الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
10. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قُلْ هُوَ الْقَادِرُ} :
10. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الانعام میں) فرمانا کہ ”کہہ دیجئیے کہ وہی قدرت والا ہے“۔
(10) Chapter. The Statement of Allah: “Say: He has power to (send torment on you from above)...” (V.6:65)
حدیث نمبر: 7390
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إبراهيم بن المنذر، حدثنا معن بن عيسى، حدثني عبد الرحمن بن ابي الموالي، قال: سمعت محمد بن المنكدر يحدث، عبد الله بن الحسن، يقول: اخبرني جابر بن عبد الله السلمي، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلم اصحابه الاستخارة في الامور كلها كما يعلمهم السورة من القرآن، يقول: إذا هم احدكم بالامر، فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني استخيرك بعلمك، واستقدرك بقدرتك، واسالك من فضلك، فإنك تقدر ولا اقدر، وتعلم ولا اعلم، وانت علام الغيوب، اللهم فإن كنت تعلم هذا الامر، ثم تسميه بعينه خيرا لي في عاجل امري وآجله، قال: او في ديني ومعاشي وعاقبة امري، فاقدره لي ويسره لي، ثم بارك لي فيه، اللهم وإن كنت تعلم انه شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة امري، او قال: في عاجل امري وآجله، فاصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان، ثم رضني به".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدِّثُ، عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السَّلَمِيُّ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُ أَصْحَابَهُ الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُهُمُ السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الْأَمْرَ، ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ، قَالَ: أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ، فَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابی الموالی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن المنکدر سے سنا، وہ عبداللہ بن حسن سے بیان کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ مجھے جابر بن عبداللہ سلمیٰ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ہر مباح کام میں استخارہ کرنا سکھاتے تھے جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کا مقصد کرے تو اسے چاہئے کہ فرض کے سوا دو رکعت نفل نماز پڑھے، پھر سلام کے بعد یہ دعا کرے اے اللہ! میں تیرے علم کے طفیل اس کام میں خیریت طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے طفیل طاقت مانگتا ہوں اور تیرا فضل۔ کیونکہ تجھے قدرت ہے اور مجھے نہیں ‘، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیوب کا بہت جاننے والا ہے۔ اے اللہ! پس اگر تو یہ بات جانتا ہے (اس وقت استخارہ کرنے والے کو اس کام کا نام لینا چاہئیے) کہ اس کام میں میرے لیے دنیا و آخرت میں بھلائی ہے یا اس طرح فرمایا کہ میرے دین میں اور گزران میں اور میرے ہر انجام کے اعتبار سے بھلائی ہے تو اس پر مجھے قادر بنا دے اور میرے لیے اسے آسان کر دے، پھر اس میں میرے لیے برکت عطا فرما۔ اے اللہ! اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے۔ میرے دین اور گزراہ کے اعتبار سے اور میرے انجام کے اعتبار سے، یا فرمایا کہ میری دنیا و دین کے اعتبار سے تو مجھے اس کام سے دور کر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس پر راضی اور خوش رکھ۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: As-Salami: Allah's Apostle used to teach his companions to perform the prayer of Istikhara for each and every matter just as he used to teach them the Suras from the Qur'an He used to say, "If anyone of you intends to do some thing, he should offer a two rak`at prayer other than the compulsory prayers, and after finishing it, he should say: O Allah! I consult You, for You have all knowledge, and appeal to You to support me with Your Power and ask for Your Bounty, for You are able to do things while I am not, and You know while I do not; and You are the Knower of the Unseen. O Allah If You know It this matter (name your matter) is good for me both at present and in the future, (or in my religion), in my this life and in the Hereafter, then fulfill it for me and make it easy for me, and then bestow Your Blessings on me in that matter. O Allah! If You know that this matter is not good for me in my religion, in my this life and in my coming Hereafter (or at present or in the future), then divert me from it and choose for me what is good wherever it may be, and make me be pleased with it." (See Hadith No. 391, Vol. 8)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 487


   صحيح البخاري7390جابر بن عبد اللهيعلم أصحابه الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمهم السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم فإن كنت تعلم هذا
   صحيح البخاري6382جابر بن عبد اللهإذا هم بالأمر فليركع ركعتين ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري وآجله فاقدره لي وإن ك
   صحيح البخاري1162جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآج
   جامع الترمذي480جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن أبي داود1538جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة وليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر يسميه بعينه الذي يريد خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقب
   سنن النسائى الصغرى3255جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن ابن ماجه1383جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر فيسميه ما كان من شيء خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1383  
´نماز استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورۃ سکھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو خيرا لي في عاجل أمري وآجله- فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه وإن كنت تعلم (پھر ویسا ہی کہے جی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  استخارے کا مطلب اللہ سے خیر اور بہتری کی درخواست ہے۔
جب کسی کام کا ارادہ ہوتو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرلینا بہتر ہے۔
کہ اگر اس کا انجام میرے لئے بہتر ہے تو یہ خیریت سے مکمل ہو ورنہ جوکچھ میرے لئے بہتر ہو وہ حاصل ہوجائے۔

(2)
استخارے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی جائے۔
اس کے علاوہ جو مختلف قسم کے استخارے مشہور ہیں۔
وہ سب غیر مسنون ہیں۔

(3)
استخارے کے بعد خواب آنا شرط نہیں بلکہ کام کا انتظام کرنا چاہیے۔
اگر بہتر ہوگا تو خیریت سے مکمل ہوجائےگا۔
ورنہ کوئی رکاوٹ آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اس انداز سے مکمل ہونا میرے حق میں بہتر نہیں۔
اسی طرح اگر استخارے کے بعد اس کام پر دل مطمئن ہوجائے۔
تو وہ کام کرلیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔

(4)
دعا میں ھٰذَ الأَمْر کی جگہ مطلوبہ کام کا نام لیناچاہیے۔
مثلاً ھٰذاَ النِّکَاح (یہ نکاح)
ھذ السفر (یہ سفر)
ھذہ التجارۃ (یہ تجارت وغیرہ یا ھٰذَ الأَمْر امر کہتے وقت دل میں اس کاتصور کرلیا جائے۔

(5)
  مجھے اس سے پھیر دے کامطلب یہ ہے کہ میں وہ کام نہ کروں اور دل میں بھی یہ خیال نہ رہے کہ کاش یوں کرلیتا تو بہتر ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1383   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 480  
´صلاۃ استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 480]
اردو حاشہ:
1؎:
استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں،
چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے دعائے استخارہ کہا جاتا ہے،
اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے،
استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے،
فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہاتِ شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے،
ان میں استخارہ نہیں ہے۔

