الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
The Book of Divorce
4. بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَثِ:
4. باب: اگر کسی نے تین طلاق دے دی تو جس نے کہا کہ تینوں طلاق پڑ جائیں گی اس کی دلیل۔
(4) Chapter. Whoever thinks it permissible to divorce one’s wife thrice (at a time), depending on the Statement of Allah: "The divorce is twice; after that either you retain her on reasonable terms or release her with kindness." (V.2:229)
حدیث نمبر: 5261
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة،" ان رجلا طلق امراته ثلاثا فتزوجت، فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: اتحل للاول؟ قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الاول".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ، فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ: لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر عمری نے، کہا کہ مجھ سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی۔ ان کی بیوی نے دوسری شادی کر لی، پھر دوسرے شوہر نے بھی (ہمبستری سے پہلے) انہیں طلاق دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا پہلا شوہر اب ان کے لیے حلال ہے (کہ ان سے دوبارہ شادی کر لیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، یہاں تک کہ وہ یعنی شوہر ثانی اس کا مزہ چکھے جیسا کہ پہلے نے مزہ چکھا تھا۔

Narrated `Aisha: A man divorced his wife thrice (by expressing his decision to divorce her thrice), then she married another man who also divorced her. The Prophet was asked if she could legally marry the first husband (or not). The Prophet replied, "No, she cannot marry the first husband unless the second husband consummates his marriage with her, just as the first husband had done."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 187


   صحيح البخاري5265عائشة بنت عبد اللهلا تحلين لزوجك الأول حتى يذوق الآخر عسيلتك وتذوقي عسيلته
   صحيح البخاري5317عائشة بنت عبد اللهلا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك
   صحيح البخاري5261عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول
   صحيح البخاري5260عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته
   صحيح البخاري2639عائشة بنت عبد اللهلا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك
   صحيح البخاري6084عائشة بنت عبد اللهلا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك
   صحيح البخاري5792عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته
   صحيح البخاري5825عائشة بنت عبد اللهلم تصلحي له حتى يذوق من عسيلتك
   صحيح مسلم3531عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق الآخر من عسيلتها ما ذاق الأول
   صحيح مسلم3529عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتها
   صحيح مسلم3527عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته
   صحيح مسلم3526عائشة بنت عبد اللهلا حتى تذوقي عسيلته
   جامع الترمذي1118عائشة بنت عبد اللهلا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك
   سنن أبي داود2309عائشة بنت عبد اللهلا تحل للأول حتى تذوق عسيلة الآخر ويذوق عسيلتها
   سنن النسائى الصغرى3436عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق الآخر عسيلتها وتذوق عسيلته
   سنن النسائى الصغرى3441عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول
   سنن النسائى الصغرى3440عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته
   سنن النسائى الصغرى3438عائشة بنت عبد اللهلا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك
   سنن النسائى الصغرى3437عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته
   سنن النسائى الصغرى3285عائشة بنت عبد اللهلا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته
   سنن ابن ماجه1932عائشة بنت عبد اللهلا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك
   بلوغ المرام854عائشة بنت عبد الله لا حتى يذوق الآخر من عسيلتها ما ذاق الأول
   مسندالحميدي228عائشة بنت عبد اللهأتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2639  
´جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ الْقُرَظِيِّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی۔ لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کر سکتی جب تک تو عبدالرحمٰن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لیے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ابوبکر! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ: 2639]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2639 کا باب: «بَابُ شَهَادَةِ الْمُخْتَبِي:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اپنے تئیں چھپ کر گواہ بنانے کو جائز قرار دیا ہے اور حدیث جو نقل فرمائی ہے اس میں ترجمۃ الباب سے موافقت موجود ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه إنكار خالد بن سعيد على أمرأة رفاعة ما كانت تكلم به عند النبى صلى الله عليه وسلم مع كونه محجوبًا عنها خارج الباب، ولم ينكر النبى صلى الله عليه وسلم عليه ذالك» [فتح الباري، ج 6، ص: 212]
یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے باہر تھے، عورت کے سامنے نہ تھے باوجود اس کے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے اپنے تئیں چھپ کر گواہی دینے پر) کوئی اعتراض نہیں کیا۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے قول میں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی گفتگو کے بارے میں انکار فرمایا کہ وہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر رہی ہے، اور اس شہادت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں روکا، اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا انکار ان کی آواز کی وجہ سے تھا جو انہیں سنائی دے رہی تھی۔ لہٰذا سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے تئیں گواہی چھپا کر دی اس عورت کی۔ [عمدة القاري، ج 13، ص: 693]

