه فجعلت المرأة تلقي الخاتم والخرص والشيء
   صحيح مسلم2057عبد الله بن عباسخرج يوم أضحى أو فطر فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي خرصها وتلقي سخابها
   جامع الترمذي537عبد الله بن عباسخرج يوم الفطر فصلى ركعتين ثم لم يصل قبلها ولا بعدها
   سنن أبي داود1147عبد الله بن عباسصلى العيد بلا أذان ولا إقامة
   سنن أبي داود1146عبد الله بن عباسصلى ثم خطب ولم يذكر أذانا ولا إقامة أمر بالصدقة جعل النساء يشرن إلى آذانهن وحلوقهن قال فأمر بلالا فأتاهن ثم رجع إلى النبي
   سنن أبي داود1159عبد الله بن عباسخرج رسول الله يوم فطر فصلى ركعتين لم يصل قبلهما ولا بعدهما ثم أتى النساء ومعه بلال أمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي خرصها وسخابها
   سنن أبي داود1142عبد الله بن عباسخرج يوم فطر فصلى ثم خطب أتى النساء ومعه بلال
   سنن النسائى الصغرى1588عبد الله بن عباسخرج يوم العيد فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها
   سنن النسائى الصغرى1570عبد الله بن عباسبدأ بالصلاة قبل الخطبة ثم خطب
   سنن النسائى الصغرى1587عبد الله بن عباسصلى ثم خطب أتى النساء فوعظهن وذكرهن أمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تهوي بيدها إلى حلقها تلقي في ثوب بلال
   سنن ابن ماجه1274عبد الله بن عباسصلى يوم العيد بغير أذان ولا إقامة
   سنن ابن ماجه1291عبد الله بن عباسخرج فصلى بهم العيد لم يصل قبلها ولا بعدها
   سنن ابن ماجه1273عبد الله بن عباسصلى قبل الخطبة ثم خطب لم يسمع النساء فأتاهن فذكرهن ووعظهن أمرهن بالصدقة وبلال قائل بيديه هكذا فجعلت المرأة تلقي الخرص والخاتم والشيء
   بلوغ المرام391عبد الله بن عباسصلى يوم العيد ركعتين لم يصل قبلهما ولا بعدهما
   بلوغ المرام392عبد الله بن عباسالعيد بلا اذان ولا إقامة
   مسندالحميدي482عبد الله بن عباسأنه صلى قبل الخطبة يوم العيد، ثم خطب فرأى أنه لم يسمع النساء فأتاهن فوعظهن وذكرهن وأمرهن بالصدقة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 975  
´بچوں کا عیدگاہ جانا`
«. . . قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .»
. . . انہوں نے فرمایا کہ میں نے عیدالفطر یا عید الاضحی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر عورتوں کی طرف آئے اور انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کے لیے حکم فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ: 975]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب میں بچوں کا عیدگاہ جانے پر اشارہ کیا گیا ہے اور حدیث جو پیش کی گئی ہے اس میں عورتوں کو نصیحت کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے یعنی حدیث میں بچوں کے عیدگاہ جانے کے کوئی الفاظ نہیں ہیں لیکن اگر تدبر کیا جائے تو باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت جوان نہیں ہوئے تھے وہ نابالغ تھے اور وہ بھی عیدگاہ میں موجود تھے۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر غور کیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وصیت فرمائی، اس حدیث کو ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے اور باب کے ساتھ مناسبت بھی ہے کہ لازمی طور پر عورتیں جن کے چھوٹے بچے ہوں گے وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائی ہوں گی۔ کیوں کہ حدیث میں واضح ہے کہ عید کی نماز میں اگر ایک عورت کے پاس چادر نہیں ہے تو وہ اپنی بہن کے ساتھ چادر میں پردہ کر کے عیدگاہ آئے اور نماز و دعا میں شریک ہو حتی کہ حائضہ عورت بھی مصلی کی جگہ سے دور رہے اور وہ بھی دعا میں شرکت کے لیے عیدگاہ پہنچے جب ایسے حالات میں عورتوں کو عیدگاہ پر آنے کی تلقین کی گئی ہے تو ان کے ساتھ ان کے بچے بھی آ سکتے ہیں، یہیں سے ترجمۃ الباب میں مناسبت ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لكن جري المصنف على عادته فى الاشارة إلى ما ورد فى بعض طرق . . .» [فتح الباري، ج2، ص590]
