الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
28. بَابُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ:
28. باب: یاجوج و ماجوج کا بیان۔
(28) Chapter. Yajuj and Majuj (Gog and Magog people).
حدیث نمبر: 7136
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"يفتح الردم، ردم ياجوج وماجوج مثل هذه" وعقد وهيب تسعين.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُس، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"يُفْتَحُ الرَّدْمُ، رَدْمُ يَأْجُوج وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ" وَعَقَدَ وُهَيْبٌ تِسْعِينَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «سد» یعنی یاجوج ماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی ہے۔ وہیب نے نوے کا اشارہ کر کے بتلایا۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "A hole has been opened in the dam of Gog and Magog." Wuhaib (the sub-narrator) made the number 90 (with his index finger and thumb).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 250


   صحيح البخاري7136عبد الرحمن بن صخريفتح الردم ردم يأجوج ومأجوج مثل هذه
   صحيح البخاري3347عبد الرحمن بن صخرفتح الله من ردم يأجوج ومأجوج مثل هذا وعقد بيده تسعين
   صحيح مسلم7239عبد الرحمن بن صخرفتح اليوم من ردم يأجوج ومأجوج مثل هذه وعقد وهيب بيده تسعين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7136  
7136. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: سد، یعنی یاجوج ماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی ہے۔(راوی حدیث) سیدنا وہیب نے نوے کا اشارہ کرکے بتایا یعنی گرہ لگائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7136]
حدیث حاشیہ:
ہمارے زمانہ میں بہت سے لوگ اس میں شبہ کرتے ہیں کہ جب یاجوج ماجوج اتنی بڑی قوم ہے کہ اس میں کا کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ہزار آدمی اپنی نسل کے نہیں دیکھ لیتا تو یہ قوم اس وقت دنیا کے کس حصہ میں آباد ہے۔
اہل جغرافیہ نے تو ساری دنیا کو چھانڈالا ہے یہ ممکن ہے کہ کوئی چھوٹا سا جزیدہ ان کی نظر سے رہ گیا ہو مگر اتنا بڑا ملک جس میں ایسی کثیر التعداد قوم بستی ہے نظر نہ آنا قیاس سے دور ہے۔
دوسرے اس زمانہ میں لوگ بڑے بڑے اونچے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں ان میں ایسے ایسے سوراخ کرتے ہیں جس میں سے ریل چلی جاتی ہے تو یہ دیوار ان کو کیوں کہ روک سکتی ہے؟ سخت سے سخت چیز دنیا میں فولاد اس میں بھی بہ آسانی سوراخ ہوسکتا ہے کتنی ہی اونچی دیوار آلات کے ذریعہ سے اس پر چڑھ سکتے ہیں۔
ڈائنامائٹ سے اس کو دم بھر میں گراسکتے ہیں۔
ان شبہوں کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ دیوار اب تک موجود ہے اور یاجوج ماجوج کو روکے ہوئے ہے۔
البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ضرور موجود تھی اور اس وقت تک دنیا میں صنعت اور آلات کا ایسا رواج نہ تھا تو یاجوج ماجوج کی وحشی قومیں اس دیوار کی وجہ سے رکی رہنے میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔
رہا یہ کہ یاجوج ماجوج کے کسی شخص کا نہ مرنا جب تک وہ ہزار آدمی اپنی نسل سے نہ دیکھ لے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اسی وقت تک کا بیان ہو جب تک آدمی کی عمر ہزار دو ہزار سال تک ہوا کرتی تھی نہ کہ ہمارے زمانہ کا جب عمر انسانی کی مقدار سو برس یا ایک سو بیس برس رہ گئی ہے۔
آخر یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں ہماری عمر وں کی طرح ان کی عمر یں بھی گھٹ گئی ہوں گی اب یہ جو آثار صحابہ اور تابعین سے منقول ہیں کہ ان کے قدوقامت اور کان ایسے ہیں، ان کی سندیں صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں اور جغرافیہ والوں نے جن قوموں کو دیکھا ہے انہیں میں سے دو بڑی قومیں یاجوج اور ماجوج ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7136   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7136  
