الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
The Book About The Virtues Or Al-Madina.
8. بَابُ آطَامِ الْمَدِينَةِ:
8. باب: مدینہ کے محلوں کا بیان۔
(8) Chapter. The high building of Al-Madina.
حدیث نمبر: 1878
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا ابن شهاب، قال: اخبرني عروة، سمعت اسامة رضي الله عنه، قال:" اشرف النبي صلى الله عليه وسلم على اطم من آطام المدينة، فقال: هل ترون ما ارى؟ إني لارى مواقع الفتن خلال بيوتكم كمواقع القطر"، تابعه معمر، وسليمان بن كثير، عن الزهري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، سَمِعْتُ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟ إِنِّي لَأَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ"، تَابَعَهُ مَعْمَرٌ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے، کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے محلات میں سے ایک محل یعنی اونچے مکان پر چڑھے پھر فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں کیا تمہیں نظر آ رہا ہے؟ میں بوندوں کے گرنے کی جگہ کی طرح تمہارے گھروں پر فتنوں کے نازل ہونے کی جگہوں کو دیکھ رہا ہوں۔ اس روایت کی متابعت معمر اور سلیمان بن کثیر نے زہری کے واسطہ سے کی ہے۔

Narrated Usama: Once the Prophet stood at the top of a (looked out from upon one) castle amongst the castles (or the high buildings) of Medina and said, "Do you see what I see? (No doubt) I see the spots where afflictions will take place among your houses (and these afflictions will be) as numerous as the spots where raindrops fall."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 30, Number 102


   صحيح البخاري7060أسامة بن زيدأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر
   صحيح البخاري2467أسامة بن زيدأرى مواقع الفتن خلال بيوتكم كمواقع القطر
   صحيح البخاري3597أسامة بن زيدأرى الفتن تقع خلال بيوتكم مواقع القطر
   صحيح البخاري1878أسامة بن زيدأرى مواقع الفتن خلال بيوتكم كمواقع القطر
   صحيح مسلم7245أسامة بن زيدأرى مواقع الفتن خلال بيوتكم كمواقع القطر
   مسندالحميدي552أسامة بن زيدهل ترون ما أرى؟ إني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كمواقع القطر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7060  
´فتنے بارش کے قطروں کی طرح`
«. . . أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي لَأَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقْعِ الْقَطْرِ . . .»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ: 7060]

فوائد و مسائل
اس حدیث نبوی اور مشرق کی طرف سے اٹھنے والے فتنہ کی احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں:
«وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.»
اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ [فتح الباري: 13/13]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث\صفحہ نمبر: 18   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1878  
1878. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ کے قلعوں میں سے کسی قلعے پر چڑھے تو فرمایا: کیا تم وہ دیکھتے ہوجو میں دیکھ رہا ہوں؟بے شک میں تمھارے گھروں میں فتنوں کے مقامات اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کا قطرہ گرنے کی جگہ نظر آتی ہے۔ معمر اور سلیمان بن کثیر نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1878]
حدیث حاشیہ:
یہ دیکھنا بطریق کشف تھا اس میں تاویل کی ضرورت نہیں اورآپ ﷺ کا یہ فرمانا پورا ہوا کہ مدینہ ہی میں حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے پھر یزید کی طرف سے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ پر کیا کیا آفتیں آئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1878   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1878  
1878. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ کے قلعوں میں سے کسی قلعے پر چڑھے تو فرمایا: کیا تم وہ دیکھتے ہوجو میں دیکھ رہا ہوں؟بے شک میں تمھارے گھروں میں فتنوں کے مقامات اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کا قطرہ گرنے کی جگہ نظر آتی ہے۔ معمر اور سلیمان بن کثیر نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1878]
حدیث حاشیہ:
(1)
وہ فتنے کثرت میں بارش کے قطروں کی طرح ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان حرف بہ حرف پورا ہوا جب فتنوں کی آڑ میں سیدنا عمر ؓ شہید کیے گئے۔
اس وقت سے گھمبیر فتنوں کا آغاز ہوا، چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت بھی انہی فتنوں کا نتیجہ ثابت ہوئی۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے بھی حفاظتی اقدامات کے طور پر قلعے تعمیر کیے ہوئے تھے۔
مشہور مؤرخ زبیر بن بکار نے اپنی تالیف اخبار مدینہ میں ان قلعوں کی تفصیل بیان کی ہے جو اوس اور خزرج کی مدینہ آمد سے پہلے اور بعد میں تعمیر ہوئے۔
ان سے مراد وہ قلعے ہیں جو پتھروں سے عام عمارتوں سے اونچے بنائے گئے ہوں تاکہ ان پر چڑھ کر دشمن کی نقل و حرکت کو دیکھا جا سکے۔
(فتح الباري: 122/4) (3)
امام معمر کی متابعت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7060)
نیز سلیمان بن کثیر کی متابعت بھی انہوں نے اپنی تالیف بر الوالدين میں بیان کی ہے۔
(فتح الباري: 123/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1878   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.