الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
18. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ
18. باب: سفر میں روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 710
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح، فصام حتى بلغ كراع الغميم وصام الناس معه، فقيل له: إن الناس قد شق عليهم الصيام، وإن الناس ينظرون فيما فعلت، فدعا بقدح من ماء بعد العصر، فشرب والناس ينظرون إليه، فافطر بعضهم وصام بعضهم، فبلغه ان ناسا صاموا، فقال: " اولئك العصاة ". قال: وفي الباب عن كعب بن عاصم، وابن عباس، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " ليس من البر الصيام في السفر " واختلف اهل العلم في الصوم في السفر، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الفطر في السفر افضل، حتى راى بعضهم عليه الإعادة إذا صام في السفر. واختار احمد، وإسحاق الفطر في السفر. وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إن وجد قوة فصام فحسن، وهو افضل، وإن افطر فحسن، وهو قول سفيان الثوري، ومالك بن انس، وعبد الله بن المبارك. وقال الشافعي: وإنما معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " ليس من البر الصيام في السفر "، وقوله حين بلغه ان ناسا صاموا، فقال: " اولئك العصاة "، فوجه هذا إذا لم يحتمل قلبه قبول رخصة الله، فاما من راى الفطر مباحا وصام وقوي على ذلك فهو اعجب إلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ وَصَامَ النَّاسُ مَعَهُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَيْهِمُ الصِّيَامُ، وَإِنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ فِيمَا فَعَلْتَ، فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَشَرِبَ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَأَفْطَرَ بَعْضُهُمْ وَصَامَ بَعْضُهُمْ، فَبَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ " وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ أَفْضَلُ، حَتَّى رَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ إِذَا صَامَ فِي السَّفَرِ. وَاخْتَارَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ. وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ أَفْضَلُ، وَإِنْ أَفْطَرَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ. وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ "، وَقَوْلِهِ حِينَ بَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ "، فَوَجْهُ هَذَا إِذَا لَمْ يَحْتَمِلْ قَلْبُهُ قَبُولَ رُخْصَةِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَنْ رَأَى الْفِطْرَ مُبَاحًا وَصَامَ وَقَوِيَ عَلَى ذَلِكَ فَهُوَ أَعْجَبُ إِلَيَّ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے تو آپ نے روزہ رکھا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ۱؎ پر پہنچے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں پر روزہ رکھنا گراں ہو رہا ہے اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ (یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگا کر پیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، تو ان میں سے بعض نے روزہ توڑ دیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ (اب بھی) روزے سے ہیں، آپ نے فرمایا: یہی لوگ نافرمان ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں کعب بن عاصم، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے،
۴- سفر میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے، یہاں تک بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جب وہ سفر میں روزہ رکھ لے تو وہ سفر سے لوٹنے کے بعد پھر دوبارہ رکھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی سفر میں روزہ نہ رکھنے کو ترجیح دی ہے۔
۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر وہ طاقت پائے اور روزہ رکھے تو یہی مستحسن اور افضل ہے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک اسی کے قائل ہیں،
۶- شافعی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں اور جس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ روزے سے ہیں تو آپ کا یہ فرمانا کہ یہی لوگ نافرمان ہیں ایسے شخص کے لیے ہے جس کا دل اللہ کی دی ہوئی رخصت اور اجازت کو قبول نہ کرے، لیکن جو لوگ سفر میں روزہ نہ رکھنے کو مباح سمجھتے ہوئے روزہ رکھے اور اس کی قوت بھی رکھتا ہو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 15 (1141)، سنن النسائی/الصیام 49 (2265)، (تحفة الأشراف: 2598) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔
۲؎: کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور صوم افطار کرنے کے بارے میں انہیں جو رخصت دی گئی ہے اس رخصت کو قبول کرنے سے انہوں نے انکار کیا، اور یہ اس شخص پر محمول کیا جائے گا جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر ہو رہا ہو، رہا وہ شخص جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر نہ پہنچے تو وہ روزہ رکھنے سے گنہگار نہ ہو گا، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران مشقت کی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (4 / 57)

   صحيح مسلم2610جابر بن عبد اللهخرج عام الفتح إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ كراع الغميم فصام الناس ثم دعا بقدح من ماء فرفعه حتى نظر الناس إليه ثم شرب فقيل له بعد ذلك إن بعض الناس قد صام فقال أولئك العصاة أولئك العصاة
   جامع الترمذي710جابر بن عبد اللهبلغه أن ناسا صاموا فقال أولئك العصاة
   سنن النسائى الصغرى2265جابر بن عبد اللهخرج رسول الله إلى مكة عام الفتح في رمضان فصام حتى بلغ كراع الغميم فصام الناس فبلغه أن الناس قد شق عليهم الصيام فدعا بقدح من الماء بعد العصر فشرب والناس ينظرون فأفطر بعض الناس وصام بعض فبلغه أن ناسا صاموا فقال أولئك العصاة
   سنن النسائى الصغرى2313جابر بن عبد اللهسافرنا مع رسول الله فصام بعضنا وأفطر بعضنا
   بلوغ المرام546جابر بن عبد اللهخرج عام الفتح إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ كراع الغميم فصام الناس
   مسندالحميدي1326جابر بن عبد اللهأولئك العصاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 546  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ کی طرف رمضان میں نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کراع الغمیم (ایک جگہ کا نام) پہنچے۔ اس دن لوگوں نے بھی روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اس کو اتنا اونچا کیا کہ لوگوں نے دیکھ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی لوگ نافرمان ہیں، یہی لوگ نافرمان ہیں۔ اور ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں کو روزہ نے مشقت میں ڈال دیا ہے اور اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ وہ آپ کے عمل کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا اور پی لیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 546]
لغوی تشریح 546:
خَرَجَ عَامَ الفَتحِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد آٹھویں سال 10 رمضان المبارک کو مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوے۔
کُرَاعَ الغَمِیمِ کُرَاعَ کے کاف پر ضمہ ہے اور را مخفف ہے اور أَلغَمِیمِ میں غین پر فتحہ اور میم کے نیچے کسرہ ہے۔ عسفان سے آگے ایک وادی کا نام ہے۔
دَعَا بِقَدحٍ پیالہ طلب کیا۔ ٘فَرَفَعَہُ۔۔۔ الخ اسے ہاتھ پر رکھ کر بلند کیا تاکہ لوگ دیکھ لیں اور روزہ افطار کرلینے کا انہیں علم ہو جائے۔
أُولٰئِکَ العُصَاۃُ عُصَاۃ، عَاصٍ کی جمع ہے، یعنی نافرمان۔ انہیں نافرمان اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور روزہ افطار کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کیطرف سے رخصت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ علامہ یمانی نے سبل السلام میں کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں اختیار ہے اور ضرورت لاحق ہونے پر مسافر روزہ افطار بھی کر سکتا ہے، خواہ دن کا اکثر حصہ روزے کی حالت میں گزر چکا ہو۔ مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران میں مشقت کی صورت میں روزہ افطار کرنا افضل ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 546   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 710  
´سفر میں روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے تو آپ نے روزہ رکھا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ۱؎ پر پہنچے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں پر روزہ رکھنا گراں ہو رہا ہے اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ (یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگا کر پیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، تو ان میں سے بعض نے روزہ توڑ دیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ (اب بھی) روزے سے ہیں، آپ نے فرمایا: یہی لوگ نافرمان ہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 710]
اردو حاشہ:
1؎:
مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔

2؎:
کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور روزہ افطار کرنے کے بارے میں انہیں جو رخصت دی گئی ہے اس رخصت کو قبول کرنے سے انہوں نے انکار کیا،
اور یہ اس شخص پر محمول کیا جائے گا جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر ہو رہا ہو،
رہا وہ شخص جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر نہ پہنچے تو وہ صوم رکھنے سے گنہگار نہ ہو گا،
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران مشقت کی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 710   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.