7136. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: سد، یعنی یاجوج ماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی ہے۔(راوی حدیث) سیدنا وہیب نے نوے کا اشارہ کرکے بتایا یعنی گرہ لگائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7136]
حدیث حاشیہ:
یاجوج و ماجوج کے متعلق بہت سی بے سروپا روایات لوگوں میں مشہور ہیں۔
جس قدر صحیح احادیث سے ثابت ہے وہ اتنا ہی ہے کہ یا جوج وماجوج دو قومیں ہیں۔
ذوالقرنین نے ایک مضبوط دیوار بنا کر انھیں بن کردیا تھا قیامت کے قریب وہ تیزی کے ساتھ ہر بستی میں گھس جائیں گی اور ہر چیز کو تہ و بالا کر کے رکھ دیں گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس یوار میں معمولی سوراخ ہو چکا تھا آخر کار وہ دیوار توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتنے کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
" قتل دجال کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں اپنے بندوں کو چھوڑنے والا ہوں۔
ان سے جنگ کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔
آپ میرے بندوں کو کوہ طور پر لے جائیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ یا جوج و ماجوج کو چھوڑدے گا جو ہر گھاٹی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے، ان کے پہلے لوگ دریائے طبرستان کا پانی ختم کردیں گے پچھلے لوگ جب وہاں سے گزریں گے تو کہیں گے کہ یہاں کبھی پانی تھا۔
اس دوران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ کوہ طور پر محصور ہوں گے اشیائے خوردنوش کی قلت اس قدر ہوگی کہ گائے کی سری سودینارسے بڑھ کر ہوگی۔
یہ حضرات دعا کریں گے۔
تو اللہ تعالیٰ یا جوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کردے گا جس کی وجہ سے وہ تمام یکدم مر جائیں گے۔
اس کے بعد جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی واپس زمین پر آئیں گے تو زمین میں ان(یاجوج و ماجوج)
کی وجہ سے بدبو پھیلی ہو گی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی پھر دعا کریں گے۔
تو اللہ تعالیٰ ایسے پرندے بھیجے گا جن کی گردنیں بڑے اونٹوں کے برابرہوں گی وہ انھیں اٹھا کر دور پھینک دیں گے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش اتارے گا۔
جس کی وجہ سے زمین میں شادابی آئے گی اس دن ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہوگا۔
لوگ اس کے چھلکے کا بنگلہ بنا کر اس سے سایہ حاصل کریں گے۔
(صحیح مسلم الفتن حدیث: 7373(2937)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الإجابة بالإشارة باليد والرأس (العلم)
2. خروج يأجوج ومأجوج قبل الساعة (الإيمان)
موضوعات 1. ہاتھ اور سر کے اشارے میں جواب دینا (علم)
2. قیامت سے پہلے یا جوج ماجوج کا خروج (ایمان)
Topics 1. Answering with Sign of Hand or Head (The Knowledge)
2. Exclusion of Gog And Magog before Resurrection (Faith)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7136 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
سد، یعنی یاجوج ماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی ہے۔
(راوی حدیث)
سیدنا وہیب نے نوے کا اشارہ کرکے بتایا یعنی گرہ لگائی۔
حدیث حاشیہ:
یاجوج و ماجوج کے متعلق بہت سی بے سروپا روایات لوگوں میں مشہور ہیں۔
جس قدر صحیح احادیث سے ثابت ہے وہ اتنا ہی ہے کہ یا جوج وماجوج دو قومیں ہیں۔
ذوالقرنین نے ایک مضبوط دیوار بنا کر انھیں بن کردیا تھا قیامت کے قریب وہ تیزی کے ساتھ ہر بستی میں گھس جائیں گی اور ہر چیز کو تہ و بالا کر کے رکھ دیں گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس یوار میں معمولی سوراخ ہو چکا تھا آخر کار وہ دیوار توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتنے کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
" قتل دجال کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں اپنے بندوں کو چھوڑنے والا ہوں۔
ان سے جنگ کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔
آپ میرے بندوں کو کوہ طور پر لے جائیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ یا جوج و ماجوج کو چھوڑدے گا جو ہر گھاٹی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے، ان کے پہلے لوگ دریائے طبرستان کا پانی ختم کردیں گے پچھلے لوگ جب وہاں سے گزریں گے تو کہیں گے کہ یہاں کبھی پانی تھا۔
