الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر
سلسله احاديث صحيحه
اذان اور نماز
अज़ान और नमाज़
445. بعض گناہوں کی وجہ سے نمازیوں، روزے داروں، حاجیوں اور مجاہدوں کا جہنم میں جانا بھی ممکن ہے
“ कुछ पापों के कारण नमाज़ियों ، रोज़ेदारों ، हाजियों और जिहाद करने वालों का जहन्नम में जाना संभव है ”
حدیث نمبر: 675
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
- (إذا خلص المؤمنون من النار وامنوا؛ فـ[والذي نفسي بيده!] ما مجادلة احدكم لصاحبه في الحق يكون له في الدنيا باشد من مجادلة المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين ادخلوا النار. قال: يقولون: ربنا:! إخواننا كانوا يصلون معنا؛ ويصومون , معنا؛ ويحجون معنا؛ [ويجاهدون معنا] ؛ فادخلتهم النار. قال: فيقول: اذهبوا فاخرجوا من عرفتم منهم؛ فياتونهم؛ فيعرفونهم بصورهم؛ لا تاكل النار صورهم؛ [لم تغش الوجه] ؛ فمنهم من اخذته النار إلى انصاف ساقيه؛ ومنهم من اخذته إلى كعبيه (¬1) [فيخرجون منها بشرا كثيرا] ؛ فيقولون: ربنا! قد اخرجنا من امرتنا. قال: ثم [يعودون فيتكلمون فـ] يقول: اخرجوا من كان في قلبه مثقال دينار من الإيمان. [فيخرجون] ¬ (¬1) الاصل: ((كفيه)) وعلى الهامش: ((في ((مسلم)): ركبتيه)). قلت: والتصويب من ((المسند)) ؛ و ((النسائي)) ؛و ((ابن ماجة)). وفي ((البخاري)): ((قدميه)) وفي رواية مسلم سويد بن سعيد؛ وهو متكلم فيه. خلقا كثيرا]، ثم [يقولون: ربنا! لم نذر فيها احدا ممن امرتنا. ثم يقول: ارجعوا، فـ] من كان في قلبه وزن نصف دينار [فاخرجوه. فيخرجون خلقا كثيرا، ثم يقولون: ربنا! لم نذر فيها ممن امرتنا... ] ؛ حتى يقول: اخرجوا من كان في قلبه مثقال ذرة. [فيخرجون خلقا كثيرا]، قال ابو سعيد: فمن لم يصدق بهذا الحديث فليقرا هذه الآية: (إن الله لايظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه اجرا عظيما) [النساء /40] ؛ قال: فيقولون: ربنا! قد اخرجنا من امرتنا؛ فلم يبق في النار احد فيه خير. قال: ثم يقول الله: شفعت الملائكة؛ وشفعت الانبياء؛ وشفع المؤمنون؛ وبقي ارحم الراحمين قال: فيقبض قبضة من النار- او قال: قبضتين - ناسا لم يعملوا خيرا قط؛ قد احترقوا حتى صاروا حمما. قال: فيؤتى بهم إلى ماء يقال له: (الحياة) ؛ فيصب عليهم؛ فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل؛ [قد رايتموها إلى جانب الصخرة؛ وإلى جانب الشجرة؛ فما كان إلى الشمس منها كان اخضر؛ وما كان منها إلى الظل كان ابيض] ؛ قال: فيخرجون من اجسادهم مثل اللؤلؤ؛ وفي اعناقهم الخاتم؛ (وفي رواية: الخواتم): عتقاء الله. قال: فيقال لهم: ادخلوا الجنة؛ فما تمنيتم ورايتم من شيء فهو لكم [ومثله معه]. [فيقول اهل الجنة: هؤلاء عتقاء الرحمن ادخلهم الجنة بغير عمل عملوه؛ ولا خير قدموه]. قال: فيقولون: ربنا! اعطيتنا ما لم تعط احدا من العالمين. قال: فيقول: فإن لكم عندي افضل منه. فيقولون: ربنا! وما افضل من ذلك؟ [قال:] فيقول: رضائي عنكم؛ فلا اسخط عليكم ابدا).