الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
18. بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ:
18. باب: چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنے کے بارے میں۔
(18) Chapter. (It is permissible) to offer Salat (prayer) on roofs, a pulpit or wood.
حدیث نمبر: Q377
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابو عبد الله: ولم ير الحسن باسا ان يصلى على الجمد والقناطر وإن جرى تحتها بول او فوقها او امامها إذا كان بينهما سترة، وصلى ابو هريرة على سقف المسجد بصلاة الإمام، وصلى ابن عمر على الثلج.قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَلَمْ يَرَ الْحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يُصَلَّى عَلَى الْجُمْدِ وَالْقَنَاطِرِ وَإِنْ جَرَى تَحْتَهَا بَوْلٌ أَوْ فَوْقَهَا أَوْ أَمَامَهَا إِذَا كَانَ بَيْنَهُمَا سُتْرَةٌ، وَصَلَّى أَبُو هُرَيْرَةَ عَلَى سَقْفِ الْمَسْجِدِ بِصَلَاةِ الْإِمَامِ، وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ عَلَى الثَّلْجِ.
‏‏‏‏ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتداء میں نماز پڑھی (اور وہ نیچے تھا) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے برف پر نماز پڑھی۔

حدیث نمبر: 377
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابو حازم، قال: سالوا سهل بن سعد، من اي شيء المنبر؟ فقال: ما بقي بالناس اعلم مني، هو من اثل الغابة، عمله فلان مولى فلانة لرسول الله صلى الله عليه وسلم،" وقام عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حين عمل ووضع، فاستقبل القبلة كبر وقام الناس خلفه، فقرا وركع وركع الناس خلفه، ثم رفع راسه، ثم رجع القهقرى فسجد على الارض، ثم عاد إلى المنبر، ثم ركع، ثم رفع راسه، ثم رجع القهقرى حتى سجد بالارض، فهذا شانه"، قال ابو عبد الله: قال علي بن المديني: سالني احمد بن حنبل رحمه الله عن هذا الحديث، قال: فإنما اردت ان النبي صلى الله عليه وسلم كان اعلى من الناس، فلا باس ان يكون الإمام اعلى من الناس بهذا الحديث، قال: فقلت: إن سفيان بن عيينة كان يسال عن هذا كثيرا فلم تسمعه منه، قال: لا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ، فَهَذَا شَأْنُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ، قَالَ: لَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی سے پوچھا کہ منبرنبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب (دنیائے اسلام میں) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے (مسجد میں) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرآت رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کو پوچھا۔ علی نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں لوگوں سے اونچے مقام پر کھڑے ہوئے تھے اس لیے اس میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو۔ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے یہ حدیث اکثر پوچھی جاتی تھی، آپ نے بھی یہ حدیث ان سے سنی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔

Narrated Abu Hazim: Sahl bin Sa`d was asked about the (Prophet's) pulpit as to what thing it was made of? Sahl replied: "None remains alive amongst the people, who knows about it better than I. It was made of tamarisk (wood) of the forest. So and so, the slave of so and so prepared it for Allah's Apostle . When it was constructed and place (in the Mosque), Allah's Apostle stood on it facing the Qibla and said 'Allahu Akbar', and the people stood behind him (and led the people in prayer). He recited and bowed and the people bowed behind him. Then he raised his head and stepped back, got down and prostrated on the ground and then he again ascended the pulpit, recited, bowed, raised his head and stepped back, got down and prostrate on the ground. So, this is what I know about the pulpit." Ahmad bin Hanbal said, "As the Prophet was at a higher level than the people, there is no harm according to the above-mentioned Hadith if the Imam is at a higher level than his followers during the prayers."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 374


   صحيح البخاري2569سهل بن سعدمري عبدك فليعمل لنا أعواد المنبر فأمرت عبدها فذهب فقطع من الطرفاء فصنع له منبرا فلما قضاه أرسلت إلى النبي إنه قد قضاه قال أرسلي به إلي فجاءوا به فاحتمله النبي فوضعه حيث ترون
   صحيح البخاري377سهل بن سعدقام عليه رسول الله حين عمل ووضع فاستقبل القبلة كبر وقام الناس خلفه فقرأ وركع وركع الناس خلفه ثم رفع رأسه ثم رجع القهقرى فسجد على الأرض ثم عاد إلى المنبر ثم ركع ثم رفع رأسه ثم رجع القهقرى حتى سجد بالأرض فهذا شأنه