اس دوران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ کوہ طور پر محصور ہوں گے اشیائے خوردنوش کی قلت اس قدر ہوگی کہ گائے کی سری سودینارسے بڑھ کر ہوگی۔
یہ حضرات دعا کریں گے۔
تو اللہ تعالیٰ یا جوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کردے گا جس کی وجہ سے وہ تمام یکدم مر جائیں گے۔
اس کے بعد جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی واپس زمین پر آئیں گے تو زمین میں ان(یاجوج و ماجوج)
کی وجہ سے بدبو پھیلی ہو گی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی پھر دعا کریں گے۔
تو اللہ تعالیٰ ایسے پرندے بھیجے گا جن کی گردنیں بڑے اونٹوں کے برابرہوں گی وہ انھیں اٹھا کر دور پھینک دیں گے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش اتارے گا۔
جس کی وجہ سے زمین میں شادابی آئے گی اس دن ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہوگا۔
لوگ اس کے چھلکے کا بنگلہ بنا کر اس سے سایہ حاصل کریں گے۔
(صحیح مسلم الفتن حدیث: 7373(2937)
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سدیعنی یاجوج وماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی ہے۔
وہیب نے نوے کا اشارہ کرکے بتلایا۔
حدیث حاشیہ:
ہمارے زمانہ میں بہت سے لوگ اس میں شبہ کرتے ہیں کہ جب یاجوج ماجوج اتنی بڑی قوم ہے کہ اس میں کا کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ہزار آدمی اپنی نسل کے نہیں دیکھ لیتا تو یہ قوم اس وقت دنیا کے کس حصہ میں آباد ہے۔
اہل جغرافیہ نے تو ساری دنیا کو چھانڈالا ہے یہ ممکن ہے کہ کوئی چھوٹا سا جزیدہ ان کی نظر سے رہ گیا ہو مگر اتنا بڑا ملک جس میں ایسی کثیر التعداد قوم بستی ہے نظر نہ آنا قیاس سے دور ہے۔
دوسرے اس زمانہ میں لوگ بڑے بڑے اونچے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں ان میں ایسے ایسے سوراخ کرتے ہیں جس میں سے ریل چلی جاتی ہے تو یہ دیوار ان کو کیوں کہ روک سکتی ہے؟ سخت سے سخت چیز دنیا میں فولاد اس میں بھی بہ آسانی سوراخ ہوسکتا ہے کتنی ہی اونچی دیوار آلات کے ذریعہ سے اس پر چڑھ سکتے ہیں۔
ڈائنامائٹ سے اس کو دم بھر میں گراسکتے ہیں۔
ان شبہوں کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ دیوار اب تک موجود ہے اور یاجوج ماجوج کو روکے ہوئے ہے۔
البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ضرور موجود تھی اور اس وقت تک دنیا میں صنعت اور آلات کا ایسا رواج نہ تھا تو یاجوج ماجوج کی وحشی قومیں اس دیوار کی وجہ سے رکی رہنے میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔
رہا یہ کہ یاجوج ماجوج کے کسی شخص کا نہ مرنا جب تک وہ ہزار آدمی اپنی نسل سے نہ دیکھ لے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اسی وقت تک کا بیان ہو جب تک آدمی کی عمر ہزار دو ہزار سال تک ہوا کرتی تھی نہ کہ ہمارے زمانہ کا جب عمر انسانی کی مقدار سو برس یا ایک سو بیس برس رہ گئی ہے۔
آخر یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں ہماری عمر وں کی طرح ان کی عمر یں بھی گھٹ گئی ہوں گی اب یہ جو آثار صحابہ اور تابعین سے منقول ہیں کہ ان کے قدوقامت اور کان ایسے ہیں، ان کی سندیں صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں اور جغرافیہ والوں نے جن قوموں کو دیکھا ہے انہیں میں سے دو بڑی قومیں یاجوج اور ماجوج ہیں۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA)
:
The Prophet (ﷺ) said, "A hole has been opened in the dam of Gog and Magog." Wuhaib (the sub-
narrator)

made the number 90 (with his index finger and thumb)
. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
ہمارے زمانہ میں بہت سے لوگ اس میں شبہ کرتے ہیں کہ جب یاجوج ماجوج اتنی بڑی قوم ہے کہ اس میں کا کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ہزار آدمی اپنی نسل کے نہیں دیکھ لیتا تو یہ قوم اس وقت دنیا کے کس حصہ میں آباد ہے۔