- (إذا خَلصَ المؤمنونَ من النار وأَمِنُوا؛ فـ[والذي نفسي بيده!] ما مُجَادَلَةُ أحَدِكُم لصاحبِهِ في الحقِّ يكون له في الدنيا بأشدِّ من مجادلة المؤمنين لربِّهم في إخوانِهِمُ الذين أُدْخِلُوا النار. قال: يقولون: ربَّنا:! إخوانُنَا كانوا يصلُّون معنا؛ ويصومون , معنا؛ ويحُجُّون معنا؛ [ويُجاهدون معنا] ؛ فأدخلتَهم النار. قال: فيقولُ: اذهَبُوا فأخرِجُوا من عَرَفْتُم منهم؛ فيأتُونهم؛ فَيَعْرفونَهُم بِصُورِهم؛ لا تأكلُ النار صُوَرَهُم؛ [لم تَغْشَ الوَجْهَ] ؛ فَمِنْهم من أَخَذتْهُ النارُ إلى أنصافِ ساقَيْهِ؛ ومنهم من أخذته إلى كَعْبَيْه (¬1) [فَيُخرِجُونَ مِنْها بشراً كثيراً] ؛ فيقولون: ربَّنا! قد أَخْرَجنا مَنْ أَمَرتنا. قال: ثم [يَعُودون فيتكلمون فـ] يقولُ: أَخْرِجُوا من كان في قلبهِ مِثقالُ دينارٍ من الإيمانِ. [فيُخرِجُون] ¬ (¬1) الأصل: ((كفيه)) وعلى الهامش: ((في ((مسلم)): ركبتيه)). قلت: والتصويب من ((المسند)) ؛ و ((النسائي)) ؛و ((ابن ماجة)). وفي ((البخاري)): ((قدميه)) وفي رواية مسلم سويد بن سعيد؛ وهو متكلم فيه. خلقاً كثيراً]، ثم [يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها أحداً ممن أَمَرتَنا. ثم يقول: ارجعوا، فـ] من كان في قلبه وزنُ نصف دينارٍ [فأًخْرِجُوهُ. فيُخرِجونَ خلقاً كثيراً، ثم يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها ممن أمرتنا... ] ؛ حتى يقول: أخرِجُوا من كان في قلبه مثقال ذَرَّةٍ. [فيخرجون خلقاً كثيراً]، قال أبو سعيد: فمن لم يُصّدِّقْ بهذا الحديث فليَقْرَأْ هذه الآية: (إن الله لايظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لَدُنْهُ أجراً عظيماً) [النساء /40] ؛ قال: فيقولون: ربنا! قد أَخْرَجْنا من أمرتنا؛ فلم يَبْقَ في النار أحدٌ فيه خيرٌ. قال: ثم يقول الله: شفعَتِ الملائكة؛ وشَفَعَتِ الأنبياء؛ وشَفَعَ المؤمنون؛ وبَقِيَ أرحم الراحمين قال: فَيَقْبضُ قبضةً من النار- أو قال: قَبْضَتَينِ - ناساً لم يعملوا خيراً قََطُّ؛ قد احتَرَقُوا حتى صاروا حُمَماً. قال: فَيُؤْتَى بهم إلى ماء يُقالُ له: (الحياةُ) ؛ فَيُصَبُّ عليهم؛ فَيَنْبُتُونَ كما تَنْبُتُ الحبَّةُ في حَمِيلِ السَّيلِ؛ [قد رَأَيْتُمُوها إلى جانب الصخرة؛ وإلى جانب الشجرة؛ فما كان إلى الشمس منها كان أخضر؛ وما كان منها إلى الظلِّ كان أبيض] ؛ قال: فَيَخْرُجُونَ من أجسادِهِم مِثلَ اللؤلؤِ؛ وفي أعناقهم الخاتمُ؛ (وفي رواية: الخواتِمُ): عُتَقاءُ الله. قال: فيُقالُ لَهُمُ: ادخلوا الجنة؛ فما تمنَّيتمُ وَرَأيتُم من شيءٍ فهو لكُم [ومِثلُهُ مَعَهُ]. [فيقول أهل الجنة: هؤلاء عُتقاءُ الرحمن أَدْخَلَهُمُ الجنة بغيرِ عملٍ عَمِلُوهُ؛ ولا خيرٍ َقدَّمُوهُ]. قال: فيقولون: ربَّنا! أَعَطَيْتَنا ما لم تُعطِ أحداً من العالمين. قال: فيقول: فإن لكم عندي أفْضَلَ منه. فيقولون: ربَّنا! وما أَفْضَلُ من ذلكَ؟ [قال:] فيقولُ: رِضائي عَنْكُم؛ فلا أَسْخَطُ عليكم أبداً).