علامہ عبدالحق الہاشمی الہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے مناسبت کی غرض یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے انکار فرمایا تھا اس خاتون کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کر رہی تھیں اور اس وقت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے تھے (ان کی اس گواہی پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا، پس سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی آواز پر اعتماد کیا یہاں تک کہ اس کے (اس فعل سے) انکار کیا۔ [لب اللباب فى تراجم والأبواب، ج 3، ص: 344]

بعض حضرات نے «شهادة المختبئ» کا انکار کیا ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فاختلف العلماء فى شهادة المختبئ، فروي عن شريح والشعبي [عبدالرزاق: 355/8، و ابن أبى شيبة: 432/4]
والنخعي أنهم كانوا لا يجيزونها وقالوا انه ليس بعدل حين اختبأ ممن يشهد عليه وهو قول أبى حنيفة والشافعي.»
[معرفة السنن والاثار: 345/14]
یعنی علماء نے «مختبئ» کی شہادت پر اختلاف کیا ہے، پس شریح، الشعبی اور نخعی سے «مختبئ» کی شہادت کا انکار موجود ہے۔

امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ [مختصر الطحاوي، ص: 336]

امام مالک رحمہ اللہ «شهادة المختبئ» کے بارے میں فرماتے ہیں:
جب آدمی عورت پر گواہی دے پردے کے پیچھے اور وہ اس عورت کو جانتا بھی ہو اور اس کی آواز پہچانتا بھی ہو تو (اس صورت میں) اس کی گواہی جائز ہو گی۔

اور مزید آپ فرماتے ہیں:
یقینا لوگ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے پاس جایا کرتے تھے (دینی مسائل کے دریافت کے لیے) اور ان حضرات اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے درمیان پردہ حائل ہوا کرتا تھا۔ پس وہ حضرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے سنا کرتے اور ان سے احادیث بیان کیا کرتے تھے۔ [النادر والذيادات، ج 8، ص: 258]
لہذا اس دلیل سے «مختبئ» کی شہادت کی قبولیت کی واضح دلیل فراہم ہوتی ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب:
کتب احادیث میں تین قسم کے واقعات اسی نوعیت کے ملتے ہیں جن کی وجہ سے کئی حضرات نے ان واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے، جو کہ غلط ہے۔
ایک واقعہ جو مذکورہ حدیث میں موجود ہے، دوسرا واقعہ بعین اسی نوعیت کا مفسرین نے ذکر فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت: « ﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ » [البقرة: 230] کے نزول میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ آیت عائشہ بنت عبد الرحمن بن عتیک کے متعلق نازل ہوئی۔ وہ اپنے چچا زاد رفاعہ بن وہب کے نکاح میں تھیں، رفاعہ بن وہب نے انہیں تین طلاقیں دیں تو انہوں نے عبدالرحمن بن زبیر سے شادی کی، عبدالرحمن نے انہیں طلاق دی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں کہ عبدالرحمن نے مجھے جماع کے بغیر ہی طلاق دے دی۔ اب کیا میں پہلے شوہر کے پاس جا سکتی ہوں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ [الدر المنثور: 1283/1 - فتح الباري، ج 9، ص: 581]
بعض حضرات نے ان دو واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فالواضح من سياقه انها قصة أخرى وان كلا من رفاعة القرظي ورفاعة النضري وقع له من زوجة له طلاق فتزوج كلا منهما عبدالرحمن بن الزبير فطلقها قبل ان يمسها فالحكم فى قصتهما متحد مع تغاير الأشخاص.» [فتح الباري، ج 9، ص: 581]
سیاق سے واضح یہ ہے کہ مذکورہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ کیونکہ پہلا واقعہ رفاعہ بن سموال کی بیوی کا ہے، اور دوسرا واقعہ رفاعہ بن وہب کا ہے، اور دونوں عورتوں نے دوسری شادی عبدالرحمن بن زبیر سے کی۔
حافظ صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوا کہ مذکورہ دونوں واقعات مختلف ہیں مگر ان میں اشتراک اس بات کا ہے کہ دونوں خاتوں نے نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے کیا تھا۔
تیسرا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے جسے امام نسائی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ:
ایک عورت جس کا نام غمیصاء یا رمیصاء تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اپنے شوہر کی شکایت کرنے کہ وہ جماع پر قادر نہیں ہے، تو اس کے شوہر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے۔ دراصل یہ اپنے پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ليس ذالك لها حتى تذوق عسيلته» [الدر المنثور: 284/1]
گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں واقعات الگ الگ ہیں جن کا ذکر مختلف کتب احادیث و تفاسیر میں کیا گیا ہے۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 378   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1932  
´ایک آدمی نے اپنی عورت کو تین طلاق دی، اس نے دوسرے سے شادی کر لی پھر دوسرے شوہر نے جماع سے پہلے اسے طلاق دیدی تو کیا اب وہ پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی (رضی اللہ عنہا) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں رفاعہ کے پاس تھی، انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی، تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور ان کے پاس جو ہے وہ ایسا ہے جیسے کپڑے کا جھالر ۱؎ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، اور فرمایا: کیا تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم عبدالرحمٰن کا مزہ نہ چکھو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1932]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد کو حق حاصل ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن یہ حق طلاق محدود ہے، یعنی پوری زندگی میں اسے صرف تین مرتبہ طلاق دینے کا حق ہے۔
پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اسے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ (البقرة: 229)
(رجعی)
طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے۔