اہل جغرافیہ نے تو ساری دنیا کو چھانڈالا ہے یہ ممکن ہے کہ کوئی چھوٹا سا جزیدہ ان کی نظر سے رہ گیا ہو مگر اتنا بڑا ملک جس میں ایسی کثیر التعداد قوم بستی ہے نظر نہ آنا قیاس سے دور ہے۔
دوسرے اس زمانہ میں لوگ بڑے بڑے اونچے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں ان میں ایسے ایسے سوراخ کرتے ہیں جس میں سے ریل چلی جاتی ہے تو یہ دیوار ان کو کیوں کہ روک سکتی ہے؟ سخت سے سخت چیز دنیا میں فولاد اس میں بھی بہ آسانی سوراخ ہوسکتا ہے کتنی ہی اونچی دیوار آلات کے ذریعہ سے اس پر چڑھ سکتے ہیں۔
ڈائنامائٹ سے اس کو دم بھر میں گراسکتے ہیں۔
ان شبہوں کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ دیوار اب تک موجود ہے اور یاجوج ماجوج کو روکے ہوئے ہے۔
البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ضرور موجود تھی اور اس وقت تک دنیا میں صنعت اور آلات کا ایسا رواج نہ تھا تو یاجوج ماجوج کی وحشی قومیں اس دیوار کی وجہ سے رکی رہنے میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔
رہا یہ کہ یاجوج ماجوج کے کسی شخص کا نہ مرنا جب تک وہ ہزار آدمی اپنی نسل سے نہ دیکھ لے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اسی وقت تک کا بیان ہو جب تک آدمی کی عمر ہزار دو ہزار سال تک ہوا کرتی تھی نہ کہ ہمارے زمانہ کا جب عمر انسانی کی مقدار سو برس یا ایک سو بیس برس رہ گئی ہے۔
آخر یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں ہماری عمر وں کی طرح ان کی عمر یں بھی گھٹ گئی ہوں گی اب یہ جو آثار صحابہ اور تابعین سے منقول ہیں کہ ان کے قدوقامت اور کان ایسے ہیں، ان کی سندیں صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں اور جغرافیہ والوں نے جن قوموں کو دیکھا ہے انہیں میں سے دو بڑی قومیں یاجوج اور ماجوج ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7202٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7136٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6603٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7136٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6717٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6873٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7136٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7136١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7136 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × فتن،فتنة کی جمع ہے اس کے لغوی معنی سونے کو آگ میں تپانا ہیں تاکہ اس کا کھرا یا کھوٹا پن ظاہر ہوجائے۔
کبھی فتنہ عذاب کے معنی میں آتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ)
"تم اپنے عذاب کامزہ چکھو۔
"(الذاریات: 14/51)
عذاب کے اسباب پر بھی فتنے کا لفظ بولاجاتا ہے۔
قرآن میں ہے:
(أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا)
"خبردار!یہ تو پہلے ہی فتنے میں پڑے ہوئے ہیں۔
"(التوبۃ 9/49)
امتحان اور آزمائش کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتاہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَفَتَنَّـكَ فُتُوناً)
"پھرہم نے تمھیں مختلف آزمائشوں سے گزارا۔
"(طٰہ 20/40)
بدحالی اور خوشحالی میں بطور آزمائش پڑجانا بی فتنہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ)
"ہم تمھیں فتنے کے طور پر اچھے اور بُرے دونوں حالات میں آزماتے ہیں۔
"(الانبیاء 21/35)
دینی یا دنیوی آفت کو بھی فتنہ کہتے ہیں۔
اگر وہ آفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتووہ حکمت سے خالی نہیں ہوتی اور بندوں کی طرف سے ہوتو وہ قابل مذمت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ)
"اور فتنہ،قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔
"(البقرہ 2/191)
نیز فرمایا:
(إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
"جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر ظلم وستم ڈھایا۔
"(البروج 10/85)
بہرحال فتنہ مشقت رسوائی اور عذاب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسے ہرمکروہ اورناپسندیدہ بات پر عمل پربولا جاتاہے۔
ہمارامعاشرہ آج کل مختلف فتنوں کی لپیٹ میں ہے۔
