الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
دعاؤں کے فضائل و مسائل
5. اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزہ چیزیں ہی قبول کرتا ہے
حدیث نمبر: 823
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن آدم، نا فضيل بن مرزوق، عن عدي بن ثابت، عن ابي حازم، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله طيب، ولا يقبل إلا الطيب، وإن الله امر المؤمنين فيما امر به المرسلين قال: ﴿يا ايها الرسل كلوا من الطيبات﴾ [المؤمنون: 51] إلى آخر الآية، وقال: ﴿يا ايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم﴾ [البقرة: 172]، ثم ذكر الرجل يطيل السفر اشعث اغبر يمد يديه إلى السماء ومطعمه ومشربه حرام وملبسه حرام، وقد غذي في الحرام فانى يستجاب له.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ، وَلَا يَقْبَلُ إِلَّا الطَّيِّبَ، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ فِيمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ قَالَ: ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ﴾ [المؤمنون: 51] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَقَالَ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ [البقرة: 172]، ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ وَمَطْعَمُهُ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَقَدْ غُذِّيَ فِي الْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ذات ہے اور وہ پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے، اللہ نے جس چیز کا رسولوں کو حکم فرمایا، اس کا مومنوں کو حکم فرمایا، رسولوں کی جماعت! پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ اور فرمایا: ایمان دارو! ہم نے جو تمہیں رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ پھر آپ نے اس آدمی کا ذکر کیا جو دور دراز کا سفر کرتا ہے،بال بکھرے ہوئے ہیں اور پاؤں غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا (دعا کرتا) ہے، جبکہ اس کا کھانا، پینا اور لباس حرام (کی کمائی سے) ہے، اور اس کی نشونما بھی حرام سے ہوئی ہے، تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہو گی۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الخ، رقم: 1015. سن ترمذي، ابواب تفسير القرآن، باب سورة البقرة، رقم: 2989. مسند احمد: 328/2.»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 823  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ذات ہے اور وہ پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے، اللہ نے جس چیز کا رسولوں کو حکم فرمایا، اس کا مومنوں کو حکم فرمایا، فرمایا: رسولوں کی جماعت! پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ اور فرمایا: ایمان دارو! ہم نے جو تمہیں رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ پھر آپ نے اس آدمی کا ذکر کیا جو دور دراز کا سفر کرتا ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں اور پاؤں غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا (دعا کرتا) ہے، جبکہ اس کا کھانا، پینا اور لباس حرام (کی کمائی سے) ہے، اور اس کی نشوونما بھی حرام سے ہوئی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:823]
فوائد:
تفسیر احسن البیان میں ہے کہ طیبات سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں، کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال قرار دی ہے، اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔
خبائث کو اللہ نے اسی لیے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات ونتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں گو خبائث خور قوموں کو اپنے ماحول اور عادت کی وجہ سے ان میں ایک گو نہ لذت محسوس ہوتی ہو۔ عمل صالح وہ ہے جو شریعت یعنی قرآن وحدیث کے موافق ہو نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا سمجھیں، کیونکہ لوگوں کو تو بدعات بھی بہت اچھی لگتی ہیں، بلکہ اہل بدعت کے ہاں جتنا اہتمام بدعات کا ہے اتنا فرائض اسلام اور سنن ومستحبات کا نہیں ہے۔ اکل حلال کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں، حلال کھانے سے عمل صالح آسان اور عمل صالح انسان کو حلال کھانے پر آمادہ اور اسی پر قناعت کرنے کا سبق دیتا ہے۔
اس لیے تو حدیث میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے سلام پھیرتے تو فرماتے تھے: ((اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَیِّبًا وَعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا))(صحیح ابن ماجة، رقم: 753۔ مسند احمد: 6؍305)
اے اللہ! میں تجھ سے نفع دینے والے علم، حلال رزق اور قبول ہونے والے عمل کا سوال کرتا ہوں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکیزہ چیز ہی اللہ ذوالجلال قبول کرتے ہیں۔ صدقہ اللہ ذوالجلال کے راستے میں کیا جائے لیکن وہ حرام مال کا ہو تو وہ اللہ ذوالجلال کی عدالت میں قبول نہیں ہوتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حرام روزی کی وجہ سے نیک عمل بھی برباد ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتی۔ مستجاب الدعوات ہونے کے لیے لقمۂ حلال ناگزیر ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 823   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.