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آئندہ باب میں مذکور ہیں کہ «ولو لا مكاني من الصغر ما شهدته» ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر باوجود کم عمری کے میری قدر و منزلت آپ کے نزدیک نہ ہوتی تو میں نہیں جا سکتا تھا (عیدگاہ میں)۔‏‏‏‏
اس واضح الفاظ کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما چھوٹی عمر میں عیدگاہ گئے۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
(قلت) اگر غور کیا جائے خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جمعہ کی نماز کے لیے آتیں اور ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے جن کے رونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قرأت میں تخفیف فرمایا کرتے تھے۔ جب عیدگاہ میں خواتین کو تاکید کے ساتھ آنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تو لازماً ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ اگر عید میں بچوں کا آنا ممنوع ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح بچوں کے آنے پر پاپندی لگاتے۔ لہٰذا جب انکار ثابت نہیں تو بچوں کے آنے کا مسئلہ مسجد و عیدگاہ میں اپنی جگہ مسلّم رہا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 220   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1147  
´عید میں اذان نہ دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی اور ابوبکر اور عمر یا عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی، یہ شک یحییٰ قطان کو ہوا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1147]
1147۔ اردو حاشیہ:
یہ ر وایت معناًً صحیح ہے۔ اسی لئے شیخ البانی رحمہ الله نے اس کی تصیح کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1147   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1159  
´نماز عید کے بعد نفل پڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے تو آپ نے دو رکعت پڑھی، نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ نے انہیں صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنی بالیاں اور اپنے ہار (بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں نکال نکال کر) ڈالنے لگیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1159]
1159. اردو حاشیہ:
عید کے روز عیدگاہ میں کوئی نفل نہیں نہ عید سے پہلے نہ بعد۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1159   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1273  
´عیدین کی نماز کا بیان۔`
عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ عورتوں تک آواز نہیں پہنچ سکی ہے لہٰذا آپ ان کے پاس آئے، ان کو (بھی) وعظ و نصیحت کی، اور انہیں صدقہ و خیرات کا حکم دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا دامن پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں اپنی بالیاں، انگوٹھیاں اور دیگر سامان ڈالنے لگیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1273]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گواہی کا مطلب یہ ہے کہ انھیں یہ سب کچھ اچھی طرح یاد ہے اور وہ پورے وثوق سے بیان کر رہے ہیں۔
جس طرح گواہ وہی بات کہتا ہے۔
جو اسے خوب اچھی طرح یاد ہو۔
اور اس میں اسے کوئی شک نہ ہو۔