بہت سے ایسے وسائل ہیں جو ہمیں دین وایمان،اخلاق وکردار،امانت ودیانت،عفت وپاکدامنی اور تقویٰ وپرہیز گاری کے راستے سے ہٹا کر کفر والحاد،بے غیرتی وبدچلنی اور بے حیائی وبے رہروی کی طرف لے جانے والے ہیں۔
ان حالات میں ہمیں چاہیے کہ ایسے اسباب کو عمل میں لائیں جو ان فتنوں کو روک سکیں۔
اب ہم چند اسباب اوراصول ذکر کرتے ہیں جن کے اختیار کرنے سے فتنوں سے بچاؤ ممکن ہے۔
تقویٰ:
۔
فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم ہرحالت میں تقویٰ اختیار کریں۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید کرتے ہوئے،اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے،وحی الٰہی کی روشنی میں اس کے احکام پرعمل کرنا اور گناہوں کوچھوڑدینا تقویٰ کہلاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ کسی زبانی دعوے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نفسیاتی تبدیلی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اعمال کے ذریعے سے اس کی اطاعت اور تقرب کے حصول کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
بہرحال فرائض وواجبات کو بجالانے والا اور معاصی ومنکرات سے بچنے والا فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔
۔
قرآن وحدیث کی پابندی:
۔
فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے دوسرا اصول یہ ہے کہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لیا جائے اور بدعات وخرافات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے،ایسے انسان کے لیے دنیا وآخرت کی کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"میرے بعد تم بہت زیادہ اختلافات دیکھو گے،ایسے حالات میں تم پر میری سنت اور میرے بعد راہ ہدایت اختیار کرنے والے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کی سنت کو اختیار کرنالازم ہے۔
اسے مضبوطی سے تھام لینا بلکہ جبڑوں میں دبالینا،خبردارً دین کے معاملات میں نئے کام ایجاد نہ کرنا کیونکہ دین میں ہرنیا کام بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔
(مسند احمد 4/126)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اختلافات اور فتنوں کے دور میں نجات کا صرف یہ راستہ ہے کہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھاما جائے اور بدعات و خرافات سے ہر حال میں بچا جائے۔
۔
جلدبازی سے پرہیز:
۔
فتنوں سے محفوظ رہنے کا تیسرا اصول یہ ہے کہ دینی معاملات میں سمجھ داری اور سوچ بچار کا رویہ اختیار کیا جائے۔
کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت اس کے انجام کو ملحوظ رکھاجائے کیونکہ سنجیدگی اور سمجھ داری خیروبرکت کا سبب ہوتی ہے۔
اس کے برعکس جلد بازی سے احتراز کیا جائے کیونکہ معاملات میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنے والا ہمیشہ ندامت وشرمساری سے دوچار ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"معاملات کی سنجیدگی اللہ کی طرف سے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔
"(جامع الترمذی البر والصلۃ حدیث 2012)
دینی معاملات میں جذباتی انداز اختیارکرنا فتنوں کو دعوت دینا ہے۔
ایک صاحب عقل اور سلیم الفطرت انسان کو چاہیے کہ ہر کام کرنے سے پہلے اس کے انجام اور انتہا پر سنجیدگی سے غور کرے،جلد بازی سے کنارہ کش رہے کیونکہ اس کا انجام ہمیشہ بھیانک اور خطرناک ہی ہوا کرتا ہے۔
۔
اجتماعیت:
۔
فتنوں سے محفوظ رہنے کا چوتھا اصول اجتماعیت کو اختیار کرنا ہے انسان کو چاہیے کہ وہ اختلاف وانتشار سے ہرممکن دور رہے کیونکہ اختلاف فساد اور اجتماعیت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔
جماعت کی برکت سے باہمی رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور فتنہ پھیلانے والے کو فتنہ وشر پھیلانے کاموقع نہیں ملتا بلکہ ایسی اجتماعیت کے نتیجے میں مخالفین پر دھاک اور ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"جماعت پراللہ کا ہاتھ ہے۔
"(جامع الترمذی الفتن حدیث 2167 وصحیح الترغیب والترھیب الطعام حدیث 2131)
بہرحال جماعت سے منسلک رہنا فتنوں سے محفوظ رہنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
۔
اہل علم سے تعلق:
۔
