الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
33. بَابُ احْتِسَابِ الآثَارِ:
33. باب: (جماعت کے لیے) ہر ہر قدم پر ثواب ملنے کا بیان۔
(33) Chapter. Every step towards good deeds is rewarded.
حدیث نمبر: 656
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال مجاهد في قوله: ونكتب ما قدموا وآثارهم، قال خطاهم، وقال ابن ابي مريم: اخبرنا يحيى بن ايوب، حدثني حميد، حدثني انس، ان بني سلمة ارادوا ان يتحولوا عن منازلهم فينزلوا قريبا من النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يعروا المدينة، فقال: الا تحتسبون آثاركم؟ قال مجاهد: خطاهم آثارهم ان يمشى في الارض بارجلهم.(مرفوع) وَقَالَ مُجَاهِدٌ فِي قَوْلِهِ: وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ، قَالَ خُطَاهُمْ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ، أَنَّ بَنِي سَلِمَةَ أَرَادُوا أَنْ يَتَحَوَّلُوا عَنْ مَنَازِلِهِمْ فَيَنْزِلُوا قَرِيبًا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْرُوا الْمَدِينَةَ، فَقَالَ: أَلَا تَحْتَسِبُونَ آثَارَكُمْ؟ قَالَ مُجَاهِدٌ: خُطَاهُمْ آثَارُهُمْ أَنْ يُمْشَى فِي الْأَرْضِ بِأَرْجُلِهِمْ.
اور ابن ابی مریم نے بیان میں یہ زیادہ کہا ہے کہ مجھے یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنو سلمہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے مکان (جو مسجد سے دور تھے) چھوڑ دیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ رہیں۔ (تاکہ باجماعت کے لیے مسجد نبوی کا ثواب حاصل ہو) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کا اجاڑ دینا برا معلوم ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے؟ مجاہد نے کہا (سورۃ یٰسین میں) «وآثارهم» سے قدم مراد ہیں۔ یعنی زمین پر چلنے سے پاؤں کے نشانات۔

Mujahid said: "Regarding Allah's Statement: "We record that which they have sent before (them), and their traces" (36.12). 'Their traces' means 'their steps.' " And Anas said that the people of Bani Salima wanted to shift to a place near the Prophet but Allah's Apostle disliked the idea of leaving their houses uninhabited and said, "Don't you think that you will get the reward for your footprints." Mujahid said, "Their foot prints mean their foot steps and their going on foot."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 625


   صحيح البخاري656أنس بن مالكألا تحتسبون آثاركم
   صحيح البخاري1887أنس بن مالكألا تحتسبون آثاركم فأقاموا
   سنن ابن ماجه784أنس بن مالكألا تحتسبون آثاركم فأقاموا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث784  
´مسجد سے جو جنتا زیادہ دور ہو گا اس کو مسجد میں آنے کا ثواب اسی اعتبار سے زیادہ ہو گا۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے پرانے گھروں کو جو مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھے چھوڑ کر مسجد نبوی کے قریب آ رہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ویرانی کو مناسب نہ سمجھا، اور فرمایا: بنو سلمہ! کیا تم اپنے نشانات قدم میں ثواب کی نیت نہیں رکھتے؟، یہ سنا تو وہ وہیں رہے جہاں تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 784]
اردو حاشہ:
(1)
  رسول اللہ ﷺ نے انہیں مسجد نبوی کے قریب رہائش اختیار کرنے سے منع فرمایا تاکہ شہر کی سرحدیں محفوظ رہیں اور دشمن اچانک حملہ نہ کرسکیں۔