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤمن جہنم کی آگ سے بچ جائیں گے اور بے فکر ہو جائیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے مومن بھائیوں کے بارے میں اپنے رب سے بہت زور شور سے بحث و مباحثہ کریں گے، جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے ساتھی کے دنیوی حق کو حاصل کرنے کے لیے جھگڑتا ہے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے بھائی، جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے، روزے رکھتے حج ادا کرتے اور جہاد کرتے تھے، تو نے ان کو آگ میں دا خل کر دیا ہے، (ایسا کیوں ہے)؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جاؤ، جن کو پہچانتے، ہو، انہیں نکال لاؤ۔ وہ ان کے پاس جائیں گے، انہیں ان کی شکلوں سے پہچانیں گے، کیونکہ آگ ان کی صورتوں یعنی چہروں کو نہیں جلائے گی، کسی پر آگ کا اثر نصف پنڈلی تک ہو گا اور کسی پر گھٹنوں تک، وہ وہاں سے بہت سے انسانوں کو نکال لائیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے رب! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھا، ہم ان کو نکال لائے ہیں۔ وہ پھر وہی بات کریں گے (کہ ہمارے بھائی جہنم میں ہیں)، جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جس کے دل میں دینار کے وزن کے بقدر ایمان ہے، اسے بھی نکال لاؤ۔ وہ جائیں گے اور بہت سارے انسانوں کو نکال لائیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جن کو نکالنے کا حکم دیا ہم نے ان میں کسی کو نہیں چھوڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تیسری بار چلو اور جس کے دل میں نصف دینار کے وزن کے بقدر ایمان ہے، اسےبھی جہنم سے باہر نکال لاؤ۔ وہ بہت سے لوگوں کو نکال کر پھر کہیں گے: اے ہمارےرب! تو نے جن کا حکم دیا، ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا حتی کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہے، اسے بھی نکال لاؤ۔ سو وہ بہت سوں کو نکال لائیں گے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو آدمی اس حدیث کی تصدیق نہ کرے وہ یہ آیت پڑھے: «إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا» اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اگر (کسی کی) کوئی نیکی ہو گی تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور اپنی جناب سے اجر عظیم عطا کرے گا۔ (۴-النساء:۴۰) پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تیرے حکم کے مطابق ہم (ذرہ برابر ایمان والوں) کو بھی جہنم سے نکال لائے ہیں، اب وہاں کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس کے دل میں کوئی خیر ہو۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے: فرشتے سفارش کر چکے، انبیاء سفارش کر چکے اور مومنوں نے بھی سفارش کر لی۔ اب صرف «ارحم الراحمين» باقی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ خود جہنم سے ایسے لوگوں کی ایک یا دو مٹھیاں بھر کر لائیں گے، جنہوں نے کوئی نیک عمل نہیں کیا ہو گا۔ وہ جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ ان کو حیاۃ نامی پانی کے پاس لایا جائے گا اور ان پر یہ پانی بہایا جائے گا، ان کا جسم سیلاب کے کوڑا کرکٹ میں اگنے والے دانے کی طرح اگے گا۔ تم لوگوں نے کسی چٹان یا درخت کے پاس ایسا دانہ اگتا ہوا دیکھا ہو گا، سورج کی سمت میں اگنے والے بوٹے سبز اور سائے میں اگنے والے سفید ہوتے ہیں۔ اس پانی کے بہانے سے ان کے جسم موتی کی طرح ہو جائیں گے اور ان کی گردنوں میں «عُتَقَا ءُالله» کی مہر ہو گی۔ انہیں کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ، جو کچھ تمنا کرو گے اور جو کچھ دیکھو گے، وہ اور مزید اس کی مثل بھی تمہیں دیا جائے گا۔ اہل جنت کہیں گے: یہ لوگ رحمٰن کے آزاد شدہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو بغیر کسی عمل اور بغیر کسی خیر و بھلائی کے جنت میں داخل کر دیا ہے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میرے پاس تمہارے لیے اس سے بھی افضل چیز ہے۔ وہ پوچھیں گے: ہمارے رب! وہ افضل چیز کون سی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میں تم سے راضی ہو گیا ہوں، اب تم پر کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گا۔
हज़रत अबु सईद ख़ुदरी रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है, वह कहते हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! जब मोमिन जहन्नम की आग से बच जाएंगे और निश्चिंत हो जाएंगे तो इस ज़ात की क़सम जिस के हाथ में मेरी जान है ! वे जहन्नम में जाने वाले अपने मोमिन भाइयों के बारे में अपने रब्ब से बहुत ज़ोर शोर से बहस करेंगे, जैसा कि तुम में से कोई अपने साथी के दुनिया के अधिकार को पाने के लिए झगड़ता है। वह कहेंगे ! ऐ हमारे रब्ब ! हमारे भाई, जो हमारे साथ नमाज़ पढ़ते, रोज़े रखते हज्ज करते और जिहाद करते थे, तू ने उन को आग में डाल दिया है, (ऐसा क्यों है) ? अल्लाह तआला फ़रमाए गा ! जाओ, जिन को पहचानते हो, उन्हें निकाल लाओ। वे उन के पास जाएंगे, उन्हें उन की शक्लों से पहचानें गे, क्यूंकि आग उन के चेहरों को नहीं जलाए गी, किसी पर आग का प्रभाव आधी पिंडली तक होगा और किसी पर घुटनों तक, वे वहां से बहुत से इन्सानों को निकाल लाएंगे और कहेंगे ! ऐ हमारे रब्ब ! जिन के बारे में तू ने हमें हुक्म दिया था, हम उन को निकाल लाए हैं। वह फिर वही बात करेंगे (कि हमारे भाई जहन्नम में हैं), जवाब में अल्लाह तआला फ़रमाए गा ! जिस के दिल में दीनार के वज़न के बराबर ईमान है, उसे भी निकाल लाओ। वे जाएंगे और बहुत सारे इन्सानों को निकाल लाएंगे और कहेंगे ! ऐ हमारे रब्ब ! तू ने हमें जिन को निकालने का हुक्म दिया हम ने उन में से किसी को नहीं छोड़ा। लेकिन अल्लाह तआला फ़रमाए गा ! तीसरी बार चलो और जिस के दिल में आधा दीनार के वज़न के बराबर ईमान है, उसे भी जहन्नम से बाहर निकाल लाओ। वे बहुत से लोगों को निकाल कर फिर कहेंगे ! ऐ हमारे रब्ब ! तू ने जिन का हुक्म दिया, हम ने उन में से किसी को नहीं छोड़ा यहां तक कि अल्लाह तआला फ़रमाए गा ! जिस के दिल में ज़र्रा बराबर ईमान है, उसे भी निकाल लाओ। तो वे बहुत सों को निकाल लाएंगे।” हज़रत अबु सईद