فتنوں سے محفوظ رہنے کا پانچواں اصول پختہ کار اہل علم سے رابطہ رکھناہے کیونکہ اہل علم حکمت ودانائی سے مسائل کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انجام کار پر بھی ان کی گہری نظر ہوتی ہے کیونکہ علماء حضرات نے دینی علوم سیکھنے اور سکھانے میں عمر کا بیشتر حصہ صرف کیا ہوتا ہے۔
خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس امر کا پابند کیاہے:
"جب انھیں امن یا خوف کی کوئی اطلاع ملتی ہے تو وہ اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگروہ ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب امر کے حوالے سے کردیتے تو وہ اس کی حقیقت کو معلوم کرلیتے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتے۔
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند ایک کے سواتم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
"(النساء: 4/83)
بہرحال فتنوں کے دور میں جو لوگ معاملات کو اپنے علماء کے حوالے کردیتے ہیں،وہ فتنوں اوران کے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں۔
۔
دعا کا اہتمام:
۔
فتنوں سے محفوظ رہنے کاچھٹا اور اہم ترین عمل اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عجز وانکسار سے دعا کی جائے کہ وہ ہمیں ظاہری اور باطنی فتنوں سے محفوظ رکھے۔
ہر وقت فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔
جو انسان اللہ تعالیٰ سے فتنوں کی پناہ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ضرور پناہ دیتا ہے۔
ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسوا نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق گہراکرتا ہے اور اس سے دعا کرتا رہتاہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بلاشبہ میں ان کے بالکل قریب ہوں۔
جب بھی کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کاجواب دیتا ہوں۔
انھیں بھی چاہیے کہ وہ صرف مجھ سے فریاد کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
"(البقرہ 186/2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع پر ہمیں ایک دعا پڑھنے کی تلقین کی ہے:
(اللهم إني أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ)
"اے اللہ! میں فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں،خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔
"(مسند احمد 1/305)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی ایسے موقع پر اللہ کی پناہ مانگتے تھے،چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی حدیث میں ہے کہ وہ بھی فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے۔
(صحیح البخاری الصلاۃ حدیث 447)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امت مسلمہ کو فتنوں سے آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں ایک سو ایک (101)
احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں اکاسی(81)
موصول اورچودہ(14)
معلق اور متابع کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان میں اسی(80)
احادیث مکرر اوراکیس(21)
خالص ہیں۔
مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے پندرہ(15)
آثار بھی پیش کیے ہیں۔
آپ نے ان احادیث وآثار پر چھوٹے چھوٹے اٹھائیس(28)
عنوان قائم کیے ہیں جن میں ان فتنوں کے اسباب اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کو بیان کیا ہے۔
ان احادیث سے پتہ چلتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کو بہت سے فتنوں کے متعلق قبل از وقت آگاہ کردیاہے۔
اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو صبر واستقامت کی تلقین کی ہے۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوانات بہت اہم ہیں،ان کا اور ان کے تحت پیش کردہ احادیث کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنا چاہیے ان پر عمل کرنے سے ہم نہ صرف فتنوں سے محفوظ رہیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے عظیم ثواب کے حقدار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دورِحاضر کے تمام فتنوں سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7136   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.