   صحيح البخاري917سهل بن سعدمري غلامك النجار أن يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس فأمرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فأرسلت إلى رسول الله فأمر بها فوضعت ها هنا رأيت رسول الله صلى عليها وكبر وهو عليها ثم ركع وهو عليها ثم نزل القهقرى فسجد في أصل المنبر ثم عاد فلما فرغ أقب
   صحيح البخاري2094سهل بن سعدمري غلامك النجار يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس فأمرته يعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فأرسلت إلى رسول الله بها فأمر بها فوضعت فجلس عليه
   صحيح مسلم1216سهل بن سعدانظري غلامك النجار يعمل لي أعوادا أكلم الناس عليها فعمل هذه الثلاث درجات ثم أمر بها رسول الله فوضعت هذا الموضع فهي من طرفاء الغابة رأيت رسول الله قام عليه فكبر وكبر الناس وراءه وهو على المنبر ثم رفع فنزل القهقرى حتى سجد في أصل المنبر ثم عاد حتى فرغ من آخر
   سنن أبي داود1080سهل بن سعدمري غلامك النجار أن يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس فأمرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فأرسلته إلى النبي فأمر بها فوضعت هاهنا رأيت رسول الله صلى عليها وكبر عليها ثم ركع وهو عليها ثم نزل القهقرى فسجد في أصل المنبر ثم عاد فلما فرغ أقبل على ال
   سنن النسائى الصغرى740سهل بن سعدمري غلامك النجار أن يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس فأمرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها فأرسلت إلى رسول الله فأمر بها فوضعت ها هنا رقي فصلى عليها وكبر وهو عليها ثم ركع وهو عليها ثم نزل القهقرى فسجد في أصل المنبر ثم عاد فلما فرغ أقبل على النا
   مسندالحميدي955سهل بن سعدحين صعد عليه استقبل القبلة، فكبر، ثم قرأ، ثم ركع، ثم نزل القهقرى فسجد، ثم صعد، ثم قرأ، ثم ركع، ثم نزل القهقرى، ثم سجد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 740  
´منبر پر نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوحازم بن دینار کہتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ لوگ منبر کی لکڑی کے بارے میں بحث کر رہے تھے کہ وہ کس چیز کی تھی؟ ان لوگوں نے سہیل رضی اللہ عنہ اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ یہ منبر کس لکڑی کا تھا، میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا تھا جس دن وہ رکھا گیا، اور جس دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پہل اس پر بیٹھے (ہوا یوں تھا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت (سہل رضی اللہ عنہ نے اس کا نام لیا تھا) کو کہلوا بھیجا کہ آپ اپنے غلام سے جو بڑھئی ہے کہیں کہ وہ میرے لیے کچھ لکڑیوں کو اس طرح بنا دے کہ جب میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کروں تو اس پر بیٹھ سکوں، تو اس عورت نے غلام سے منبر بنانے کے لیے کہہ دیا، چنانچہ غلام نے جنگل کے جھاؤ سے اسے تیار کیا، پھر اسے اس عورت کے پاس لے کر آیا تو اس نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے یہاں رکھا گیا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس پر چڑھے، اور اس پر نماز پڑھی، آپ نے اللہ اکبر کہا، آپ اسی پر تھے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور آپ اسی پر تھے، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کے پایوں کے پاس سجدہ کیا، پھر آپ نے دوبارہ اسی طرح کیا، تو جب آپ فارغ ہو گئے، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگو! میں نے یہ کام صرف اس لیے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کر سکو، اور (مجھ سے) میری نماز سیکھ سکو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 740]
740 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ نفل نماز تھی اور نفل نماز میں کافی وسعت ہوتی ہے۔ اگرچہ منبر نماز کے لیے نہیں بنایا گیا تھا مگر آپ نے مناسب خیال فرمایا کہ اس کا افتتاح نماز سکھانے سے ہو۔ اس کا یہ فائدہ مقصود تھا کہ لوگ آپ کے اونچا ہونے کی وجہ سے آپ کو بخوبی دیکھ سکیں اور نماز کا طریقہ سیکھ لیں۔ آپ نے سب سے بلند سیڑھی پر کھڑے ہو کر نماز ادا فرمائی۔ دیکھیے: [فتح الباري: 514/2، شرح حديث: 917]
➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کبھی رش یا جگہ کی تنگی یا ناہمواری کی وجہ سے نماز کا کوئی رکن کچھ ہٹ کر یا نیچے اتر کر یا کچھ آگے پیچھے چل کر ادا کرنا پڑے تو نفل نماز میں گنجائش ہے، البتہ فرض نماز میں اضطراری حالت کے علاوہ ایسے نہ کیا جائے۔
➌ کہا گیا ہے کہ عورت کا نام سہلہ اور غلام کا نام میمون تھا۔ دیکھیے: [فتح الباري: 512/2، شرح حديث: 917]
