الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
The Book of Cultivation and Agriculture
18. بَابُ مَا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوَاسِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِي الزِّرَاعَةِ وَالثَّمَرَةِ:
18. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔
(18) Chapter. The companions of the Prophet ﷺ used to share the yields and fruits of their farms with each other gratis.
حدیث نمبر: 2345
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، اخبرني سالم، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال:"كنت اعلم في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الارض تكرى، ثم خشي عبد الله ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم قد احدث في ذلك شيئا لم يكن يعلمه، فترك كراء الارض".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:"كُنْتُ أَعْلَمُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَرْضَ تُكْرَى، ثُمَّ خَشِيَ عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ يَعْلَمُهُ، فَتَرَكَ كِرَاءَ الْأَرْضِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مجھے معلوم تھا کہ زمین کو بٹائی پر دیا جاتا تھا۔ پھر انہیں ڈر ہوا کہ ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کوئی نئی ہدایت فرمائی ہو جس کا علم انہیں نہ ہوا ہو۔ چنانچہ انہوں نے (احتیاطاً) زمین کو بٹائی پر دینا چھوڑ دیا۔

Narrated Salim: `Abdullah bin `Umar said, "I knew that the land was rented for cultivation in the lifetime of Allah's Apostle ." Later on Ibn `Umar was afraid that the Prophet had forbidden it, and he had no knowledge of it, so he gave up renting his land.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 536


   صحيح البخاري2345عبد الله بن عمرالأرض تكرى
   صحيح البخاري2205عبد الله بن عمرالمزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام
   صحيح البخاري2185عبد الله بن عمرالمزابنة اشتراء الثمر بالتمر كيلا بيع الكرم بالزبيب كيلا
   صحيح البخاري2171عبد الله بن عمرالمزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا بيع الزبيب بالكرم كيلا
   صحيح مسلم3896عبد الله بن عمرعن المزابنة بيع ثمر النخل بالتمر كيلا بيع الزبيب بالعنب كيلا عن كل ثمر بخرصه
   صحيح مسلم3893عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة
   صحيح مسلم3894عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة بيع ثمر النخل بالتمر كيلا بيع العنب بالزبيب كيلا بيع الزرع بالحنطة كيلا
   صحيح مسلم3897عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة أن يباع ما في رءوس النخل بتمر بكيل مسمى إن زاد فلي وإن نقص فعلي
   صحيح مسلم3899عبد الله بن عمرعن المزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كانت نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا إن كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام نهى عن ذلك كله
   سنن أبي داود3361عبد الله بن عمربيع الثمر بالتمر كيلا عن بيع العنب بالزبيب كيلا عن بيع الزرع بالحنطة كيلا
   سنن النسائى الصغرى4553عبد الله بن عمرالمزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام نهى عن ذلك كله
   سنن النسائى الصغرى4538عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا وبيع الكرم بالزبيب كيلا
   سنن النسائى الصغرى4537عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة أن يباع ما في رءوس النخل بتمر بكيل مسمى إن زاد لي وإن نقص فعلي
   سنن النسائى الصغرى3963عبد الله بن عمركانت المزارع تكرى على عهد رسول الله
   سنن ابن ماجه2265عبد الله بن عمرعن المزابنة أن يبيع الرجل تمر حائطه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم494عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا
   بلوغ المرام709عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن المزابنة
   مسندالحميدي409عبد الله بن عمرأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2327  
´سونا اور چاندی کے عوض زمین کا ٹھیکے`
«. . . ومما يصاب الارض ويسلم ذلك، فنهينا واما الذهب والورق فلم يكن يومئذ . . .»
. . . بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ: 2327]

◈ امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«فيه دليل على جواز إجارة الأراضي، و ذهب عامة أهل العلم إلي جوازها بالدراهم و الدنانيز، و غيرها من صنوف الأموال، سواء كانت مما تنبت الأرض، أولا تنبت، إذا كان معلوما بالعيان، إو بالوصف، كما يجوز إجارة غير الأراضي من العبيد و الدواب و غيرها، و جملته إن ما جاز بيعه، جاز أن يجعل أجرة فى الإجازة۔»
اس حدیث میں زمین کو ٹھیکے پر لینے دینے کی دلیل ہے۔ اکثر اہل علم سونے، چاندی (نقدی) اور مال کی دوسری اقسام کے عوض زمین کے ٹھیکے کے جواز کے قائل ہیں، خواہ وہ چیز زمین سے اگتی ہو یا نہ اگتی ہو، بشرطیکہ اس کی مقدار اور کیفیت معلوم ہو۔ یہ (زمین کا کرایہ پر لینا دینا) اسی طرح جائز ہے، جیسے زمین کے علاوہ دوسری چیزیں، مثلا غلام، جانور وغیرہ کو کرائے پر لینا دینا جائز ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے، اس کو اجرت کے بدلے کرائے پر لینا دینا بھی جائز ہے۔۔۔ [شرح السنة للبغوي: 263/8]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«و ذهب جميع فقهاء الحديث الجامعون لطرقه كلهم، كأحمد بن حنبل و أصحابه كلهم من المتقدمين، والمتأخرين، وإسحاق بن راهويه، وأبي بكر أبي شبية، وسليمان بن داود الهاشمي، و أبي خيثمة زهير بن حرب، و أكثر فقهاء الكوفيين، كسفيان الثوري، و محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي، و أبي داوٗد، وجماهير فقهاء الحديث من المتأخرين: كابن المنذر، وابن خزيمة، والخطابي، وغيرهم، و أهل الظاهر، و أكثر أصحاب أبي حنيفة إلي جواز المزراعة والمؤعة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أصحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين»
سنت رسول، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل، سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث، مثلا امام احمد بن حنبل، آپ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام سلیمان بن داؤد ہاشمی، امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اکثر فقہائے کوفہ، جیساکہ امام سفیان ثوری، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد، امام بخاری، امام ابوداؤد اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث، مثلا امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ، خطابی اور اہل ظاہر، امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے۔۔۔۔ [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 95-94/29، القواعد النوانية الفقهية: 163]