ख़ुदरी रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं ! जो आदमी इस हदीस को सच्च न माने वह ये आयत पढ़े ! « إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا » “अल्लाह तआला ज़र्रा बराबर ज़ुल्म नहीं करता, अगर (किसी की) कोई नेकी होगी तो वह उसे कई गुना बढ़ा देगा और अपने पास से बहुत बढ़ा बदला देगा।” [सूरत अन-निसा: 40] फिर वह कहेंगे ! ऐ हमारे रब्ब ! तेरे हुक्म के अनुसार हम (ज़र्रा बराबर ईमान वालों) को भी जहन्नम से निकाल लाए हैं, अब वहां कोई भी ऐसा नहीं रहा जिस के दिल में कोई अच्छाई हो। उस समय अल्लाह तआला फ़रमाए गा ! फ़रिश्ते सिफ़ारिश कर चुके, नबि सिफ़ारिश कर चुके और मोमिनों ने भी सिफ़ारिश करली। अब केवल « اَلرحَمَ الرَّاحِمِين » बाक़ी है। फिर अल्लाह तआला ख़ुद जहन्नम से ऐसे लोगों की एक या दो मुट्ठियां भर कर लाएगा, जिन्हों ने कोई नेक कर्म नहीं किया होगा। वह जल कर कोयला बन चुके होंगे। उन को “हयात” « حیاۃ » नाम के पानी के पास लाया जाएगा और उन पर ये पानी बहाया जाएगा, उन का शरीर बाढ़ के कूड़ा कर्कट में उगने वाले दाने की तरह उगेगा। तुम लोगों ने किसी चट्टान या पेड़ के पास ऐसा दाना उगता हुआ देखा होगा, सूर्य की दिशा में उगने वाले बूटे हरे और छाया में उगने वाले सफ़ेद होते हैं। उस पानी के बहाने से उन के शरीर मोती की तरह हो जाएंगे और उन की गर्दनों में « عُتَقَا ءُالله » की मुहर होगी। उन्हें कहा जाए गा कि जन्नत में चले जाओ, जो कुछ इच्छा करोगे और जो कुछ देखो गे, वह और अधिक उस के जैसा भी तुम्हें दिया जाए गा। जन्नत वाले कहेंगे ! इन लोगों को रहमान ने मुक्त कर दिया है, अल्लाह तआला ने उन को बिना किसी कर्म और बिना किसी अच्छाई और भलाई के जन्नत में भेज दिया है। वह कहेंगे ! ऐ हमारे रब्ब ! तू ने हमें वह कुछ दिया है जो जहान वालों में से किसी को नहीं दिया। अल्लाह तआला फ़रमाए गा ! मेरे पास तुम्हारे लिए इस से भी अफ़ज़ल चीज़ है। वह पूछेंगे ! हमारे रब्ब ! वह अफ़ज़ल चीज़ कौन सी है ? अल्लाह तआला फ़रमाए गा ! मैं तुम से ख़ुश हो गया हूँ, अब तुम पर कभी भी नाराज़ नहीं होंगा। ‘‘
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3054

قال الشيخ الألباني:
- (إذا خَلصَ المؤمنونَ من النار وأَمِنُوا؛ فـ[والذي نفسي بيده!] ما مُجَادَلَةُ أحَدِكُم لصاحبِهِ في الحقِّ يكون له في الدنيا بأشدِّ من مجادلة المؤمنين لربِّهم في إخوانِهِمُ الذين أُدْخِلُوا النار. قال: يقولون: ربَّنا:! إخوانُنَا كانوا يصلُّون معنا؛ ويصومون , معنا؛ ويحُجُّون معنا؛ [ويُجاهدون معنا] ؛ فأدخلتَهم النار. قال: فيقولُ: اذهَبُوا فأخرِجُوا من عَرَفْتُم منهم؛ فيأتُونهم؛ فَيَعْرفونَهُم بِصُورِهم؛ لا تأكلُ النار صُوَرَهُم؛ [لم تَغْشَ الوَجْهَ] ؛ فَمِنْهم من أَخَذتْهُ النارُ إلى أنصافِ ساقَيْهِ؛ ومنهم من أخذته إلى كَعْبَيْه (¬1) [فَيُخرِجُونَ مِنْها بشراً كثيراً] ؛ فيقولون: ربَّنا! قد أَخْرَجنا مَنْ أَمَرتنا. قال: ثم [يَعُودون فيتكلمون فـ] يقولُ: أَخْرِجُوا من كان في قلبهِ مِثقالُ دينارٍ من الإيمانِ. [فيُخرِجُون] ¬ (¬1) الأصل: ((كفيه)) وعلى