➍ صحیح روایت میں صراحت ہے کہ منبر بنانے کی پیش کش اس عورت نے خود کی تھی۔ آپ نے منظوری یا یاددہانی کا پیغام بھیجا۔
➎ سجدہ کرنے کے لیے آپ کو کئی قدم اٹھانے پڑے کیونکہ سب سے اوپر والی سیڑھی سے اتر کر نیچے آنا اور مزید پیچھے ہٹ کر منبر کی قریب ترین جگہ پر سجدہ کرنا کئی قدموں کا متقاضی ہے، لہٰذا قدموں کی درجہ بندی کرنا کہ اگر مسلسل تین قدم اٹھائیں تو نماز باطل ہو جائے گی، درست نہیں۔ اس کی بجائے عمل کو ضرورت کے ساتھ مقید کرنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 740   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1080  
´منبر بنانے کا بیان۔`
ابوحازم بن دینار بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ لوگ منبر کے سلسلے میں جھگڑ رہے تھے کہ کس لکڑی کا تھا؟ تو انہوں نے سہل بن سعد سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: قسم اللہ کی! میں جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا تھا اور میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا جب وہ رکھا گیا اور جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے پاس- جس کا سہل نے نام لیا- یہ پیغام بھیجا کہ تم اپنے نوجوان بڑھئی کو حکم دو کہ وہ میرے لیے چند لکڑیاں ایسی بنا دے جن پر بیٹھ کر میں لوگوں کو خطبہ دیا کروں، تو اس عورت نے اسے منبر کے بنانے کا حکم دیا، اس بڑھئی نے غابہ کے جھاؤ سے منبر بنایا پھر اسے لے کر وہ عورت کے پاس آیا تو اس عورت نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ایک جگہ) رکھنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ منبر اسی جگہ رکھا گیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور تکبیر کہی پھر اسی پر رکوع بھی کیا، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا، پھر منبر پر واپس چلے گئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری پیروی کرو اور میری نماز کو جان سکو۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1080]
1080۔ اردو حاشیہ:
➊ خطبے وغیرہ کے لئے منبر کا استعمال مستحب ہے۔
➋ نماز کا معاملہ اس قدر اہم تھا اور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم میں ازحد مبالغے سے کام لیا، حتیٰ کہ منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ کر دکھائی۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بالعموم اور نماز میں بالخصوص فرض ہے۔
➍ طلباء کو اہم علمی مسائل کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ضروری امور کی معرفت بھی حاصل کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1080   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 377  
377. حضرت ابوحازم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد ؓ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ (نبی ﷺ کا) منبر کس چیز سے تیار کیا گیا تھا؟ وہ بولے کہ اب لوگوں میں اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ مقام غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے لیے فلاں عورت کے فلاں غلام نے تیار کیا تھا۔ جب وہ تیار ہو چکا اور مسجد میں رکھ دیا گیا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ دیگر لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، پھر آپ نے قراءت کی اور رکوع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور پیچھے ہٹ کر زمین پر سجدہ کیا۔ (دونوں سجدے ادا کرنے کے بعد) پھر منبر پر لوٹ آئے، پھر قراءت کی اور رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ منبر نبوی کا یہی قصہ ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:377]
حدیث حاشیہ:
غابہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا۔
جہاں جھاؤ کے درخت بہت عمدہ ہوا کرتے تھے۔
اسی سے آپ کے لیے منبر بنایا گیا تھا۔
حدیث سے ثابت ہوا کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے۔
اور یہ بھی نکلا کہ اتنا ہٹنا یا آگے بڑھنا نماز کو نہیں توڑتا۔
خطابی نے کہا کہ آپ کا منبرتین سیڑھیوں کا تھا۔
آپ دوسری سیڑھی پر کھڑے ہوں گے تواترنے چڑھنے میں صرف دوقدم ہوئے۔
امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث علی بن مدینی سے سنی تواپنا مسلک یہی قرار دیا کہ امام مقتدیوں سے بلند کھڑا ہو تواس میں کچھ قباحت نہیں۔
سننے کی نفی سے مراد یہ کہ پوری روایت نہیں سنی۔
امام احمدنے اپنی سندسے سفیان سے یہ حدیث نقل کی ہے اس میں صرف اتنا ہی ذکر ہے کہ منبر غابہ کے جھاؤ کا بنایاگیا تھا۔
حنفیہ کے ہاں بھی اس صورت میں اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ مقتدی اپنے امام کے رکوع اور سجدہ کو کسی ذریعہ سے جان سکے اس کے لیے اس کی بھی ضرورت نہیں کہ چھت میں کوئی سوراخ ہو۔