◈ شیخ اسلام ثانی، عالم ربانی، امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و قال ابن المنذر: قد جائت الأخبار عن رافع بعلل، تدل على أن النهي كان بتلك العلل»
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے آنے والی (ٹھیکے کی ممانعت والی) روایات میں کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹھیکے کی ممانعت انہی وجوہات کی وجہ سے تھی (مطلق طور پر ٹھیکے کا معاملہ حرام نہ تھا)۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داود: 186/9]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«المخابرة التى نهاهم عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم هي التى كانوا يفعلونها من المخابرة الظالمة الجائزة، و هي التى جائت مفسرة فى أحاديثهم» ۔
زمین کے جس معاملے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، وہ اس معاملے کی وہ صورتیں ہیں، جو ظلم و زیادتی پر منبی تھیں، ان کی وضاحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث میں آ گئی ہے۔۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داوٗد: 193/9]

◈ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«فيه دليل على جواز كراء الأرض بالذهب والورق، وقد جاءت أحاديث مطلقة فى النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق»
اس حدیث میں زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے کا جواز موجود ہے۔ کچھ مطلق احادیث زمین کے ٹھیکے سے ممانعت کے بارے میں آئی ہیں، یہ حدیث اس اطلاق کی تفسیر و تقیید کرتی ہے (یعنی بتاتی ہے کہ ٹھیکہ نا جائز نہیں)۔۔۔۔ [احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: ص 380]
↰ معلوم ہوا کہ ٹھیکے کی غلط صورتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، نہ کہ مطلق ٹھیکے سے، کیونکہ خود راویٔ حدیث سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ انصار ٹھیکے کے وقت جگہ مقرر کر لیتے تھے کہ زمین کے اس ٹکڑے کی پیدوار ٹھیکے والے کو اور اس ٹکڑے کی مالک کو ملے گی، یوں کبھی ٹھیکے والے کو نقصان ہو جاتا کبھی مالک کو۔ اسی طرح معاملہ یوں طے پاتا کہ زمین سے پیداوار کم ہو یا زیادہ، مالک نے مقررہ مقدار غلہ لینا ہے۔ اس صورت میں بھی ایک فریق کو نقصان کا خدشہ ہوتا تھا، اس لیے اسے بھی شریعت نے ممنوع ٹھہرایا۔ رہی نقدی کے عوض ٹھیکے کی صورت تو یہ اس دور میں تھی ہی نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ممنوع کیسے ہو سکتی ہے؟ فقہائے کرام اور محدثین عظام کا فہم بھی یہی ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 494  
´مزابنہ اور محاقلہ کا بیان`
«. . . 236- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع کیا ہے (اور مزابنہ یہ ہے کہ) درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے اور درخت پر لگے ہوئے انگوروں کو خشک انگوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 494]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2171، و مسلم 1542/72، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 158
➋ دین اسلام میں پوری انسانیت کے لئے فلاح ہی فلاح ہے۔
➌ سد ذرائع کے طور پر اس ذریعے کو بند کر دینا چاہئے جس سے فساد اور شر پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 236   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2265  
´بیع مزابنہ (یعنی درخت کے اوپر کچے پھل کو سوکھے پھل کے بدلے بیچنے) اور بیع محاقلہ (یعنی غلہ کے بدلے زمین دینے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور کو جو درختوں پر ہو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے، یا انگور کو جو بیل پر ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں کھڑی فصل سوکھے ہوئے اناج کے بدلے ناپ کر بیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے منع کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیع مزابنہ ممنوع ہے۔

