الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
32. مسنَد اَبِی هرَیرَةَ رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 8096
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عمرو بن ابي سفيان الثقفي ، عن ابي هريرة ، قال: " بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية عينا، وامر عليهم عاصم بن ثابت، وهو جد عاصم بن عمر، فانطلقوا، حتى إذا كانوا ببعض الطريق بين عسفان ومكة نزولا، ذكروا لحي من هذيل، يقال لهم: بنو لحيان، فتبعوهم بقريب من مائة رجل رام، فاقتصوا آثارهم، حتى نزلوا منزلا نزلوه، فوجدوا فيه نوى تمر تزودوه من تمر المدينة، فقالوا: هذا من تمر يثرب، فاتبعوا آثارهم حتى لحقوهم، فلما احسهم عاصم بن ثابت واصحابه لجئوا إلى فدفد، وقد جاء القوم فاحاطوا بهم، وقالوا: لكم العهد والميثاق إن نزلتم إلينا ان لا نقتل منكم رجلا، فقال عاصم بن ثابت: اما انا فلا انزل في ذمة كافر، اللهم اخبر عنا رسولك. قال: فقاتلوهم، فرموهم، فقتلوا عاصما في سبعة نفر، وبقي خبيب بن عدي وزيد بن الدثنة ورجل آخر، فاعطوهم العهد والميثاق إن نزلوا إليهم، فلما استمكنوا منهم حلوا اوتار قسيهم فربطوهم بها، فقال الرجل الثالث الذي معهما: هذا اول الغدر، فابى ان يصحبهم، فجروه، فابى ان يتبعهم، فضربوا عنقه، فانطلقوا بخبيب بن عدي وزيد بن الدثنة، حتى باعوهما بمكة، فاشترى خبيبا بنو الحارث بن عامر بن نوفل، وكان قد قتل الحارث يوم بدر، فمكث عندهم اسيرا، حتى إذا اجمعوا قتله استعار موسى من إحدى بنات الحارث ليستحد بها، فاعارته، قالت: فغفلت عن صبي لي، فدرج إليه حتى اتاه، قالت: فاخذه فوضعه على فخذه، فلما رايته فزعت فزعا عرفه، والموسى في يده، فقال: اتخشين ان اقتله؟! ما كنت لافعل إن شاء الله. قال: وكانت تقول: ما رايت اسيرا خيرا من خبيب، قد رايته ياكل من قطف عنب، وما بمكة يومئذ ثمرة، وإنه لموثق في الحديد، وما كان إلا رزقا رزقه الله إياه. قال: ثم خرجوا به من الحرم ليقتلوه، فقال: دعوني اصلي ركعتين، فصلى ركعتين، ثم قال: لولا ان تروا ما بي جزعا من الموت لزدت. قال: وكان اول من سن الركعتين عند القتل هو، ثم قال: اللهم احصهم عددا: ولست ابالي حين اقتل مسلما على اي شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشا يبارك على اوصال شلو ممزع ثم قام إليه عقبة بن الحارث فقتله، وبعثت قريش إلى عاصم ليؤتوا بشيء من جسده يعرفونه، وكان قتل عظيما من عظمائهم يوم بدر، فبعث الله عليه مثل الظلة من الدبر، فحمته من رسلهم، فلم يقدروا على شيء منه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الثَّقَفِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً عَيْنًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ، وَهُوَ جَدُّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، فَانْطَلَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ بَيْنَ عُسْفَانَ وَمَكَّةَ نُزُولًا، ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو لِحْيَانَ، فَتَبِعُوهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ، حَتَّى نَزَلُوا مَنْزِلًا نَزَلُوهُ، فَوَجَدُوا فِيهِ نَوَى تَمْرٍ تَزَوَّدُوهُ مِنْ تَمْرِ الْمَدِينَةِ، فَقَالُوا: هَذَا مِنْ تَمْرِ يَثْرِبَ، فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ حَتَّى لَحِقُوهُمْ، فَلَمَّا أَحَسَّهُمْ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ، وَقَدْ جَاءَ الْقَوْمُ فَأَحَاطُوا بِهِمْ، وَقَالُوا: لَكُمْ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ إِنْ نَزَلْتُمْ إِلَيْنَا أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ رجلاً، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا رَسُولَكَ. قَالَ: فَقَاتَلُوهُمْ، فَرَمَوْهُمْ، فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةِ نَفَرٍ، وَبَقِيَ خُبَيْبُ بْنُ عَدِيٍّ وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَأَعْطَوْهُمْ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ إِنْ نَزَلُوا إِلَيْهِمْ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ حَلُّوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا، فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ الَّذِي مَعَهُمَا: هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ، فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ، فَجَرُّوهُ، فَأَبَى أَنْ يَتْبَعَهُمْ، فَضَرَبُوا عُنُقَهُ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبِ بْنِ عَدِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ، حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ، فَاشْتَرَى خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ، وَكَانَ قَدْ قَتَلَ الْحَارِثَ يَوْمُ بَدْرٍ، فَمَكَثَ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا، حَتَّى إِذَا أَجْمَعُوا قَتْلَهُ اسْتَعَارَ مُوسَى مِنْ إِحْدَى بَنَاتِ الْحَارِثِ لِيَسْتَحِدَّ بِهَا، فَأَعَارَتْهُ، قَالَتْ: فَغَفَلْتُ عَنْ صَبِيٍّ لِي، فَدَرَجَ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَاهُ، قَالَتْ: فَأَخَذَهُ فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ فَزِعْتُ فَزَعًا عَرَفَهُ، وَالْمُوسَى فِي يَدِهِ، فَقَالَ: أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ؟! مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ. قَالَ: وَكَانَتْ تَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ، قَدْ رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ، وَمَا بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ ثَمَرَةٌ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ، وَمَا كَانَ إِلَّا رِزْقًا رَزَقَهُ اللَّهُ إِيَّاهُ. قَالَ: ثُمَّ خَرَجُوا بِهِ مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ، فَقَالَ: دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثم قَالَ: لَوْلَا أَنْ تَرَوْا مَا بِي جَزَعًا مِنَ الْمَوْتِ لَزِدْتُ. قَالَ: وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ هُوَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا: ولستُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ، وَبَعَثَتْ قُرَيْشٌ إِلَى عَاصِمٍ لِيُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْ جَسَدِهِ يَعْرِفُونَهُ، وَكَانَ قَتَلَ عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَبَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ، فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى شَيْءٍ مِنْهُ" .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی فوج کی طرف سے جاسوسی کرنے کے لئے بھیجے اور عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار مقرر کیا چنانچہ وہ جاجوس چلے گئے جب مقام ہدہ میں جو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے پہنچے تو قبیلہ ہذیل یعنی بنو لحیان کو ان کا علم ہوگیا اور ایک سو تیر انداز ان کے واسطے چلے اور جس جگہ جاسوسوں نے کھجوریں بیٹھ کر کھائی تھیں جو بطور زاد راہ کے مدینہ سے لائے تھے وہاں پہنچ کر کہنے لگے یہ مدینہ کی کھجوریں ہیں پھر وہ کھجوروں کے نشان کی وجہ سے ان کے پیچھے پیچھے ہو لئے حضرت عاصم اور ان کے ساتھیوں نے جو کافروں کو دیکھا تو ایک اونچی جگہ پر پناہ لے لی کافروں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور کہنے لگے تم اترآؤ اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو ہم اقرار کرتے ہیں کہ کسی کو قتل نہیں کریں گے سردار جماعت یعنی حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آج میں تو کافر کی