(2)
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا بلکہ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے۔

(3)
اگر کسی وجہ سے دوسرے مرد سے نباہ نہ ہو سکے اور طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے تو پھر عورت اگر چاہے تو پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پہلے خاوند سےنکاح کیا جائے بلکہ کسی تیسرے آدمی سے بھی نکاح کیا جا سکتا ہے۔

(4)
پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ دوسرے خاوند نے مقاربت کے بعد طلاق دی ہو۔
اگر دوسرے نے مقاربت سے پہلے طلاق دی ہو تو پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا۔
کسی تیسرے آدمی سے جائز ہو گا۔

(5)
طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔
اگر عورت سےنکاح کر کے خلوت سے پہلے طلاق دے دی جائے تو یہ پہلی ہی بتہ، یعنی آخری طلاق ہے۔
اگر آزاد عورت کے بجائے لونڈی سے نکاح کیا گیا ہو تو دوسری طلاق آخری ہے۔
باقی حالات میں تیسری طلاق آخری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1932   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 854  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس عورت سے ایک دوسرے آدمی نے نکاح کر لیا اور اس سے ہمبستری کئے بغیر ہی اسے طلاق بھی دے دی۔ تو پہلے شوہر نے اس سے نکاح کرنا چاہا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! جب تک دوسرا خاوند اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا خاوند ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 854»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب من جوّز الطلاق الثلاث، حديث:5260، 5261، ومسلم، النكاح، باب لا تحل المطلقة ثلاثًا لمطلقها حتي تنكح زوجًا غيره.....، حديث:1433.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مطلقۂ ثلاثہ عورت جب کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لے اور دونوں میں ازدواجی تعلق بھی قائم ہو جائے اور یہ دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے یا وفات پا جائے تو پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
2.اگر اس دوسرے خاوند سے نکاح تو ہوا مگر مباشرت اور ہم بستری نہ ہوئی اور اس نے طلاق دے دی تو اس صورت میں پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح درست نہیں ہوگا۔
اور اگر دوسرا نکاح صرف حلالہ کی نیت سے کیا تو نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا۔
اس صورت میں مُحَلِّلْ اور مُحَلَّلْ لَہُ تو لعنتی قرار پاتے ہی ہیں‘ ساتھ ہی پہلے مرد سے دوبارہ نکاح بھی حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 854   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1118  
´آدمی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر اس سے کوئی اور شادی کر کے دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے حکم کا بیان​۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1118]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔
حتی تذوقی عُسیلته ویذوق عُسیلتك سے کنایہ جماع کی طرف ہے اورجماع کوشہد سے تشبیہ دینے سے مقصودیہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1118   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2309  
´تین طلاق کے بعد عورت دوسرے شخص سے نکاح کئے بغیر پہلے شوہر کے پاس نہیں آ سکتی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور وہ شخص اس کے پاس گیا لیکن جماع سے پہلے ہی اس نے اسے طلاق دے دی تو کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر کی مٹھاس نہ چکھ لے اور وہ شوہر اس عورت کی مٹھاس نہ چکھ لے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2309]
فوائد ومسائل:
1: سورۃ البقرہ میں آیت 224 اور مابعد میں طلاق کے احکام بیان ہوئے ہیں۔
آیت 230 میں ہے کہ پھراگر(تیسری بار) طلاق دی تو اب وہ اس کے لئے حلال نہیں ہے جب تک کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرلے پھراگر وہ طلاق دے دے توان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ پھر باہم مل جائیں بشرطیکہ انہیں یقین ہو وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھیں گے۔

