الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
21. بَابُ إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ:
21. باب: کوئی شخص لوگوں کے سامنے ایک بات کہے پھر اس کے پاس سے نکل کر دوسری بات کہے (تو یہ دغا بازی ہے)۔
(21) Chapter. If a person says something in the presence of some people and then goes out and says something different..
حدیث نمبر: 7111
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، قال: لما خلع اهل المدينة يزيد بن معاوية جمع ابن عمر حشمه وولده، فقال: إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة، وإنا قد بايعنا هذا الرجل على بيع الله ورسوله، وإني لا اعلم غدرا اعظم من ان يبايع رجل على بيع الله ورسوله ثم ينصب له القتال، وإني لا اعلم احدا منكم خلعه، ولا بايع في هذا الامر إلا كانت الفيصل بيني وبينه".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَر حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي لَا أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ لَهُ الْقِتَالُ، وَإِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنْكُمْ خَلَعَهُ، وَلَا بَايَعَ فِي هَذَا الْأَمْرِ إِلَّا كَانَتِ الْفَيْصَلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خادموں اور لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر غدر کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص (یزید) کی بیعت، اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے اور میرے علم میں کوئی غدر اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کسی شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے اور پھر اس سے جنگ کی جائے اور دیکھو مدینہ والو! تم میں سے جو کوئی یزید کی بیعت کو توڑے اور دوسرے کسی سے بیعت کرے تو مجھ میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں رہا، میں اس سے الگ ہوں۔

Narrated Nafi`: When the people of Medina dethroned Yazid bin Muawiya, Ibn `Umar gathered his special friends and children and said, "I heard the Prophet saying, 'A flag will be fixed for every betrayer on the Day of Resurrection,' and we have given the oath of allegiance to this person (Yazid) in accordance with the conditions enjoined by Allah and His Apostle and I do not know of anything more faithless than fighting a person who has been given the oath of allegiance in accordance with the conditions enjoined by Allah and His Apostle , and if ever I learn that any person among you has agreed to dethrone Yazid, by giving the oath of allegiance (to somebody else) then there will be separation between him and me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 227


   صحيح البخاري7111عبد الله بن عمرينصب لكل غادر لواء يوم القيامة لا أعلم غدرا أعظم من أن يبايع رجل على بيع الله ورسوله ثم ينصب له القتال إني لا أعلم أحدا منكم خلعه ولا بايع في هذا الأمر إلا كانت الفيصل بيني وبينه
   صحيح البخاري3188عبد الله بن عمرلكل غادر لواء ينصب لغدرته يوم القيامة
   صحيح البخاري6177عبد الله بن عمرالغادر يرفع له لواء يوم القيامة يقال هذه غدرة فلان بن فلان
   صحيح البخاري6178عبد الله بن عمرالغادر ينصب له لواء يوم القيامة فيقال هذه غدر
   صحيح البخاري6966عبد الله بن عمرلكل غادر لواء يوم القيامة يعرف به
   صحيح مسلم4532عبد الله بن عمرلكل غادر لواء يوم القيامة
   صحيح مسلم4531عبد الله بن عمرالغادر ينصب الله له لواء يوم القيامة فيقال ألا هذه غدرة فلان
   صحيح مسلم4529عبد الله بن عمرإذا جمع الله الأولين والآخرين يوم القيامة يرفع لكل غادر لواء فقيل هذه غدرة فلان بن فلان
   جامع الترمذي1581عبد الله بن عمرالغادر ينصب له لواء يوم القيامة
   سنن أبي داود2756عبد الله بن عمرالغادر ينصب له لواء يوم القيامة فيقال هذه غدرة فلان بن فلان
   المعجم الصغير للطبراني753عبد الله بن عمرما من غادر إلا وله لواء يوم القيامة يعرف به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2756  
´عہد و پیمان کو نبھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2756]
فوائد ومسائل:
یعنی ایسے شخص کو رسوا کیا جائے گا۔
اوراعلان کیا جائے گا۔
کہ یہ اس دھوکے باز کا انجام ہے۔
عہد وپیمان دو افراد کے درمیان ہو۔
یا دو قوموں کے درمیان مسلمانوں کے ساتھ ہو یا کافروں کے ساتھ بد عہدی دنیا اور آخرت میں رسوائی کا باعث ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2756   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7111  
7111. سیدنا نافع سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے خادموں اور بیٹوں کو جمع کیا اور کہا: بے شک میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائےگا۔ ہم نے اس شخص کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے۔ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی غداری نہیں کہ ایک شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے، پھر اس کے خلاف لڑائی کھڑی کر دی جائے۔ دیکھو! تم میں سے جو کوئی اس کی بیعت توڑے گا اور کسی دوسرے کی بیعت کرے گا تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7111]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ پہلے مدینہ والوں نے یزید کو اچھا سمجھا تو اس سے بیعت کرلی تھی پھر لوگوںکو اس کے دریافت حال کرنے کے بعد یزید کے نائب بن محمد ابن ابی سفیان کو مدینہ سے نکال دیا اور یزید کی بیعت توڑ دی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7111   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7111  
7111. سیدنا نافع سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے خادموں اور بیٹوں کو جمع کیا اور کہا: بے شک میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائےگا۔ ہم نے اس شخص کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے۔ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی غداری نہیں کہ ایک شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے، پھر اس کے خلاف لڑائی کھڑی کر دی جائے۔ دیکھو! تم میں سے جو کوئی اس کی بیعت توڑے گا اور کسی دوسرے کی بیعت کرے گا تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7111]
حدیث حاشیہ:

واقعہ حرہ کا پس منظر بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ کر حکومت وقت سے بغاوت کر دی تھی، اس لیے ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کے متعلق کچھ گزارشات پیش کریں:
الف۔
حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میری امت کا وہ لشکر جو قیصر کے دارالحکومت پر پہلے حملہ آور ہوگا وہ اللہ کے ہاں مغفرت یافتہ ہے۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر۔
حدیث: 2924)

تاریخی طور پریہ بات ثابت ہے کہ 49 ہجری میں رومی پایہ سلطنت قسطنطنیہ پر پہلی مرتبہ چڑھائی کرنے والا مسلمانوں کا وہ لشکر تھا جس کا سربراہ یزید بن معاویہ تھا۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1186)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
قسطنطنیہ پر پہلی چڑھائی کرنے والے لشکر کے سپہ سالار یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
چونکہ معین تعداد کو لشکر کہا جاتا ہے، اس لیے اس فوج کا ہر ہرفرد بشارت مغفرت میں شریک ہے۔
(منھاج السنة: 252/2)
اس لشکرمیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، میزبان رسول حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر اساطین صحابہ شریک تھے۔

جب ایک بدبخت عبدالرحمٰن بن ملجم کے ہاتھوں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دیے گئے تو 41 ہجری میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کی شرط پر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی۔
تاریخ میں یہ سال "عام الجماعة" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
چونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساڑھے چار سالہ دورحکومت، اندرونی خلفشار اور باہمی کشت وخون کی نذر ہوا تھا اس دور میں نہ تو کفار سے جہاد ہوا اور نہ اسلامی فتوحات اور خدمات ہی میں اضافہ ہوا بلکہ دو مرتبہ ہلاکت خیز خانہ جنگی کی صورت میں خون مسلم کی ارزانی ہوئی، اس لیے پیش بندی کے طور پر 50 ہجری میں کوفے کے گورنر، تجربہ کار اور عمررسیدہ صحابی جلیل سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دمشق آ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ تجویز دی کہ آپ اپنی زندگی میں ہی کسی شخص کو ولی عہد مقرر کر دیں تاکہ حصول اقتدار کی خاطر ممکنہ رسہ کشی کا سد باب ہوسکے اور انتشار پسند عناصر کو شرانگیزی کا بھی موقع نہ مل سکے۔
جانشین کے لیے انھوں نے آپ کے بیٹے یزید کا نام پیش کیا۔
لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی رائے سے فوری طور پر اتفاق نہ کیا بلکہ انھوں نے تمام صوبوں کے نمائندہ اجلاس پر موقوف رکھا چنانچہ اسی سال دمشق میں اجلاس ہوا جس میں اسلامی مملکت کے تمام معززین نمائندگان نے شرکت کی، اس میں یزید کی ولی عہدی پرغور ہوا، بالآخر اس تحریک کو اکثریت کی حمایت حاصل رہی لیکن کسی طرح آپ کو معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کے کچھ لوگ یزید کی ولی عہدی سے خوش نہیں ہیں، اس لیے آپ نے گورنر مدینہ مروان بن حکم کو خط لکھا کہ وہ اکابرمدینہ کو جمع کریں اور ان کی رائے معلوم کر کے ہمیں مطلع کریں، چنانچہ مروان بن حکم نے مدینہ طیبہ میں ایک اجلاس کیا جس میں اکابر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ نے شرکت کی بلکہ اس اجلاس میں اس اہم قومی معاملے میں مشاورت کے لیے امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی تشریف فرما تھیں۔