الهامش: ((في ((مسلم)) : ركبتيه)) . قلت: والتصويب من ((المسند)) ؛ و ((النسائي)) ؛و ((ابن ماجة)) . وفي ((البخاري)) : ((قدميه)) وفي رواية مسلم سويد بن سعيد؛ وهو متكلم فيه. خلقاً كثيراً] ، ثم [يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها أحداً ممن أَمَرتَنا. ثم يقول: ارجعوا، فـ] من كان في قلبه وزنُ نصف دينارٍ [فأًخْرِجُوهُ. فيُخرِجونَ خلقاً كثيراً، ثم يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها ممن أمرتنا ... ] ؛ حتى يقول: أخرِجُوا من كان في قلبه مثقال ذَرَّةٍ. [فيخرجون خلقاً كثيراً] ، قال أبو سعيد: فمن لم يُصّدِّقْ بهذا الحديث فليَقْرَأْ هذه الآية: (إن الله لايظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لَدُنْهُ أجراً عظيماً) [النساء /40] ؛ قال: فيقولون: ربنا! قد أَخْرَجْنا من أمرتنا؛ فلم يَبْقَ في النار أحدٌ فيه خيرٌ. قال: ثم يقول الله: شفعَتِ الملائكة؛ وشَفَعَتِ الأنبياء؛ وشَفَعَ المؤمنون؛ وبَقِيَ أرحم الراحمين قال: فَيَقْبضُ قبضةً من النار- أو قال: قَبْضَتَينِ - ناساً لم يعملوا خيراً قََطُّ؛ قد احتَرَقُوا حتى صاروا حُمَماً. قال: فَيُؤْتَى بهم إلى ماء يُقالُ له: (الحياةُ) ؛ فَيُصَبُّ عليهم؛ فَيَنْبُتُونَ كما تَنْبُتُ الحبَّةُ في حَمِيلِ السَّيلِ؛ [قد رَأَيْتُمُوها إلى جانب الصخرة؛ وإلى جانب الشجرة؛ فما كان إلى الشمس منها كان أخضر؛ وما كان منها إلى الظلِّ كان أبيض] ؛ قال: فَيَخْرُجُونَ من أجسادِهِم مِثلَ اللؤلؤِ؛ وفي أعناقهم الخاتمُ؛ (وفي رواية: الخواتِمُ) : عُتَقاءُ الله. قال: فيُقالُ لَهُمُ: ادخلوا الجنة؛ فما تمنَّيتمُ وَرَأيتُم من شيءٍ فهو لكُم [ومِثلُهُ مَعَهُ] . [فيقول أهل الجنة: هؤلاء عُتقاءُ الرحمن أَدْخَلَهُمُ الجنة بغيرِ عملٍ عَمِلُوهُ؛ ولا خيرٍ َقدَّمُوهُ] . قال: فيقولون: ربَّنا! أَعَطَيْتَنا ما لم تُعطِ أحداً من العالمين. قال: فيقول: فإن لكم عندي أفْضَلَ منه. فيقولون: ربَّنا! وما أَفْضَلُ من ذلكَ؟ [قال:] فيقولُ: رِضائي عَنْكُم؛ فلا أَسْخَطُ عليكم أبداً) .
‏‏‏‏_____________________
‏‏‏‏
‏‏‏‏أخرجه عبد الرزاق في "المصنف " (11/409- 411) : أخبرنا معمر عن زيد
‏‏‏‏ابن أسلم عن عطاء بن يسار عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ... فذكره.
‏‏‏‏ومن طريق عبد الرزاق أخرجه أحمد (3/ 94) ، والنسائي (2/ 270) ، وابن
‏‏‏‏ماجة (رقم 60) ، والترمذي (2598) - مختصراً-، وابن خزيمة في " التوحيد "
‏‏‏‏(ص 184و201و212) ؛ وابن نصر المروزي في (تعظيم قدرالصلاة رقم: 276)
‏‏‏‏وتابعه محمد بن ثور عن معمر به؛ لم يسق لفظه؛ وإنما قال: بنحوه. يعني:
‏‏‏‏حديث هشام بن سعد الآتي تخريجه.
‏‏‏‏أخرجه أبوعوانة.
‏‏‏‏وتابعه سعيد بن هلال عن زيد بن أسلم به أتم منه؛ وأوله:
‏‏‏‏" هل تضارُّون في رؤية الشمس والقمر.." الحديث بطوله.
‏‏‏‏أخرجه البخاري (7439) ، ومسلم (1/114- 117) ، وابن خزيمة أيضاً (ص201) ؛ وابن حبان (7333- الإحسان) .
‏‏‏‏وحفص بن ميسرة عن زيد
‏‏‏‏أخرجه مسلم (1/114- 117) ، وكذا البخاري (4581) ؛ لكنه لم يسقه بتمامه؛ وكذا أبو عوانة (1/168- 169) .