2: یہ روایت بعض محقیقن کے نزدیک صحیح ہے، اس لئے اس میں بیان کردہ بات صحیح روایات میں بھی بیان ہوئی ہے، اس سے معلوم ہواکہ دوسری جگہ محض نکاح کر لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ دوسرے خاوند سے اس کا زن وشوہر والا تعلق قائم ہونا بھی ضروری ہے۔
اگر اس تعلق زوجیت کے بغیر ہی دوسراخاوند طلاق دے دے تو یہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی اسی طرح جو لوگ چند روز اس کے لئے نیت سے نکاح کرتے ہیں تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے تو یہ مشروط نکاح، نکاح نہیں بلکہ بدکاری ہے۔
بنا بریں حلالہ کے نام سے محض رسمی عقد کر لینا اور اسی عارضی طور پر عورت کو کسی مرد کےحوالے کر دینا تا کہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے، حرام ہے، ایسا نکاح صحیح ہے نہ رجوع۔
اس غرض سے نکاح کرنے والے کے لئے ایک بہت بڑی مثال دی گئی ہے کہ ایسا تو گویا مانگے کا سانڈ ہے۔
(سنن ابن ماجة‘ النکاح، حدیث:1936)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2309   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5261  
5261. سیدہ عاشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس کی بیوی نے کسی اور شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے خاوند نے بھی اسے طلاق دے دی۔ نبی ﷺ سے سوال کیا گیا: کیا پہلے شوہر کے لیے اب یہ عورت حلال ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5261]
حدیث حاشیہ:
موجودہ مروجہ حلالہ کی صورت قطعاً حرام ہے جس کے کرنے اور کرانے والوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5261   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5261  
5261. سیدہ عاشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس کی بیوی نے کسی اور شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے خاوند نے بھی اسے طلاق دے دی۔ نبی ﷺ سے سوال کیا گیا: کیا پہلے شوہر کے لیے اب یہ عورت حلال ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5261]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے بیک وقت تین طلاقیں دی تھیں، بلکہ متبادر یہی ہے کہ اس نے وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ یکبارگی تین طلاقیں دینے سے تو صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے جیسا کہ آئندہ ثابت ہوگا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تین طلاقیں جن سے بینونت کبریٰ عمل میں آتی ہے،ان میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،اگرچہ بہتر یہ ہے کہ ایک طلاق دے کر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ اپنی عدت پوری کرےتاہم وقفے وقفے سے طلاق کا نصاب پورا کیا جاسکتا ہے۔
تین طلاقوں کا مسئلہ"مسئلہ طلاق انتہائی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم اس سلسلے میں بہت غفلت کا شکار ہیں۔
جب بھی گھر میں کوئی ناچاقی سنگین صورت حال اختیار کرتی ہے تو ہم غصے میں آکر فوراً طلاق،طلاق، طلاق، کہہ دیتے ہیں یا طلاق ثلاثہ ایک ہی کاغذ پر لکھ کر اسے اپنے آپ پر حرام کرلیتے ہیں،پھر جب ہوش آتا ہے تو در،درکی خاک چھاننا شروع کردیتے ہیں۔
کچھ اہل علم کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بیک وقت دی ہوئی تین طلاقیں تینوں ہی نافذ ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے طلاق دینے والے کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے،پھر اس بیوی کو اس کے لیے حلال کرنے کی خاطر ننگ اخلاق،حیاسوز، بدنام زمانہ حلالہ کا مشورہ دیا جاتا ہے،جو نہ صرف بے شرمی اور بےحیائی ہے بلکہ مخالفین اسلام کو اس قسم کی ایمان شکن حرکات کی آڑ میں اسلام پر حملہ آور ہونے کا موقع ملتا ہے۔
اگر سوچہ جائے تو حلالہ تو طلاق دینے والے کا ہونا چاہیے تھا جس نے یہ حرکت کی ہے لیکن ہمارے ہاں عورت کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے اور اس کی عصمت وعزت کو داغدار کیا جاتا ہے،جبکہ حدیث میں حلالہ کرنے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے دونوں کو ملعون کہا گیا ہے۔
(سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2076)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ نکالنے والے کو کرائے کا سانڈ کہا ہے۔
(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1936)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ایسے حلالہ کرنے والے اور نکلوانے والے دونوں کو زنا کی سزا دی جائے گی۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/337)
بعض اوقات یہ بے بس لیکن غیرت مند عورت اس ظلم وزیادتی کا طلاق دینے والے اور اپنے رشتے داروں سے یوں انتقام لیتی ہے کہ رات ہی رات وہ حلالہ کرنے والے سے سیٹ ہوگئی اور اس نئے جوڑے نے عہدوپیمان کرلیا اور اپنے نکاح کو پائیدار کرلیا۔
اس طرح حلالہ نکلوانے والے کی سب امیدیں خاک میں ملادیں۔