اس اجلاس میں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی بھی قابل ذکر شخصیت نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں کیا۔
اس کی تفصیل صحیح البخاری حدیث 4827 میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بہرحال یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولی عہدی کا فیصلہ ہوگیا اور تمام علاقہ کے لوگوں نے ان کی ولی عہدی کے متعلق بیعت کی۔
(البدایة والنھایة: 79/7)
ولی عہدی کی بیعت مکمل ہونے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعاکی:
اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کے فضل وکمال کی وجہ سے اپنا ولی عہد بنایا ہے تو اسے بلند مقام پر پہنچا جس کی مجھے اس سے اُمید ہے اور اگر اس بات پر مجھے اس محبت نے آمادہ کیا جو ایک باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے اور وہ اس منصب کا اہل نہیں ہے تو اسے منصب تک پہنچنے سے پہلے ہی موت دے دے۔
(تاریخ الإسلام للذھبي: 267/2)

امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنانے کے دس سال بعد تک زندہ رہے، آخر 22 رجب 60 ہجری بروز جمعرات دمشق میں فوت ہوئے اور ان کی نماز جنازہ یزید نے پڑھائی۔
دس سالہ ولی عہدی کے دوران میں آپ تین سال متواتر امارت حج کے عہدے پر فائز رہے۔
ان کی زیر امارت حج کے دوران میں بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ نے حج کیا اور آپ کی امامت ہی میں نماز پنجگانہ ادا کیں۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یزید بن معاویہ نے 51۔
52۔
53۔
ہجری میں لوگوں کو حج کرایا۔
(البدایة والنھایة: 229/8)
امارت حج کے علاوہ اس دوران میں انھوں نے متعدد ملکی وملی خدمات سرانجام دیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد باضابطہ طورپر نئے سرے سے پوری اسلامی ریاست میں آپ کی بیعت امارت ہوئی جس کا آغاز وفاقی دارالحکومت شام کے مرکزی شہر دمشق میں ایک اجتماع عام سے ہوا، پھر ہر علاقے میں تعینات گورنروں کے ہاتھ ان کے لیے بیعت امارت کا انعقاد کیا گیا۔
تاریخ میں صرف سعد بن حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ملتے ہیں جنھوں نےاس بیعت امارت میں شمولیت نہیں کی۔
ان کے علاوہ کبار صحابہ نے بیعت امارت میں عملاً حصہ لیا، البتہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیاست سے قطعاً کنارہ کش تھے حتی کہ جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کا اعلان کیا تو ان سے بھی بیعت نہیں کی۔
ان کے علاوہ چھوٹے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دوچار دس بیس نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔
۔
۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
۔
۔

یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری ایام میں واقعہ حرہ پیش آیا۔
اس کا پس منظر اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ دمشق میں یزید کے پاس گئے تاکہ انھیں ان کے کردار کا پتاچلے۔
وہاں ان کی خوب مہمان نوازی ہوئی، خاطر مدارات کی گئی۔
واپس آکر انھوں نے بتایا کہ یزید شراب نوشی اورزناکاری میں مبتلا ہے اور مدینے کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملائے بغیر علم بغاوت بلند کر دیا اور امیر مدینہ عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو وہاں سے نکال دیا گیا۔
بیعت توڑنے والوں میں عبداللہ بن حنظلہ اور عبداللہ بن مطیع پیش پیش تھے، چنانچہ عبداللہ بن مطیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت محمد بن علی بن ابی طالب جو ابن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں کے پاس گئے اور ان سے بیعت توڑ دینے کی درخواست کی لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
ابن مطیع نے کہا:
یزید شراب پیتا ہے، نماز نہیں پڑھتا اور کتاب اللہ کے احکام کی پروانہیں کرتا۔
محمد بن علی نے جواب دیا:
میں یزید سے خود ملا ہوں، ان کے ساتھ رہا ہوں، میں نے کوئی ایسی بات نہیں دیکھی بلکہ میں نے انھیں ہمیشہ نماز کا پابند، خیر کا متلاشی، فقہ کا مسائل اور سنت کا متبع پایا ہے۔
(البدایة والنھایة: 233/8)
بہرحال بیعت توڑنے والوں نے مدینہ طیبہ کے تین طرف خندق کھودی اور چوتھی طرف انصار کے اسی محلے کو حصار سمجھ لیا جو ان کے ہمنوا نہیں تھا۔
جب یزید کو اس کی اطلاع ملی توانھوں نے مسلم بن عقبہ کی کمان سے ایک فوج بھیجی اور انھیں حکم دیا کہ پہلے ان لوگوں پر امان پیش کریں اگر نہ مانیں تو ان سے جنگ کریں، چنانچہ انھوں نے ان کی ہدایات کے مطابق عمل کیا۔
جب اہل مدینہ نے انکار کیا تو انصار کے بڑے گھرانے بنواشہل کے تعاون سے فوج شہر میں داخل ہوئی اور گنتی کے چند گھنٹوں میں شہر پر قبضہ ہوگیا۔
اس کے بعد مؤرخین نے دیومالائی انداز میں اس واقعے کی تفصیلات خود مرتب کی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق ایک اسلامی سربراہ کی بیعت توڑنے کے جو شرعی تقاضے ہیں اہل مدینہ نے انھیں ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس سے مراد شاید ان لوگوں کی طرف سے اشارہ ہے جو دمشق میں سربراہ حکومت کے پاس گئے اور وہاں سے واپس آکر خلاف واقعہ باتیں بیان کیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت توڑنے کے متعلق جس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے بغاوت کے لیے جس چیز کو پیش کیا وہ شریعت کے مطابق نہ تھی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ حکومت میں جب حرہ کا واقعہ پیش آیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ بن مطیع کے پاس گئے تو انھوں نے کہا:
ابوعبدالرحمان کے لیے مسند لاؤ۔
آپ نے فرمایا:
میں تمہارے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ حدیث بیان کرنے آیا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اطاعت کا عہد کرنے کے بعد اسے توڑ دیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح حاضر ہوگا کہ اس کے پاس کوئی حجت اوردلیل نہیں ہوگی اور اگرایسی حالت میں وہ مرگیا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4793(1851)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس امام کی حکمرانی پر امت کا اجماع ہو اس کی بیعت لازم اور اس کے خلاف خروج حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ اس بغاوت میں حصہ لینے والوں کو معاف فرمائے اور قیامت کے دن ہم سب کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7111   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.