وكان ابن عمر يبدا بالعشاء، وقال ابو الدرداء: من فقه المرء إقباله على حاجته حتى يقبل على صلاته وقلبه فارغ.وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ، وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مِنْ فِقْهِ الْمَرْءِ إِقْبَالُهُ عَلَى حَاجَتِهِ حَتَّى يُقْبِلَ عَلَى صَلَاتِهِ وَقَلْبُهُ فَارِغٌ.
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ایسی حالت میں پہلے کھانا کھاتے تھے اور ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ عقلمندی یہ ہے کہ پہلے آدمی اپنی حاجت پوری کر لے تاکہ جب وہ نماز میں کھڑا ہو تو اس کا دل فارغ ہو۔
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى، عن هشام، قال: حدثني ابي، قال: سمعت عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" إذا وضع العشاء واقيمت الصلاة، فابدءوا بالعشاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شام کا کھانا سامنے رکھا جائے اور ادھر نماز کے لیے تکبیر بھی ہونے لگے تو پہلے کھانا کھا لو۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث935
´جب نماز کی اقامت ہو جائے اور کھانا سامنے ہو تو کیا کرے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب شام کا کھانا سامنے ہو اور نماز بھی تیار ہو تو پہلے کھانا کھاؤ۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 935]
اردو حاشہ: فائده: نماز سے پہلے کھانا کھا لینے کا حکم شدید بھوک ہی کی صورت میں ہے۔ بصورت دیگر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے گریز سخت نا مناسب ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 935
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:671
671. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر دوران اقامت میں کھانا سامنے رکھ دیا جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:671]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو دو مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے: ایک روایت میں اِذَا حَضَرَ ہے جس کے معنی ہیں: جب وہ حاضر اور تیار ہو۔ دوسری روایت میں ہے، اِذَا وُضِعَ ”جب اسے پیش کردیا جائے۔ “ چونکہ حَضَرَکے الفاظ میں زیادہ عموم ہے، لہٰذا اسےوُضِعَ کے معنی میں لیا جائے گا۔ اس تائید دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے جن کے الفاظ إذا قدم یا إذا قرب ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب کھانا موجود ہویا اسے بول وبراز مجبور کررہے ہوں تو ایسے حالات میں نماز نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1246(560) وفتح الباري: 280/2)(2) کھانے کو نماز پر مقدم کرنے کے سلسلے میں علماء وفقہاء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں: بعض علماء کہتے ہیں کہ جب کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ قلت طعام پرمحمول ہے کہ کھانا تھوڑا ہو اور کھانے والے زیادہ ہوں اور اندیشہ ہوکہ اگر نماز شروع کردی گئی تو کھانا ختم ہوجائے گا، ایسے حالات میں پہلے کھانا کھا لیا جائے، پھر نماز پڑھی جائے۔ ہمارے نزدیک بہتر توجیہ یہ ہے کہ مذکورہ اجازت اس وقت ہے جبکہ اشتغال قلب کا اندیشہ ہو، یعنی اگر کھانا نہ کھایا جائے تو نماز میں خیال کھانے کی طرف لگا رہے۔ اگر ایسی صورت ہوتو پہلے کھانا کھائے پھر نماز پڑھے۔ امام بخاری ؒ کا میلان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابو درداء ؓ کے مقولے میں اس بات کی صراحت ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان عنوان کے تحت دیے گئے آثار سے معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 20/2) والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 671