ایسے واقعات آئے دن اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
بہرحال بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور ٹھکانے پر بیٹھ جاتا ہے۔
کتاب وسنت کے مطابق ایک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو،اب دوران عدت میں خاوند کو بلا تجدید نکاح رجوع کا حق ہے اور عدت گزارنے کے بعد بھی نئے نکاح سے رجوع ہوسکتا ہے۔
اس نئے نکاح کی چار شرائط حسب ذیل ہیں:
٭عورت کے سرپرست اس کی اجازت دیں۔
٭عورت بھی طلاق دینے والے کے ہاں رہنے پر آمادہ ہو۔
٭حق مہر بھی نئے سرے سے مقرر کیا جائے۔
٭گواہ بھی موجود ہوں۔
اگرچہ اس انداز سے طلاق دینا اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دےدیں،آپ کو جب اس بات کا علم ہوا تو غصے کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا:
"تم نے میری زندگی میں اللہ کے احکام سے کھیلنا شروع کردیا ہے۔
"آپ کی ناراضی کو دیکھ کر ایک شخص نے کہا:
اللہ کے رسول!آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسےقتل کردوں۔
(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)
اس انداز سے دی ہوئی طلاق کے رجعی ہونے کے دلائل حسب ذیل ہیں:
٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانۂخلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دوسالہ دور حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔
اس کے بعد لوگوں نے اس گنجائش سے غلط فائدہ اٹھانا شروع کردیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تأدیبی طور پر تین طلاقیں نافذ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3673 (1472)
واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام تعزیری تھا کیونکہ آپ عمر کے آخری حصے میں اپنے اس فیصلے پر اظہار افسوس فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حافظ ابن قیم نے محدث ابوبکر اسماعیلی کی تصنیف، مسندعمر،کے حوالے سے لکھا ہے۔
(إغاثۃ اللھفان: 1/336)
٭حضرت رکانہ بن عبدیزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دےدی۔
اس کے بعد انھیں اپنی بیوی کے فراق میں انتہائی افسوس ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب معاملہ پہنچا تو آپ نے انھیں بلایا اور دریافت فرمایا:
"طلاق کیسے دی تھی؟" انھوں نے کہا:
ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہ تو ایک رجعی طلاق ہے اگر چاہو تو رجوع کرلو۔
"چنانچہ انھوں نے رجوع کرکے دوبارہ اپنا گھر آباد کرلیا۔
(مسند احمد: 1/265)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسئلۂ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی اور کوئی تأویل نہیں ہوسکتی۔
(فتح الباری: 9/450)
قرآن وحدیث کا یہی فیصلہ ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہے،اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہ فتوی دیا جاتا ہے۔
والله المستعان.واضح رہے کہ ہمارے ہاں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے پر اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے،حالانکہ یہ دعوی بے بنیاد ہے۔
علمی دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ تطلیق ثلاثہ کے متعلق مندرجہ ذیل چارقسم کے گروہ پائے جاتے ہیں:
٭ پہلا گروہ سنت نبوی کو ہر زمانے میں معمول بہ جانتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو ہنگامی اور تعزیزی خیال کرتا ہے۔
ان کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کتاب وسنت سے ثابت کیا ہے۔
٭دوسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ واقعی دائمی ہے۔
ان کے نزدیک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں تینوں ہی نافذ العمل ہیں۔
پھر ان کی طرف سے بدنام زمانہ حلالہ کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
٭تیسرے گروہ کے نزدیک اس انداز سے دی ہوئی تین طلاقیں فضول اور خلاف سنت ہیں،لہٰذا ایک واقع نہیں ہوگی۔
ان کے ہاں ایسا کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت رد کے قابل ہوتی ہے۔
٭کچھ قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے نزدیک ایک غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دی جائیں تو ایک شمار ہوگی اور اگر مدخولہ کو دی جائیں تو تینوں نافذ ہوں گی۔
غور فرمائیں کہ جسے مسئلے میں اتنا اختلاف ہو کہ اس میں چار گروہ پائے جائیں اسے کس طرح اجماعی قرار دیا جاسکتا ہے!ہمارے رجحان کے مطابق ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا دور جاہلیت کی یادگار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر لوٹ آئی ہے۔
اس کا دروازہ سختی سے بند کرنا چاہیے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے بدنی سزا ہونی چاہیے تاکہ حلالے جیسے گندے اور بدترین اقدام کی حوصلہ شکنی ہو۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5261   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.