(تفہیم الباری، جلددوم، ص: 77)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 377   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:377  
377. حضرت ابوحازم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد ؓ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ (نبی ﷺ کا) منبر کس چیز سے تیار کیا گیا تھا؟ وہ بولے کہ اب لوگوں میں اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ مقام غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے لیے فلاں عورت کے فلاں غلام نے تیار کیا تھا۔ جب وہ تیار ہو چکا اور مسجد میں رکھ دیا گیا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ دیگر لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، پھر آپ نے قراءت کی اور رکوع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور پیچھے ہٹ کر زمین پر سجدہ کیا۔ (دونوں سجدے ادا کرنے کے بعد) پھر منبر پر لوٹ آئے، پھر قراءت کی اور رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ منبر نبوی کا یہی قصہ ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:377]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر اس لیے امامت کرائی تاکہ تمام مقتدی آپ کی نماز کا مشاہدہ کرلیں بصورت دیگر صرف وہی لوگ آپ کو دیکھ سکتے تھے جو پہلی صف میں ہوں، تمام لوگ آپ کو نہ دیکھ سکتے تھے۔
اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر نماز پڑھی جو لکڑی کا تھا اور سطح زمین سے بلند تھا۔
امام بخاری ؒ کا عنوان تین اجزا پر مشتمل تھا کہ چھت منبر اور تختوں پر نماز کا جواز۔
یہ تینوں اجزاء اسی ایک روایت سے ثابت ہوگئے۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا منبر دو سیڑھیوں اور ایک نشست پر مشتمل تھا۔
دوران نماز میں منبر سے اترنے اور اس پر چڑھنے میں عمل کثیر کا شبہ نہیں ہونا چاہیے جو نماز کے لیے درست نہیں، کیونکہ اترنے اور چڑھنے کی صورت یہ تھی کہ ایک قدم اٹھایا اور رک گئے، پھر ایک قدم اٹھایا اور رک گئے یہ عمل کثیر نہیں بلکہ عمل قلیل کا تکرار ہے جو نماز کے منافی نہیں۔
چنانچہ علامہ خطابی ؒ لکھتے ہیں کہ دوران نماز میں اس قدر عمل یسیر نماز کے لیے باعث فساد نہیں، کیونکہ آپ کا منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل تھا اور شاید آپ دوسری سیڑھی پر تھے اس طرح اترنے اور چڑھنے میں دو قدم آگے پیچھے ہونا پڑا ہو گا۔
(إعلام الحدیث: 360/1)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر امام مقتدی حضرات سے اونچے مقام پر کھڑا ہو تو امامت اور اقتدا جائز ہے، اگرچہ ایسا کرنا کراہت سے خالی نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو تعلیم دینے کے لیے اونچا کھڑے ہوئے تھے تاکہ مقتدی حضرات آپ کی حرکات و سکنات سے واقف ہو سکیں۔
البتہ امام اور مقتدی کا یہ فرق اگر کسی ضرورت کی بنا پرہو تو بلا کراہت ایسا کرنا جائز ہے۔
مثلاً:
امام مقتدی حضرات کو نماز کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔
امام کی تکبیرات دوسروں تک پہنچانے کے لیے اونچا کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔
جگہ کم رہ جانے کی وجہ سے چھت پر نماز ادا کرنے کی نوبت آجائے وغیرہ۔
رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں اس لیے اترے تاکہ قبلے سے انحراف نہ ہو۔
(إعلام الحدیث: 360/1)

بلاوجہ امام کا اونچا کھڑا ہونا اس لیے مکروہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کی کراہت منقول ہے، مثلاً:
حضرت حذیفہ ؓ نے ایک دفعہ اونچی دکان پر کھڑے ہو کر جماعت کرائی وہاں سجدہ کیا۔
دوران نماز میں حضرت ابومسعود ؓ نے انھیں نیچے کردیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابو مسعود ؓ کہنے لگے۔
آپ کو معلوم نہیں کہ اس کی ممانعت ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے جواب دیا اسی وجہ سے تو میں آہ کے اشارے سے نیچے آگیا تھا۔
(صحیح ابن خزیمة: 13/3)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا:
امام کا مقتدی حضرات سے اونچا کھڑا ہونا ایک ناپسندیدہ حرکت ہے۔
(مجمع الزوائد: 67/3)
امام ابو داود ؒ نے اپنی سنن میں اس کے متعلق ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔

حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنے شیخ سفیان بن عیینہ سے پوری حدیث کا سماع نہیں کیا، بلکہ انھوں نے اپنی سند میں صرف اسی قدر نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا منبر غابہ جنگل کے جھاؤ کا تھا۔
باقی حدیث کا علم انھیں حضرت علی بن عبد اللہ المدینی سے ہوا جیسا کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے آخر میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
(فتح الباري: 631/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 377   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.