الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں
The Book of Provision (Outlay)
9. بَابُ إِذَا لَمْ يُنْفِقِ الرَّجُلُ فَلِلْمَرْأَةِ أَنْ تَأْخُذَ بِغَيْرِ عِلْمِهِ مَا يَكْفِيهَا وَوَلَدَهَا بِالْمَعْرُوفِ:
9. باب: اگر مرد خرچ نہ کرے تو عورت اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اتنے لے سکتی ہے جو دستور کے مطابق اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے کافی ہو۔
(9) Chapter. If a man does not provide for his family, then the wife can take of his wealth what is sufficient for her needs and the needs of her children and the amount should be just and reasonable.
حدیث نمبر: 5364
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال: اخبرني ابي، عن عائشة، ان هند بنت عتبة، قالت:" يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل شحيح وليس يعطيني ما يكفيني وولدي إلا ما اخذت منه وهو لا يعلم، فقال: خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ، قَالَتْ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ وَلَيْسَ يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَوَلَدِي إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْهُ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ، فَقَالَ: خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، کہا کہ مجھے میرے والد (عروہ نے) خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہند بنت عتبہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوسفیان (ان کے شوہر) بخیل ہیں اور مجھے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو سکے۔ ہاں اگر میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (تو کام چلتا ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دستور کے موافق اتنا لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو سکے۔

Narrated `Aisha: Hind bint `Utba said, "O Allah's Apostle! Abu Sufyan is a miser and he does not give me what is sufficient for me and my children. Can I take of his property without his knowledge?" The Prophet said, "Take what is sufficient for you and your children, and the amount should be just and reasonable.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 64, Number 277


   صحيح البخاري5370عائشة بنت عبد اللهخذي بالمعروف
   صحيح البخاري7180عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري2460عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم بالمعروف
   صحيح البخاري7161عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تطعميهم من معروف
   صحيح البخاري5364عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   صحيح البخاري5359عائشة بنت عبد اللهلا إلا بالمعروف
   صحيح البخاري2211عائشة بنت عبد اللهخذي أنت وبنوك ما يكفيك بالمعروف
   سنن أبي داود3532عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وبنيك بالمعروف
   سنن أبي داود3533عائشة بنت عبد اللهلا حرج عليك أن تنفقي بالمعروف
   سنن النسائى الصغرى5422عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   سنن ابن ماجه2293عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف
   بلوغ المرام975عائشة بنت عبد الله خذي من ماله بالمعروف ما يكفيك ويكفي بنيك
   مسندالحميدي244عائشة بنت عبد اللهخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2293  
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو سوائے اس کے جو میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے لے لوں (اس کے بارے میں فرمائیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2293]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنا خاوند کا فرض ہے۔

(2)
مسئلہ دریافت کرتے وقت حقیقت حال واضح کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کیا جائے تو یہ غیبت میں شامل نہیں، اس لیےجائز ہے۔

(3)
جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(4)
مناسب حد کا تعین حالات، ماحول، خاوند کی مالی حالت اور ضرورت کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2293   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 975  
´نفقات کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہند بنت عتبہ، ابوسفیان کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہے۔ مجھے وہ اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کیلئے کافی ہو مگر یہ کہ میں پوشیدہ طور پر کچھ لے لوں تو ایسا کرنے میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلے طریقے سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے کافی ہو۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 975»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل فللمرأة أن تأخذ بغير علمه...، حديث:5364، ومسلم، الأقضية، باب قضية هند، حديث"1714.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند اگر استطاعت کے باوجود اخراجات پورے ادا نہ کرے تو بیوی اسے بتائے بغیر اتنا خرچہ اس کے مال میں سے لے سکتی ہے جس سے اس کی جائز ضروریات پوری ہو سکتی ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اپنا جائز حق جس طرح وصول ہو سکتا ہو‘ کیا جا سکتا ہے۔
اور ناانصافی کے ازالے کی غرض سے شکوہ کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں آتا۔
2. بیوی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں اپنے شوہر کی شکایت لے جانے کی مجاز ہے۔
یہ شکایت بھی غیبت میں شمار نہیں‘ اگر یہ غیبت کی تعریف میں آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہند کو منع فرما دیتے۔
وضاحت: «حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے شوہر ابوسفیان کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلام قبول کیا۔
ان کا والد عتبہ‘ چچا شیبہ اور بھائی ولید غزوۂ بدر کے روز قتل کیے گئے تھے۔
یہ واقعہ ان کی طبیعت پر بڑا شاق گزرا‘ چنانچہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو انھوں نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکال کر چبایا‘ پھر اسے باہر پھینک دیا۔
محرم ۱۴ ہجری میں وفات پائی۔
سن وفات کے متعلق دیگر اقوال بھی ہیں۔
«حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکہ آرائی میں کفار کے علمبردار‘ قائد اور سپہ سالار ہوتے تھے۔
فتح مکہ کے موقع پر اسلام اس وقت قبول کیا جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنی پناہ و حفاظت میں انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ دخول مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔
ان کا اسلام بہت عمدہ اور خوب رہا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 975   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3532  
´کیا کسی آدمی کا ماتحت اس کے مال سے اپنا حق لے سکتا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) کہا: ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خرچ کے لیے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لیے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3532]
فوائد ومسائل:

بیوی اور بچوں کا خرچ شوہر کے ذمے ہے۔
اور اس پر واجب ہے۔
کہ دستور کے مطابق مہیا کرے۔


مصلحت کی غرض سے زوجین یا احباب ایک دوسرے کے بعض عیب ذکر کریں تو جائز ہے۔


بعض اوقات قاضی اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر گواہ طلب کئے بغیر بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔


اگر کوئی شخص کسی کا حق ادا نہ کر رہا ہو تو جائز ہے۔
کہ اس کے امانتی مال میں سے اپنے حق کے برابر ل لے۔
(خطابی نیز دیکھئے حدیث 3534)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3532   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5364  
5364. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ سیدہ ہند بنت عتبہ‬ ؓ ن‬ے عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو الا یہ کہ میں کچھ مال ان کی بے علمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5364]
حدیث حاشیہ:
بخیل مرد کی عورت کوجائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اپنا اور بچوں کا گزران لے لینا جائز ہے۔
یہی ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا ہیں جن کے متعلق مزید تفصیل یہ ہے۔
وَكَانَتْ هِنْدٌ لَمَّا قُتِلَ أَبُوهَا عُتْبَةُ وَعَمُّهَا شَيْبَةُ وَأَخُوهَا الْوَلِيدُ يَوْمَ بَدْرٍ شَقَّ عَلَيْهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَقُتِلَ حَمْزَةُ فَرِحَتْ بِذَلِكَ وَعَمَدَتْ إِلَى بَطْنِهِ فَشَقَّتْهَا وَأَخَذَتْ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا ثُمَّ لَفَظَتْهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ وَدَخَلَ أَبُو سُفْيَانَ مَكَّةَ مُسْلِمًا بَعْدَ أَنْ أَسَرَتْهُ خَيْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَأَجَارَهُ الْعَبَّاسُ غَضِبَتْ هِنْدٌ لِأَجْلِ إِسْلَامِهِ وَأَخَذَتْ بِلِحْيَتِهِ ثُمَّ إِنَّهَا بَعْدَ اسْتِقْرَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ جَاءَتْ فَأَسْلَمَتْ وَبَايَعَتْ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي أَوَاخِرِ الْمَنَاقِبِ أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ الْيَوْمَ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ فَقَالَ أَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ (فتح) (پارہ: 22ص: 238)
یہ اس لیے ہوا کہ جنگ بدر میں جب ہند کا باپ عتبہ اور اس کا چچا شیبہ اور اس کا بھائی ولید مقتول ہوئے تو یہ اس پر بہت بھاری گزرا اور اس غصہ کی بنا پر اس نے وحشی کو لالچ دے کر اس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کروایا۔
اس سے وہ بہت خوش ہوئی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ کو اس نے چاک کیا اور آپ کے کلیجہ کو نکال کر چبا کر پھینک دیا۔
جب فتح مکہ کا دن ہوا اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ مکہ میں مسلمان ہو کر داخل ہوا کیونکہ اسے اسلامی لشکر نے قید کر لیا تھا۔
پس اسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پناہ دی تو اس کے اسلام پر ہندہ بہت غصہ ہوئی اور اس کی داڑھی کو پکڑ لیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مستقل طور پر قابض ہو گئے تو ہندہ حاضر دربار رسالت ہو کر مسلمان ہو گئی اور کہا کہ یا رسول اللہ! دنیا میں کوئی گھرانہ میری نظروں میں آپ کے گھرانے سے زیادہ ذلیل نہ تھا مگر آج اسلام کی بدولت دنیا میں کوئی گھرانہ میرے نزدیک آپ کے گھرانے سے زیادہ معزز نہیں ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے نزدیک بھی یہی معاملہ ہے۔
اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایسی دشمن عورت کے لیے بھی آپ کے دل میں کتنی گنجائش ہو جاتی ہے جبکہ وہ اسلام قبول کر لیتی ہے۔
آپ اس کی ساری مخالفانہ حرکتوں کو فراموش فرما کر اسے اپنے دربارعالیہ میں شرف باریابی عطا فرما کر سرفراز فرما دیتے ہیں۔
صلی اللہ علیه و سلم ألف ألف مرة و عدد کل ذرة و علیٰ آله و أصحابه أجمعین آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5364   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5364  
5364. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ سیدہ ہند بنت عتبہ‬ ؓ ن‬ے عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو الا یہ کہ میں کچھ مال ان کی بے علمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5364]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
وہ جب معاہدے کی اس شق پر پہنچیں کہ تم چوری نہیں کرو گی تو انہوں نے کہا:
میں تو ابو سفیان کے مال سے چوری کرتی رہی ہوں۔
اس وقت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
پہلے جو چوری ہو چکی وہ تمہیں معاف ہے۔
اب دوسری مرتبہ حاضر خدمت ہوئیں تو حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔
اس وقت انہوں نے کہا:
میرے شوہر انتہائی بخیل ہیں۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بخیل شوہر کی بیوی کو جائز طور پر اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اتنا لے لینا حلال ہے جس سے اس کی اور اس کی اولاد کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
(فتح الباري: 632/9)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5364   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.