‏‏‏‏وهشام بن سعد عنه
‏‏‏‏أخرجه أبو عوانة (1/181-183) بتمامه؛ وابن خزيمة (ص 200) ؛والحاكم
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 129__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏(4/582- 584) وصححه، وكذا مسلم (1/117) ؛ إلا أنه لم يسق لفظه، وإنما أحال به على لفظ حديث حفص بن ميسرة نحوه.
‏‏‏‏وتابع عطاء (¬1) : سليمان بن عمرو بن عبيد العتواري- أحد بني ليث، وكان في حجر أبي سعيد- قال: سمعت أبا سعيد الخدري يقول: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول ... فذكره نحوه مختصراً، وفيه الزيادة الثالثة.
‏‏‏‏أخرجه أحمد (3/ 11- 12) ، وابن خزيمة (ص 211) ، وابن أبي شيبة في "المصنف " (13/176/16039) ، وعنه ابن ماجه (4280) ، وابن جرير في "التفسير" (16/85) ، ويحيى بن صاعد في "زوائد الزهد" (ص 448/1268) ، والحا كم (4/ 585) وقال:
‏‏‏‏"صحيح الإسناد على شرط مسلم "! وبيض له الذهبي، وإنما هو حسن فقط؛ لأن فيه محمد بن إسحاق، وقد صرح بالتحديث.
‏‏‏‏أقول- بعد تخريج الحديث هذا التخريج الذي قد لا تراه في مكان آخر، وبيان أنه متفق عليه بين الشيخين وغيرهما من أهل" الصحاح " و" السنن" و" المسانيد"-:
‏‏‏‏فيه فوائد جمة عظيمة؛ منها شفاعة المؤمنين الصالحين في إخوانهم المصلين الذين أدخلوا النار بذنوبهم، ثم في غيرهم ممن هم دونهم على اختلاف قوة إيمانهم.
‏‏‏‏ثم يتفضل الله تبارك وتعالى على من بقي في النار من المؤمنين، فيخرجهم
‏‏‏‏من النار بغير عمل عملوه؛ ولا خير قدموه. ولقد توهم بعضهم أن المراد بالخير
‏‏‏‏المنفي تجويز إخراج غير الموحدين من النار! قال الحافظ في الفتح (13/429) :
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) ووقع في رسالتي، حكم تارك الصلاة" (ص 31- المطبوعة) : ((وتابع زيداً)) وهو سهو وسبقُ قَلَم.
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 130__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏"ورد ذلك بأن المراد بالخير المنفي ما زاد على أصل الإقرار بالشهادتين؛ كما
‏‏‏‏تدل عليه بقية الأحاديث ".
‏‏‏‏قلت: منها قوله - صلى الله عليه وسلم - في حديث أنس الطويل في الشفاعة أيضاً:
‏‏‏‏"فيقال: يا محمد! ارفع رأسك، وقل يسمع، وسل تعط، واشفع تشفع. فأقول: يا رب! ائذن لي فيمن قال: لا إله إلا الله. فيقول: وعزتي وجلالي وكبريائي وعظمتي لأخرجن منها من قال: لا إله إلا الله ".
‏‏‏‏متفق عليه، وهو مخرج في "ظلال الجنة" (2/296/ رقم: 828) .
‏‏‏‏وفي طريق أخرى عن أنس رضي الله عنه:
‏‏‏‏".. وفرغ الله من حساب الناس، وأدخل من بقي من أمتي النار، فيقول أهل النار: ما أغنى عنكم أنكم كنتم تعبدون الله عز وجل لا تشركون بالله شيئاً؟ فيقول الجبار عز وجل: فبعزتي لأعتقنهم من النار. فيرسل إليهم فيخرجون وقد امتحشوا، فيدخلون في نهر الحياة، فينبتون.. " الحديث.
‏‏‏‏أخرجه أحمد وغيره بسند صحيح، وهو مخرج في "الظلال " تحت الحديث (844) ، وله فيه شواهد (842- 843) ، وفي "الفتح " (11/455) شواهد أخرى. وفي الحديث رد على استنباط ابن أبي جمرة من قوله - صلى الله عليه وسلم - فيه:
‏‏‏‏"لم تغش الوجه "، ونحوه الحديث الآتي بعده: "إلا دارات الوجوه ": أن من
‏‏‏‏كان مسلماً ولكنه كان لايصلي لايخرج؛ إذ لا علامة له! ولذلك تعقبه الحافظ
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 131__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏بقوله (11/457) :
‏‏‏‏" لكن يحمل على أنه يخرج في القبضة؛ لعموم قوله: " لم يعملوا خيراً قط "؛
‏‏‏‏وهو مذكور في حديث أبي سعيد الآتي في (التوحيد) ". يعني هذا.