(2)
بیع مزابنہ کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے باغ کا پھل خریدے اور اس کے عوض مقررہ مقدار میں کھجوریں ادا کرے۔
یا مثلاً یوں کہے:
اس کھیت میں جوفصل تیار ہورہی ہے وہ سب میں پچاس من گندم کے عوض خریدتا ہوں۔
یہ درست نہیں کیونکہ یہ معلوم نہیں کھیت سے جو گندم حاصل ہو گی وہ پچاس من سے کم ہو گی یا زیادہ۔
کھیت کی فصل کےبارے میں اس قسم کا معاہدہ محاقلہ کہلاتا ہے جبکہ باغ کے پھل کےبارے میں یہی معاملہ مزابنہ کہلاتا ہے۔

(3)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزابنہ میں اس صورت کو بھی شامل کیا ہے کہ کسی بغیر ماپی تولی چیز کےبارے میں کہا جائے کہ اس کی مقدار یہ ہے، مثلاً گندم کا یہ ڈھیر دس من کا ہے۔
یا اس برتن میں میرے اندازے کے مطابق پچاس لٹر تیل ہے۔
یا میں کہتا ہوں کہ مالٹوں کی اس ڈھیری میں دو سو مالٹے ہیں، اگر مقدار کم ہوئی تو اپنے پاس سے پوری کروں گا، اور اگر زیادہ ہوئی تو جتنی زیادہ ہوئی وہ میری ہو گی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ یہ صورت بیع نہیں بلکہ دھوکے اور قمار (جوئے)
پر مبنی ایک معاملہ ہے۔ (مؤطأ امام مالك، البیوع، باب ماجاء في المزابنة والمحاقلة: 2/ 161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2265   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3361  
´مزابنہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3361]
فوائد ومسائل:

درخت یا بیل پر لگے تازہ پھل کو جس کی مقدار متعین نہیں ہوسکتی۔
اس نوع کے خشک پھل سے بیچنا کہ خشک کی مقدار معلوم ومعین ہو یا گندم وغیرہ کے کھیت کو خشک گندم کے عوض بیچنا (مزابنہ) کہلاتا ہے۔


ایک جنس کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے تازہ اور خشک یا عمدہ اور روی کا فرق نہیں کیا جا سکتا۔
دونوں کا نقد اور برابر برابر تبادلہ کیا جائے۔
پھرعلیحدہ علیحدہ نقدی کے عوض بیچا جائے۔
البتہ عرایا جائز ہے۔
جیسے کہ ذکر آرہا ہے۔


اس میں ایک پہلو قدر کے غیر معلوم ہونے کا بھی ہے۔
کیونکہ درخت پر لگی کھجور کا حتمی وزن یا یا کیل ممکن نہیں۔


تازہ کھجور خشک ہونے کے باوجود کم ہو جاتی ہے۔
اور اس کی خشک کھجور کے عوض بیع کی ممانعت صراحت کے ساتھ آچکی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3361   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2345  
2345. حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں زمین بٹائی پر دی جاتی تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اندیشہ لاحق ہوا مبادا رسول اللہ ﷺ نے کوئی نیا حکم دیا ہو جس کی انھیں خبر نہ ہو، اس لیےانھوں نے زمین کرائے پر دینا ترک کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2345]
حدیث حاشیہ:
پیچھے تفصیل گزر چکا ہے کہ بیشتر مہاجرین انصار کی زمینوں پر بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔
پس بٹائی پر دینا بلاشبہ جائز ہے یوں احتیاط کا معاملہ الگ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2345   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2345  
2345. حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں زمین بٹائی پر دی جاتی تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اندیشہ لاحق ہوا مبادا رسول اللہ ﷺ نے کوئی نیا حکم دیا ہو جس کی انھیں خبر نہ ہو، اس لیےانھوں نے زمین کرائے پر دینا ترک کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2345]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت رافع بن خدیج ؓ مطلق طور پر زمین بٹائی پر دینے سے منع کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر ؓ اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مخصوص صورت سے منع فرمایا تھا کیونکہ مخصوص رقبے کی پیداوار کے عوض زمین دی جاتی تھی، اس میں نقصان اور دھوکا تھا کیونکہ ادھر پیداوار ہوتی اور دوسری طرف آفت کا شکار ہو جاتی اور کبھی اس کے برعکس ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑا ہوتا رہتا۔
کبھی تو زمین کا مالک پیداوار سے محروم رہتا۔
اور کبھی مزارع کو نقصان اٹھانا پڑتا، اس سے چوتھائی، تہائی یا نصف پیداوار کے عوض بٹائی پر دینے کی ممانعت نہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث کی وضاحت کے لیے حضرت سالم ؒ کی حدیث ذکر کی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ پرہیزگار شخص تھے۔
ایک طویل مدت تک ان کا عمل جس بات پر رہا اس کے متعلق انہیں شبہ لاحق ہو گیا۔
آخرکار انہوں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات پر عمل کیا اور احتیاط کے خیال سے زمین کرائے پر دینا ترک کر دی۔
بہرحال قانون الگ ہے اور ایثار و ہمدردی کا پہلو الگ حیثیت رکھتا ہے۔
(3)
حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات کو قانون کی حیثیت نہیں دی جا سکتی بلکہ ان سے احسان اور ایثار کا پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرز عمل کی شاندار الفاظ سے حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔
امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2345   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.