الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
532. مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ غَاشًّا لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ
532. جس بندے کو اللہ تعالیٰ ٰ عوام کا حاکم بنائے (اور) وہ اپنی موت کے دن اس حال میں مرے کہ اپنی عوام کو دھوکا دینے والا ہوتو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔
حدیث نمبر: 806
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
806 - وانا محمد بن الحسين النيسابوري، انا ابو الحسن محمد بن عبد الله بن زكريا النيسابوري، انا إسحاق بن إبراهيم، نا محمد بن بكار بن الريان، نا ابو معشر، نا محمد بن عبد الله بن مالك الدار، قال: دخل زياد على عبد الله بن المغفل يعوده، فقال له عبد الله بن المغفل: «يا زياد، اتق الله فإن شر الائمة الحطمة» فقال له زياد:" إنما انت من حثالة اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، فقال: «ما كان في اصحاب رسول الله حثالة، افلا اخبرك يا زياد بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟» فقال: بلى، ولا تكذب عليه، فقال: «لو كنت كاذبا على احد ما كذبت على رسول الله صلى الله عليه وسلم» سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من إمام يبيت ليلة غاشا لرعيته إلا حرم الله عليه عرف الجنة وريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة سبعين خريفا» قال: فقال له زياد: «سلني ما شئت» ، قال: «اسالك ان لا تنفعني ولا تضرني، وإن مرضت فلا تعدني، وإن مت فلا تشهدني» قال: فلم يمكث إلا ليالي قليلة حتى مات، فراى زياد الناس يزحمون على جنازته، قال: من هذا؟ قالوا: عبد الله بن المغفل، قال: «اما والله لولا انه سالني الا اشهد جنازته لشهدته» 806 - وأنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ النَّيْسَابُورِيُّ، أنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَكَرِيَّا النَّيْسَابُورِيُّ، أنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، نا أَبُو مَعْشَرٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: دَخَلَ زِيَادٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ يَعُودُهُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغَفَّلِ: «يَا زِيَادُ، اتَّقِ اللَّهَ فَإِنَّ شَرَّ الْأَئِمَّةِ الْحُطَمَةُ» فَقَالَ لَهُ زِيَادٌ:" إِنَّمَا أَنْتَ مِنْ حُثَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا كَانَ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ حُثَالَةٌ، أَفَلَا أُخْبِرُكَ يَا زِيَادُ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟» فَقَالَ: بَلَى، وَلَا تَكْذِبْ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «لَوْ كُنْتُ كَاذِبًا عَلَى أَحَدٍ مَا كَذَبْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ إِمَامٍ يَبِيتُ لَيْلَةً غَاشًّا لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرْفَ الْجَنَّةِ وَرِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا» قَالَ: فَقَالَ لَهُ زِيَادٌ: «سَلْنِي مَا شِئْتَ» ، قَالَ: «أَسْأَلُكَ أَنْ لَا تَنْفَعَنِي وَلَا تَضُرَّنِي، وَإِنْ مَرِضْتُ فَلَا تَعُدْنِي، وَإِنْ مُتُّ فَلَا تَشْهَدْنِي» قَالَ: فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا لَيَالِيَ قَلِيلَةً حَتَّى مَاتَ، فَرَأَى زِيَادٌ النَّاسَ يَزْحُمُونَ عَلَى جِنَازَتِهِ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغَفَّلِ، قَالَ: «أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّهُ سَأَلَنِي أَلَّا أَشْهَدَ جِنَازَتَهُ لَشَهِدْتُهُ»
محمد بن عبدالله بن مالک الدار کہتے ہیں کہ زیاد سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے ان کے پاس آیا تو سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اے زیاد! اللہ سے ڈر کیونکہ حاکموں کا شر توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی چیز ہے۔ زیاد نے ان سے کہا: تم تو اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں سے گھٹیا درجے کے آدمی ہو۔ انہوں نے کہا: اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں گھٹیا درجے کا آدمی کوئی نہ تھا، اے زیاد! کیا میں تجھے ایک ایسی بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں (بتاؤ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہ باندھنا۔ انہوں نے کہا: اگر (بالفرض) میں کسی عام آدمی پر جھوٹ باندھنے والا ہوتا تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہ باندھتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: جو حاکم اس حال میں رات بسر کرے کہ اپنی عوام کو دھوکا دینے والا ہو تو اس پر جنت کی خوشبو اور اس کی ہوا حرام کر دی جائے گی حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے آرہی ہوگی۔
راوی کہتا ہے کہ زیاد نے ان سے کہا: مجھ سے جو چاہتے ہو مانگ لو۔ انہوں نے کہا: میں تجھ سے یہی مانگتا ہوں کہ نہ مجھے نفع دے اور نہ نقصان، اگر میں بیمار ہو جاؤں تو میری عیادت کے لیے نہ آنا اور اگر میں مر جاؤں تو میرے جنازے میں بھی شرکت نہ کرنا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر چند راتیں ہی گزری تھیں کہ ان (عبداللہ) کا انتقال ہو گیا۔ زیاد نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان کے جنازے پر ہجوم لگا رہے ہیں۔ کہنے لگا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: عبداللہ بن مغفل۔ کہنے لگا: اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھے سے یہ چیز نہ مانگی ہوتی کہ میں ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں تو ضرور ان کے جنازے میں شریک ہوتا۔

تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابومعشر ضعیف و مختلط ہے۔

وضاحت:
تشریح: -
ان احادیث میں رعایا اور عوام کے ساتھ خیانت کرنے اور انہیں دھوکا دینے والے حکمرانوں کے متعلق شدید وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ عوام کے ساتھ خیانت اور انہیں دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ ان پر ظلم ڈھانا، ان سے جھوٹ بولنا، ان کے حقوق پامال کرنا، ان پر احکام شریعت کو نافذ نہ کرنا، ان کے دشمنوں سے جنگ نہ کرنا وغیرہ، ایسے ظالم حکمرانوں پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکیں گے۔


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.