‏‏‏‏وقد فات الحافظ رحمه الله أن في الحديث نَفْسِهِ تعقباً على ابن أبي جمرة
‏‏‏‏من وجه آخر؛ وهو أن المؤمنين كما شفعهم الله في إخوانهم المصلين والصائمين وغيرهم في المرة الأولى، فأخرجوهم من النار بالعلامة، فلما شُفِّعوا في المرات الأخرى، وأخرجوا بشراً كثيراً؛ لم يكن فيهم مصلون بداهة، وإنما فيهم من الخير كل حسب إيمانه. وهذا ظاهر جداً لا يخفى على أحد إن شاء الله تعالى.
‏‏‏‏وعلى ذلك؛ فالحديث دليل قاطع على أن تارك الصلاة- إذا مات مسلماً يشهد أن لا إله إلا الله- لا يخلد في النار مع المشركين، ففيه دليل قوي جداً أنه داخل تحت مشيئة الله تعالى في قوله: (إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء) [النساء/48؛116] ، وقد روى الإمام أحمد في "مسنده " (6/240) حديثاً صريحاً في هذا من رواية عائشة رضي الله عنها مرفوعاً بلفظ:
‏‏‏‏" الدواوين عند الله عز وجل ثلاثة.. " الحديث، وفيه:
‏‏‏‏" فأما الديوان الذي لا يغفره الله؛ فالشرك بالله، قال الله عز وجل: (ومن يشرك بالله فقد حرم الله عليه الجنة) [المائدة/72]
‏‏‏‏وأما الديوان الذي لا يعبأ الله به شيئاً؛ فظلم العبد نفسه فيما بينه وبين ربه؛
‏‏‏‏من صوم يوم تركه؛ أو صلاة تركها؛ فإن الله عز وجل يغفر ذلك ويتجاوز إن شاء.." الحديث. وقد صححه الحاكم (4/576) ، وهذا وإن كان غير مُسَلْمٍ عندي - لما بينته في "تخريج شرح الطحاوية" (رقم: 384) -؛ فإنه يشهد له هذا الحديث الصحيح: حديث الترجمة. فتنبه.
‏‏‏‏إذا عرفت ما سلف يا أخي المسلم! فإن عجبي حقاً لا يكاد ينتهي من إغفال
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 132__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏جماهير المؤلفين الذين توسعوا في الكتابة في هذه المسألة الهامة؛ ألا وهي: هل يكفر تارك الصلاة كسلاً أم لا؟ لقد غفلوا جميعاً- فيما اطلعت- عن إيراد هذا الحديث الصحيح مع اتفاق الشيخين وغيرهما على صحته، لم يذكره من هو حجة له، ولم يجب عنه من هو حجة عليه، وبخاصة منهم الإمام ابن القيم رحمه الله تعالى، فإنه مع توسعه في سوق أدلة المختلفين في كتابه القيم: "الصلاة"، وجواب كل منهم عن أدلة مخالفه؛ فإنه لم يذكر هذا الحديث في أدلة المانعين من التكفير؛ إلا مختصراً اختصاراً مخلاً لا يظهر دلالته الصريحة على أن الشفاعة تشمل تارك الصلاة أيضاً، فقد قال رحمه الله:
‏‏‏‏"وفي حديث الشفاعة: "يقول الله عز وجل: وعزتي وجلالي لأخرجن من
‏‏‏‏النار من قال: لا إله إلا الله ". وفيه: "فيخرج من النار من لم يعمل خيراً قط ... ".
‏‏‏‏قلت: وهذا السياق ملفق من حديثين؛ فالشطر الأول هو في آخر حديث
‏‏‏‏أنس المتفق عليه؛ وقد سبق أن ذكرت (ص 131) الطرف الأخير منه؛ والشطر
‏‏‏‏الآخر هو في حديث الترجمة:
‏‏‏‏" فيقبض قبضة من


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.