پناہ میں نہ اتروں گا الٰہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حال کی اطلاع دے دے کفار نے یہ سن کر ان کے تیر مارے اور عاصم سمیت سات آدمیوں کو شہید کردیا با قی تین آدمی یعنی خبیب انصاری زید بن دثنہ اور ایک اور شخص قول وقرار لے کر کفار کی پناہ میں گئے کافروں کا جب ان پر قابو چل گیا تو کمانوں کی تانت اتار کر ان کو مضبوط جکڑ لیا ان میں تیسرا آدمی بولا یہ پہلی عہد شکنی ہے اللہ کی قسم میں تمہارے ساتھ نہ جاؤں گا مجھ کو ان شہیدوں کی راہ پر چلنا ہے کافروں نے اس کو پکڑ کر کھینچا اور ہرچند ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ گیا آخر کار اس کو قتل کردیا اور خبیب و ابن دثنہ کو لے چلے اور واقعہ بدر کے بعد دونوں کو فروخت کردیا خبیب کو حارث بن عامر کی اولاد نے خریدا جنگ بدر کے دن خبیب نے ہی حارث بن عامر کو قتل کیا تھا بہر حال خبیب ان کے پاس قید رہے حارث کی بیٹی کا بیان ہے کہ جب سب کافر خبیب کو شہید کرنے کے لئے جمع ہوئے تو خبیب نے اصلاح کرنے کے لئے مجھ سے استرا مانگا میں نے دے دیا خبیب نے میرے ایک لڑکے کو ران پر بٹھا لیا مجھے اس وقت خبر نہ ہوئی جب میں اس کے پاس پہنچی اور میں نے دیکھا کہ میرا لڑکا اس کی ران پر بیٹھا ہے اور استرا اس کے ہاتھ میں ہے تو میں گھبرا گئی خبیب نے بھی خوف کے آثار میرے چہرہ پر دیکھ کر پہچان لیا اور کہنے لگے کہ کیا تم کو اس بات کا خوف ہے کہ میں اس کو قتل کردوں گا اللہ کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا بنت حارث کہتی ہے واللہ میں نے خبیب سے بہتر کبھی کوئی قیدی نہیں دیکھا اللہ کی قسم میں نے ایک روز دیکھا کہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا انگور کا ایک خوشہ ہاتھ میں لئے کھا رہا ہے حالانکہ ان دنوں مکہ میں میوہ نہ تھا درحقیقت وہ اللہ داد حصہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے خبیب کو مرحمت فرمایا تھا جب کفار خبیب کو قتل کرنے کے لئے حرم سے باہر حل میں لے چلے تو قتل ہونے سے قبل خبیب بولے مجھے ذرا چھوڑ دو میں دو رکعت نماز پڑھ لوں کافروں نے چھوڑ دیا خبیب نے دو رکعتیں پڑھ کر کہا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ یہ لوگ گمان کریں گے کہ موت سے ڈر گیا تو نماز طویل پڑھتا پھر کہنے لگے الہٰی ان سب کو ہلاک کردے ایک کو باقی نہ چھوڑ اس کے بعدیہ شعر پڑھے۔ اگرحالت اسلام میں میرا قتل ہو تو پھر مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں کہ اللہ کے راستہ میں کس پہلو پر میری موت ہوگی۔ میرا یہ مارا جانا اللہ کے راستہ میں ہے اور اگر اللہ چاہے گا تو کٹے ہوئے عضو کے جوڑوں پر برکت نازل فرمائے گا اس کے بعدحارث کے بیٹے نے خبیب کو قتل کردیا۔ حضرت خبیب سب سے پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے ہر اس مسلمان کے لئے جو اللہ کے راستہ میں گرفتار ہو کر مارا جائے قتل ہوتے وقت دو رکعتیں پڑھنے کا طریقہ نکالا ہے۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے شہید ہوتے وقت جو دعا کی تھی خدا تعالیٰ نے وہ قبول کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شہادت کی خبردے دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے عاصم رضی اللہ عنہ وغیرہ کے مصائب کی کیفیت بیان فرما دی۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے چونکہ بدر کے دن کفار قریش کے ایک بڑے سردار کو مارا تھا اس لئے کافروں نے کچھ لوگوں کو بھیجا کہ جا کر عاصم کی کوئی نشانی لے آؤ تاکہ نشانی کے ذریعہ سے عاصم کی شناخت ہوجائے لیکن کچھ بھڑوں (زنبور) نے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کی نعش کو محفوظ رکھا اور کفار حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کے بدن کا گوشت نہ کاٹ سکے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4086


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.