حدثنا يحيى ، عن محمد , حدثنا ابو سلمة ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " في الجنين غرة: عبد، او امة". فقال الذي قضي عليه: ايعقل من لا اكل ولا شرب، ولا صاح، ولا استهل؟، فمثل ذلك يطل. فقال:" إن هذا ليقول، بقول شاعر , فيه غرة: عبد، او امة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عن مُحَمَّدُ , حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ: " فِي الْجَنِينِ غُرَّةٌ: عَبْدٌ، أَوْ أَمَةٌ". فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ: أَيَعْقِلُ مَنْ لَا أَكَلَ وَلَا شَرِبَ، وَلَا صَاحَ، وَلَا اسْتَهَلَّ؟، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ. فَقَالَ:" إِنَّ هَذَا ليقَوْلَ، بقَوْلُ شَاعِرٍ , فِيهِ غُرَّةٌ: عَبْدٌ، أَوْ أَمَةٌ" .
گزشتہ سند ہی سے مروی ہے کہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنین کی دیت ایک غرہ یعنی غلام یا باندی ہے جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا اس نے کہا کہ کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جس بچے نے کھایا پیا اور نہ ہی چیخاچلایا (اس کی دیت دی جائے) ایسی چیزوں میں تو نرمی کی جاتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مقفی عبارتیں شاعروں کی طرح بنا کر کہہ رہا ہے، لیکن مسئلہ پھر بھی وہی ہے کہ اس میں ایک غرہ یعنی غلام یا باندی واجب ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، خ: 5758، م: 1681