2؎:
یعنی:
لفظ ((هَذَا الْأَمْرَ)) یہ کام کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔
اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے،
ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اُسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے،
یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے،
استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک،
تین پانچ یا سات بار کیا جائے،
دل کا اطمینان،
مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اُسے آدمی اختیار کر لے،
خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے،
عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں،
کہیں پر ممانعت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 480   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1538  
´استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورۃ سکھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے اور یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولاأقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر ۱؎ خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقبة أمري فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه اللهم وإن كنت تعلمه شرا لي فاصرفني عنه واصرفه عني واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به» اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے وسیلے سے خیر طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیری قدرت کے وسیلے سے قوت طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیرے بڑے فضل میں سے کچھ کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے مجھ کو قدرت نہیں۔ تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ یا یہ کام ۱؎ میرے واسطے دین و دنیا، آخرت اور انجام کار کے لیے بہتر ہے تو اسے میرا مقدر بنا دے اور اسے میرے لیے آسان بنا دے اور میرے لیے اس میں برکت عطا کر، اے اللہ! اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے دین، دنیا، آخرت اور انجام میں برا ہے تو مجھ کو اس سے پھیر دے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور جہاں کہیں بھلائی ہو، اسے میرے لیے مقدر کر دے، پھر مجھے اس پر راضی فرما۔‏‏‏‏ ابن مسلمہ اور ابن عیسیٰ کی روایت میں «عن محمد بن المنكدر عن جابر» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1538]
1538. اردو حاشیہ:
➊ استخارے کے معنی ہیں خیر مانگنا اور اس [خیر]
کےلئے آسانی کی توفیق طلب کرنا۔ اور یہ ایسے امور میں ہوتا ہے۔ جن میں خیر اورشر کے دونوں پہلووں کا احتمال ہو۔ فرائض اور واجبات شرعیہ میں استخارے کے کوئی معنی نہیں۔ ہاں وقت وکیفیت کے متعلق استخارہ ہوسکتا ہے۔ مثلا ً یا اللہ حج کو اس سال جائوں۔ یا آئندہ سال۔ فضائی راستہ اختیار کروں یا بری یا بحری وغیرہ۔
➋ استخارے کا یہی طریقہ مشروع اور سنت ہے۔ یہ نماز اور دُعا اوقات کراہت کے علاوہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ اس سے انسان کا اضطراب ختم ااور کسی ایک جانب پر استقرار حاصل ہو جاتا ہے۔ تب انسان کو وہ کام کرگزرنا چاہیے۔ اللہ اس میں برکت دے گا۔ اور اگر اضطراب قائم رہے تو مسلسل کئی روز تک یہ عمل دہرانا چاہیے۔ ان شاء اللہ کسی ایک پہلو پر دل ٹک جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ خواب ہی میں نظرآئے۔۔۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ کچھ لوگ دوسروں سے استخارہ کراتے ہیں۔ یہ بے معنی سی بات ہے۔ صاحب معاملہ کو خود نماز پڑھ کر دعا کرنی چاہیے۔ شریعت کا اصرار اسی امر پر ہے کہ ہر بندہ اپنے رب سے براہ راست تعلق قائم کرے۔
➌ اس دعا میں ھذا الأمر۔۔۔ کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے۔ مثلا ھذا النکاح یا ھذا البیع وغیرہ یا ھذا الأمر پر پہنچ کر اپنے اس کام کی نیت مستحضر کرلے۔ جس کے لئے وہ استخارہ کررہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1538   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7390  
7390. سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و تمام (جائز) کاموں میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے جس طرح آپ انہیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یوں کہے: اے اللہ! میں تیرے علم کے طفیل اس کام میں طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا طلبگار ہوں کیونکہ تجھے قدرت ہے مجھے نہیں تو جانتا ہے میں نہیں تو غیبوں کواچھی طرح جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام بعینہ نام لے) میرے لیے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا کہ میرے دین میری زندگی اور میرے ہر انجام کے اعتبار سے۔۔۔۔ بہتر ہے تو مجھے اس کی قدرت دے اور میرے لیے اسے آسان کر دے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام کا بعینہ نام لے) میرے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7390]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے یہاں اس کو اس لیے لائے کہ اس میں قدرت الٰہی کا بیان ہے۔
استخارہ کے معنیٰ خیر کا طلب کرنا یہ نماز اور دعا مسنون ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7390   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7390  
7390. سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و تمام (جائز) کاموں میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے جس طرح آپ انہیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یوں کہے: اے اللہ! میں تیرے علم کے طفیل اس کام میں طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا طلبگار ہوں کیونکہ تجھے قدرت ہے مجھے نہیں تو جانتا ہے میں نہیں تو غیبوں کواچھی طرح جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام بعینہ نام لے) میرے لیے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا کہ میرے دین میری زندگی اور میرے ہر انجام کے اعتبار سے۔۔۔۔ بہتر ہے تو مجھے اس کی قدرت دے اور میرے لیے اسے آسان کر دے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام کا بعینہ نام لے) میرے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7390]
حدیث حاشیہ:

اسلام سے پہلے مستقبل میں قسمت آزمائی کے متعلق مختلف طریقے رائج تھے۔
مثلاً:
تیروں اور پانسوں سے قسمت آزمائی اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
قیافہ شناسی کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔
اسےبطور پیشہ اختیار کیا جاتا تھا۔
پرندوں کو اڑا کر پیش آنے والے امور کے متعلق فیصلہ کیا جاتا کہ وہ کس طرف جاتا ہے۔
اس سلسلے میں کاہنوں اور نجومیوں کا کام بھی عروج پر تھا۔
اسلام نے ان طریقوں کو غلط ٹھہرا کر امت مسلمہ کے لیے صرف استخارے کو جائز ٹھہرایا۔
اس میں انسان اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور علم و قوت کے ذریعے سے پیش آنے والے مسائل کے متعلق رہنمائی کا سوال کرتا ہے۔
اس کے آداب و شرائط اور فوائد بھی احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن بعض اوقات انسان اس مسنون عمل کے بجائے خود ساختہ طریقے اختیار کر لیتا ہے۔
جن کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔
اس مسنون عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے عقیدے کی اصلاح ہوتی ہے کیونکہ اس میں توحید الوہیت کا اظہار اور صرف اپنے اللہ پر توکل کرنا ہوتا ہے نیز استخارہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

استخارہ کن کاموں میں جائز اور کن میں ناجائز ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
وہ معاملات جن پر عمل کرنا واجب اور ضروری ہے ایسے امور میں استخارہ کرنا جائز نہیں۔
جن امور سے بچنا ضروری ہے ان میں بھی استخارہ کرنا صحیح نہیں۔
جو کام شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہیں ان میں استخارہ کرنا درست نہیں۔
جن امور کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو اختیار دیا گیا ہےیعنی جو کام مباح اور جائز و حلال کےدائرے میں ایسے کاموں میں استخارہ درست اور فائدہ مند ہے۔

شادی جیسے اہم معاملے میں بھی استخارہ کرنا چاہیے۔
اس کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب انصار ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو استخارے کا حکم دیا تھا۔
(المستدرك للحاکم: 314/1)

واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب آنا ضروری نہیں کہ اس میں انسان کو وہ کام کرنے یا نہ کرنے کا اشارہ ملے بلکہ قلبی رجحان اور طبعی میلان جس طرح ہو جائے اس پر عمل کیا جائے استخارے میں انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے اپنی بے بسی اور عاجزی کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے۔
اے اللہ! تو ہی قدرت کاملہ کا سزا وار ہے میں تو بے بس اور لاچار ہوں تو اپنی قدرت کاملہ سے مجھے وہ چیز مہیا کر جسے میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
اس کے تمام اسباب ووسائل پیدا کر دے۔
تو ہی معاملات کے نتائج و انجام کو پوری طرح جاننے والا ہے۔
اے اللہ! تجھ پر ماضی حال اور مستقبل کا کوئی واقعہ مخفی نہیں ہے۔
تیرا علم ہر چیز پر حادی ہے جبکہ میں اس سلسلے میں بالکل تہی دست ہوں میں تو وہی کچھ جانتا ہوں جس سے تونے مجھے آگاہ کیا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت کو ثابت کیا ہے اور اس کی قدرت ہر مقدور کو شامل ہے۔
اس سے معتزلہ قدریہ کی تردید مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں مانتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو اپنے خود ساختہ اصولوں میں مقید کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت کریمہ میں اتنا حصہ ہی ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے۔
جو چیز بھی ذاتی طور پر ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں۔
اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے جس چیز کا ارادہ کر لیتا ہے اس کے متعلق ہونے کا فیصلہ کر دیتا ہے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ کسی کو اس کے فیصلے میں رخنہ اندازی کی ہمت ہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7390   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.