(2)
بنو سلمہ کا مقصد بھی نیک تھا لیکن ان کے رہائش تبدیل نہ کرنے میں مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ تھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انفرادی مفاد پر اجتماعی فائدے کو فوقیت حاصل ہے بشرطیکہ اس سے کوئی بڑی خرابی لازم نہ آتی ہو،
(3)
مسجد سے دور رہنے والوں کو بھی نماز باجماعت میں شریک ہونا لازم ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ انھیں گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 784   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 656  
656. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ بنوسلمہ قبیلے نے نقل مکانی کر کے نبی ﷺ کے قریب رہنے کا ارادہ کیا تو نبی ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا کہ وہ مدینے کو ویران کر دیں پھر آپ نے ان سے فرمایا: تم اپنے قدموں کے بدلے ثواب کے طلب گار کیوں نہیں ہو؟ امام مجاہد نے آثارهم کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے معنی زمین پر اپنے قدموں سے چلنے کے نشانات ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:656]
حدیث حاشیہ:
مدینہ کے قرب وجوار میں جومسلمان رہتے تھے ان کی آرزو تھی کہ وہ مسجد نبوی کے قریب شہر میں سکونت اختیار کرلیں۔
لیکن رسول کریم ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ تم لوگ جتنی دور سے چل چل کر آؤ گے اور یہاں نماز باجماعت ادا کرو گے ہر ہرقدم نیکیوں میں شمار کیا جائے گا۔
سورۃ یٰسین کی آیت کریمہ:
﴿إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ﴾ میں اللہ نے اسی عام اصول کو بیان فرمایا ہے کہ انسان کا ہر وہ قدم بھی لکھا جاتا ہے جو وہ اٹھاتا ہے۔
اگر قدم نیکی کے لیے ہے تو وہ نیکیوں میں لکھا جائے گا اور اگر برائی کے لیے کوئی قدم اٹھا رہا ہے تو وہ برائیوں میں لکھا جائے گا۔
مجاہد کے قول کو عبد بن حمید نے موصولاً روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 656   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:656  
656. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ بنوسلمہ قبیلے نے نقل مکانی کر کے نبی ﷺ کے قریب رہنے کا ارادہ کیا تو نبی ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا کہ وہ مدینے کو ویران کر دیں پھر آپ نے ان سے فرمایا: تم اپنے قدموں کے بدلے ثواب کے طلب گار کیوں نہیں ہو؟ امام مجاہد نے آثارهم کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے معنی زمین پر اپنے قدموں سے چلنے کے نشانات ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:656]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبیلۂ بنو سلمہ کے مکانات سلع پہاڑ کے پاس مسجد نبوی سے تقریباً ایک میل کی مسافت پر تھے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمارے گھر مسجد نبوی سے دور تھے۔
ہم نے ارادہ کیا کہ انھیں فروخت کرکے مسجد کے قریب اپنے گھر تعمیر کریں تاکہ نماز کے لیے آنے جانے میں سہولت ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس اقدام سے روک دیا اور فرمایا کہ تمھارے لیے ہر قدم کے عوض ایک درجہ بلند ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس لیے منع فرمایا کہ ایسا کرنے سے مدینہ منورہ کی سرحدیں غیر محفوظ ہونے کا اندیشہ تھا۔
اور قدموں کے بدلے نیکیاں ملنے کا ایک اضافی فائدہ تھا جس سے رسول اللہ ﷺ نے انھیں آگاہ فرما دیا، چنانچہ انھوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور طے کیا کہ اس جگہ کو چھوڑ کر مسجد کے قریب آباد نہیں ہوں گے۔
(فتح الباري: 183/2)
(2)
امام مجاہد کے اثر کو محدث عبد بن حمید نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے یہ اثر پیش کر کے اشارہ فرمایا ہے کہ بنو سلمہ کا مذکورہ واقعہ ہی ان آیات کا شان نزول ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت کی ہے۔
(سنن ابن ماجة، المساجد والجماعات، حدیث: 785) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی جتنی دور سے چل کر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے آئے گا، اسی قدر زیادہ اجر و ثواب سے نوازا جائے گا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری دور سے چل کر مسجد نبوی میں شریک جماعت ہوتا تھا، کسی نے اسے مشورہ دیا کہ تم کوئی سواری خرید لو تاکہ آنے جانے میں سہولت رہے۔
اس نے جواب دیا کہ مجھے پیدل چل کر آنے سے قدموں کے بدلے اللہ کے ہاں ثواب ملنے کی امید ہے۔
جب اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوا تو آپ نے فرمایا:
تیری نیت کے مطابق تجھے ضرور ثواب ملے گا۔
(سنن ابن ماجة، المساجد والجماعات، حدیث: 783)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مسجد کے قریب رہنے والا نمازی اگر چھوٹے چھوٹے قدم بھر کر مسجد آتا ہے تو اجرو ثواب کے اعتبار سے وہ دور سے چل کر آنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا۔
(فتح الباري: 183/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 656   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.