الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
27. بَابُ وَقْتِ الْفَجْرِ:
27. باب: نماز فجر کا وقت۔
(27) Chapter. Time of the Fajr (early morning) prayer.
حدیث نمبر: 578
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، قال: اخبرنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة اخبرته، قالت:"كن نساء المؤمنات يشهدن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر متلفعات بمروطهن، ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة لا يعرفهن احد من الغلس".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ:"كُنَّ نِسَاءُ الْمُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلَاةَ لَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں لیث نے خبر دی، انہوں نے عقیل بن خالد سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔

Narrated `Aisha: The believing women covered with their veiling sheets used to attend the Fajr prayer with Allah's Apostle, and after finishing the prayer they would return to their home and nobody could recognize them because of darkness.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 552


   صحيح البخاري867عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح البخاري872عائشة بنت عبد اللهيصلي الصبح بغلس فينصرفن نساء المؤمنين لا يعرفن من الغلس أو لا يعرف بعضهن بعضا
   صحيح البخاري372عائشة بنت عبد اللهيصلي الفجر فيشهد معه نساء من المؤمنات متلفعات في مروطهن ثم يرجعن إلى بيوتهن ما يعرفهن أحد
   صحيح البخاري578عائشة بنت عبد اللهنساء المؤمنات يشهدن مع رسول الله صلاة الفجر متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة لا يعرفهن أحد من الغلس
   صحيح مسلم1459عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح مسلم1457عائشة بنت عبد اللهنساء المؤمنات كن يصلين الصبح مع النبي ثم يرجعن متلفعات بمروطهن لا يعرفهن أحد
   صحيح مسلم1458عائشة بنت عبد اللهنساء من المؤمنات يشهدن الفجر مع رسول الله متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن وما يعرفن من تغليس رسول الله بالصلاة
   جامع الترمذي153عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء
   سنن أبي داود423عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى546عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى1363عائشة بنت عبد اللهالنساء يصلين مع رسول الله الفجر فكان إذا سلم انصرفن متلفعات بمروطهن فلا يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى547عائشة بنت عبد اللهيصلين مع رسول الله الصبح متلفعات بمروطهن فيرجعن فما يعرفهن أحد من الغلس
   مسندالحميدي174عائشة بنت عبد اللهكن نساء من المؤمنات يصلين مع النبي صلى الله عليه وسلم الصبح وهن متلفعات بمروطهن ثم يرجعن إلى أهليهن وما يعرفهن أحد من الغلس
   مسندالحميدي175عائشة بنت عبد اللهكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني، وإلا اضطجع حتى يقوم إلى الصلاة
   مسندالحميدي176عائشة بنت عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 578  
´نماز فجر کا وقت`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: "كُنَّ نِسَاءُ الْمُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلَاةَ لَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ " . . . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْفَجْرِ:: 578]

تشریح:
امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہو جایا کرتی تھی۔ لفظ «غلس» کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت «غلس» اور آخر وقت «اسفار» معلوم ہو جائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔

جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔
«عن ابي مسعود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلوٰة الصبح مرة بغلس ثم صلى مرة اخري فاسفربها ثم كانت صلوٰته بعد ذالك التغليس حتي مات ولم يعدالي ان يسفر رواه ابوداؤد ورجاله فى سنن ابي داؤد رجال الصحيح۔»
یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر «غلس» (اندھیرے) میں پڑھائی اور پھر ایک مرتبہ «اسفار» (یعنی اجالے) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو «اسفار» یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔

حدیث عائشہ کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
«والحديث يدل على استحباب المبادرة بصلوٰة الفجر فى اول الوقت وقد اختلف العلماءفي ذلك فذهب العترة ومالك والشافعي و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعي وداؤد بن على وابوجعفر الطبري وهوالمروي عن عمروبن عثمان وابن الزبير وانس وابي موسيٰ وابي هريرة الي ان التغليس افضل وان الاسفار غيرمندوب وحكي هذاالقول الحازمي عن بقية الخلفاءالاربعة وابن مسعود وابي مسعود الانصاري واهل الحجاز واحتجوا بالاحاديث المذكورة فى هذاالباب وغيرها ولتصريح ابي مسعود فى الحديث بانها كانت صلوٰة النبى صلى الله عليه وسلم التغليس حتيٰ مات ولم يعدالي الاسفار۔» [نيل، ج2، ص: 19]
خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز «غلس» یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اور خلفائے اربعہ اور اکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، و اہل بیت نبوی اور دیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک «غلس» ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اور سارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: «عن مغيث بن سمي قال صليت مع عبدالله بن الزبير الصبح بغلس فلما سلم اقبلت على ابن عمر فقلت ماهذه الصلوٰة قال هذه صلوٰتنا كانت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر فلما طعن عمر اسفربها عثمان و اسناده صحيح۔» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 144]
یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز «غلس» میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں بھی یہ نماز «غلس» ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیا گیا تو احتیاطاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔

اس سے بھی ظاہر ہوا کہ نماز فجر کا بہترین وقت «غلس» یعنی اندھیرے ہی میں پڑھنا ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس کے لیے «اسفار» یعنی اجالے میں پڑھنا بہتر مانا گیا ہے۔ مگر دلائل واضحہ کی بنا پر یہ خیال درست نہیں۔

حنفیہ کی دلیل رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مذکور ہے کہ «اسفروا بالفجر فانه اعظم للاجر» یعنی صبح کی نماز اجالے میں پڑھو اس کا ثواب زیادہ ہے۔ اس روایت کا یہ مطلب درست نہیں کہ سورج نکلنے کے قریب ہونے پر یہ نماز ادا کرو جیسا کہ آج کل حنفیہ کا عمل ہے۔ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام ترمذی نے ائمہ کرام سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ امام صاحب فرماتے ہیں: «وقال الشافعي واحمد واسحاق معنى الاسفار ان يضح الفجر فلايشك فيه ولم يروا ان معنى الاسفار تاخيرالصلوٰة» یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ واحمد و اسحاق فرماتے ہیں کہ یہاں «اسفار» کا مطلب یہ ہے کہ فجر خوب واضح ہو جائے کہ کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اور یہ معنی نہیں کہ نماز کو تاخیر کر کے پڑھا جائے (جیسا کہ حنیفہ کا عام معمول ہے) بہت سے ائمہ د ین نے اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ نماز فجر کواندھیرے میں «غلس» میں شروع کیا جائے اور قرات اس قدر طویل پڑھی جائے کہ سلام پھیرنے کے وقت خوب اجالا ہو جائے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ [تفہیم البخاری، پارہ3، ص: 33] حضرت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں بھی یہی تفصیل بیان کی ہے۔

یادرکھنے کی باتیں:
یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت و افضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہر شخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت «غلس» اور آخر وقت طلوع شمس ہے اور درمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام و خواص برادران پر جو کبھی «غلس» میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر «غلس» میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بنا پر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اور ایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خود اکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ «غلس» کا عمل رہا ہے۔

دیوبند میں نماز فجر غلس میں:
صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن احادیث کا ذکر کیا ہے، اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینوں میں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعد فوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہو کر سو نہ جائیں۔ اور نماز ہی فوت ہو جائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہد سے اس پر عمل رہا ہے کہ رمضان میں سحر کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہو جاتی ہے۔ [تفہیم بخاری، پ3، ص: 34]

محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایا ہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ «غلس» میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان و غیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔

بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کر لیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہو سکیں اور سردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔

بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اور اسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 578   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 546  
´حضر (حالت اقامت) میں فجر اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تھے (آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر) عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی لوٹتی تھیں، تو وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 546]
546 ۔ اردو حاشیہ:
➊رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز عمومی طور پر اندھیرے میں شروع فرماتے اور اندھیرے ہی میں مکمل فرما لیتے، لہٰذا جب عورتیں پردے میں واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی چال ڈھال کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں پہچانا جا سکے۔
➋عورتوں کی پہچان عموماً چال ڈھال سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ چادروں کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں، غلط ہے۔ اگر یہ وجہ ہو تو پھر وہ دوپہر کو بھی نہ پہچانی جائیں کیونکہ چادر میں تو اس وقت بھی ہوں گی۔ دراصل وجہ اندھیرا ہی ہے، اس لیے بھی کہ اس روایت میں صراحتاً یہی علت بیان کی گئی ہے۔
➌عورتیں کسی بھی نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ بعض حضرات کا رات اور دن کی نمازوں اور بوڑھی اور جوان عورت میں فرق کرنا بے دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 423  
´فجر کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 423]
423۔ اردو حاشیہ:
➊ ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے کہ بعد از نماز بھی اندھیرا باقی ہوتا تھا اور دور سے معلوم نہ ہوتا تھا کہ کوئی عورت آ رہی ہے یا مرد؟ ورنہ پردہ دار خاتون کے پہچانے جانے کے کوئی معنی نہیں۔
➋ خلافت راشدہ کے دور میں بھی اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیر ے میں پڑھا کرتے تھے۔
➌ عورتوں کو بھی نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ اندھیرے کے اوقات میں بھی نماز کے لیے آ سکتی ہیں مگر ان پر فرض ہے کہ شرعی آداب کے تحت اجازت لے کر آئیں، باپردہ ہو کر نکلیں، خوشبو لگا کر اور آواز دار زیور پہن کر نہ آئیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 423   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:578  
578. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اہل ایمان خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ فجر کی نماز میں چادریں اوڑھے ہوئے شریک ہوتی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ اپنے گھروں کو ایسے وقت میں واپس لوٹتیں کہ انہیں تاریکی شب کی وجہ سے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:578]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہےکہ اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کوکوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔
اس معرفت سے مراد نوع ہے یا ذات؟علامہ داودی ؒ کہتے ہیں کہ اتنا زیادہ اندھیرا ہوتا تھا کہ مردوں کو عورتوں سے الگ طور پر پہچان سکتے تھے، لیکن یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے، کیونکہ عورت اور مرد کی پہچان کے لیے چادروں میں ملبوس ہونا ہی کافی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد معرفت ذات ہے، یعنی اندھیرے کی وجہ سے ان کی شخصیت نہ پہچانی جاتی تھی کہ ہندہ ہے یا زینب۔
پہلے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ہم نشین کو پہچان لیتا تھا۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 547)
حدیث عائشہ اس کے معارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا توعورتوں کو جو چادروں میں لپٹی ہوتیں، انھیں دور سے پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔
طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نماز فجر میں سورۂ"الحاقة" یا اس جیسی سورتوں کی تلاوت فرماتے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ انتہائی آرام وسکون سے اور ٹھہرٹھہر کر ترتیل سے تلاوت فرماتے تھے، نماز کے ارکان بھی پرسکون اور مکمل انداز میں پورے کرتے، نماز سے فراغت کے بعد آدمی بمشکل اپنے ہم نشین کو پہچانتا اور عورتوں کو پہچاننا مشکل ہوتا۔
یہ سب باتیں اس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منہ اندھیرے نماز فجر پڑھا کرتےتھے۔
(فتح الباري: 38/2) (2)
رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نماز فجر صبح کے خوب روشن ہوجانے پر پڑھا کرو کیونکہ یہ تمھارے اجر میں اضافے کا موجب ہے۔
(مسند أحمد: 465/3)
اس میں اور دیگر احادیث کے مابین دو طرح سے تطبیق ممکن ہے:
٭نماز کا آغاز تاریکی میں کیا جائے، لیکن قراءت اتنی طویل ہو کہ سلام پھیرنے کے وقت صبح خوب روشن ہوجائے۔
اسے امام طحاوی ؒ اور امام ابن قیم ؒ نے اختیار کیا ہے۔
٭صبح روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔
اس موقف کو امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ نے اختیار کیا ہے۔
واضح رہے کہ صبح کو روشن کرکے نماز فجر ادا کرنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، لیکن آخر کار جس عمل پر تادم حیات مداومت فرمائی، وہ اندھیرے میں نماز فجر کی ادائیگی ہے، جب کہ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی، دوسری مرتبہ اسے خوب روشن کرکے پڑھا، پھر وفات تک آپ کی نماز اندھیرے ہی میں رہی۔
آپ نے دوبارہ کبھی روشن کرکے نہیں پڑھی۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 394)
اس مسئلے میں اگرچہ اختلاف ہے، تا ہم ہمارے ہاں راجح یہی ہے کہ نماز فجر اندھیرے ہی میں ادا کی جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا دائمی عمل یہی ہے، پھر خلفائے اربعہ اور جمہور صحابۂ کرام اور تابعین عظام نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف افضل عمل پر ہمیشگی کرتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔
(السنن الکبرٰی للبیهقي: 435/1)
سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں:
نماز فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔
اور صبح صادق سے مراد وہ سفیدی ہے جو آسمان کے مشرقی کنارے پر پھیل جاتی ہے اور اس کے بعد تاریکی نہیں ہوتی۔
(رسالة مواقیت الصلاة، ص: 10)
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 578   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.