(2)
عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں پہلے نماز پھر خطبہ ہوتا ہے۔
جب کہ جمعے میں اس کے برعکس ہے۔

(3)
اگر کسی مقام پر لاؤڈ سپیکر کا بندوبست نہ ہوسکے۔
اور امام ضرورت محسوس کرے تو عورتوں کو الگ سے وعظ ونصیحت کی جا سکتی ہے۔

(5)
عورتیں اپنے ذاتی مال میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر بھی صدقہ کرسکتی ہیں۔
اور خاوند کے مال میں سے اس کی اجازت سے صدقہ کرسکتی ہیں۔
خواہ اس نے صراحت سے اجازت دے رکھی ہو یا زیادہ گمان یہ ہو کہ خاوند اس صدقے سے ناراض نہیں ہوگا۔
یہ بھی اجازت ہی کے حکم میں ہے۔

(6)
  بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ اس طرح کیے ہوئے تھے۔
راوی نے اشارہ کرکے بتایا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں کپڑا تھا۔
جوانہوں نے پھیلا رکھا تھا۔
تاکہ اس میں نقدی یا دوسری چیزیں ڈالی جا سکیں۔

(7)
مرد کسی ضرورت کے تحت عورتوں کے اجتماع میں جا سکتا ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی غلط فہمی پید ا ہونے کا یا نامناسب نتائج نکلنے کا خدشہ نہ ہو۔

(8)
عورتیں عید کے موقع پر زیور پہن سکتی ہیں۔

(9(عورتوں کا انگوٹھیاں اور بالیاں پہننا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1273   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 391  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے روز دو ہی رکعتیں ادا فرمائیں نہ پہلے کچھ پڑھا اور نہ بعد میں کوئی نماز پڑھی۔
اسے ساتوں یعنی احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 391»
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب الخطبة بعد العيد، حديث:964، ومسلم، صلاة العيدين، باب ترك الصلاة قبل العيد وبعدها في المصلي، حديث:884، وأبوداود، صلاة الاستسقاء، حديث:1159، والترمذي، الجمعة، حديث:537، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1588، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1291، وأحمد:1 /280، 340، 355.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے عید گاہ میں سوائے دو رکعت نماز عید کے اور کوئی نماز پہلے یا بعد میں پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں‘ البتہ جب واپس گھر تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 391   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5249  
5249. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے کسی آدمی نے پوچھا: کیا تم عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور اگر میرا مقام و مرتبہ آپ ﷺ کے ہاں نہ ہوتا تو میں اپنی صغر سنی کی وجہ سے ایسے موقع پر حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ باہر تسریف لے گئے، لوگوں کو نماز عید پڑھائی اور خطبہ دیا۔ انہوں نے اس نماز کے لیے اذان و اقامت کا ذکر نہیں کیا۔ پھر آپ عورتوں کے پاس آئے انہیں وعظ و نصحیت فرمائی، نیز انہیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھیں۔ اپنے زیورات سیدنا بلال کے حوالے کر رہی تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور سیدنا بلال ؓ دونوں اپنے گھر واپس تشریف لے آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5249]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بچے تھے، انہوں نے عورتوں کے کان اور گلے دیکھے۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5249   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5249  
5249. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے کسی آدمی نے پوچھا: کیا تم عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور اگر میرا مقام و مرتبہ آپ ﷺ کے ہاں نہ ہوتا تو میں اپنی صغر سنی کی وجہ سے ایسے موقع پر حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ باہر تسریف لے گئے، لوگوں کو نماز عید پڑھائی اور خطبہ دیا۔ انہوں نے اس نماز کے لیے اذان و اقامت کا ذکر نہیں کیا۔ پھر آپ عورتوں کے پاس آئے انہیں وعظ و نصحیت فرمائی، نیز انہیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھیں۔ اپنے زیورات سیدنا بلال کے حوالے کر رہی تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور سیدنا بلال ؓ دونوں اپنے گھر واپس تشریف لے آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5249]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان کا مطلب یہ ہے کہ جو بچے ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے وہ عورتوں کے پاس جا سکتے ہیں اور انھیں دیکھ سکتے ہیں، ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عورتوں کو اپنے زیورات کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا، یعنی عورتوں نے اپنے ہار اور اپنی بالیاں اتار کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں۔
مقصد یہ ہے کہ اس موقع پر جو کچھ عورتوں سے رونما ہوا اس کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مشاہدہ کیا کیونکہ وہ کمسن تھے اور وہ ان سے پردہ نہ کرتی تھیں۔
(2)
ممکن ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے انھوں نے پردہ کیا ہو۔
زیورات ان کے حوالے کرنے کا مطلب بے پردہ ہونا نہیں ہے۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مشاہدے سے عنوان ثابت کیا ہے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5249   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.