(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا ابو الزناد، عن القاسم بن محمد، قال: ذكر ابن عباس المتلاعنين، فقال عبد الله بن شداد: اهي التي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو كنت راجما امراة من غير بينة؟، قال: لا تلك امراة اعلنت".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: ذَكَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا امْرَأَةً مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ؟، قَالَ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ أَعْلَنَتْ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دو لعان کرنے والوں کا ذکر کیا تو اس پر عبداللہ بن شداد نے پوچھا: کیا یہی وہ ہیں جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”اگر میں کسی عورت کو بغیر گواہ کے رجم کر سکتا تو اسے کرتا۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں وہ ایک (اور) عورت تھی جو (اسلام لانے کے بعد) کھلے عام (فحش کام) کرتی تھی۔
Narrated Al-Qasim bin Muhammad: Ibn `Abbas mentioned the case of a couple on whom the judgment of Lian has been passed. `Abdullah bin Shaddad said, "Was that the lady in whose case the Prophet said, "If I were to stone a lady to death without a proof (against her)?' "Ibn `Abbas said, "No! That was concerned with a woman who though being a Muslim used to arouse suspicion by her outright misbehavior." (See Hadith No. 230, Vol.7)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 90, Number 344
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2560
´کوئی عورت فاحشہ معلوم ہو لیکن زنا ثابت نہ ہو تو اس کے حکم کا بیان۔` قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا، تو ان سے ابن شداد نے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو اس عورت کو کرتا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ تو ایسی عورت تھی جو علانیہ بدکار تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2560]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) سنگسار کرنا سخت ترین سزائے موت ہے لہٰذایہ سزا اسوقت تک نہیں دی جا سکتی جب تک جرم کا ارتکاب بغیر کسی شک شبہ کے ثابت نہ ہوجائے۔
(2) جرم کے ثبوت کے لیے چرم چشم دید مرد گواہوں ہونا ضروری ہے یا مجرم خود اعتراف کرلے یا دیگر قرآن سے اس کا ثبوت مل جائے تب اسے زنا کی سزا دی جا سکتی ہے۔
(3) مشکوک كردار کے افراد كو تنبیہ کی جا سکتی ہے یا مناسب تعزیر لگائی جا سکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2560
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7238
7238. سیدنا قاسم بن محمد سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابن عباس ؓ نے دو لعان کرنے والوں کا ذکر کیا تو سیدنا عبداللہ بن شداد ؓ نے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”اگر میں کسی عورت کو بغیر گواہ رجم کرتا تو اسے کرتا۔“ سیدنا ابن عباس ؓ نے جواب دیا: نہیں، وہ ایک عورت تھی جو کھلے عام فحش کاری کرتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7238]
حدیث حاشیہ: مگر قاعدے سے ثبوت نہ تھا یعنی چار عینی گواہ نہیں تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7238
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7238
7238. سیدنا قاسم بن محمد سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابن عباس ؓ نے دو لعان کرنے والوں کا ذکر کیا تو سیدنا عبداللہ بن شداد ؓ نے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”اگر میں کسی عورت کو بغیر گواہ رجم کرتا تو اسے کرتا۔“ سیدنا ابن عباس ؓ نے جواب دیا: نہیں، وہ ایک عورت تھی جو کھلے عام فحش کاری کرتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7238]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک حدیث میں ہے: ”جس چیز سے تمھیں حقیقی نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور مایوس ہوکر نہ بیٹھ جاؤ۔ اگر تمھیں کوئی نقصان پہنچے تو اس طرح نہ کہو: اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ یوں کہو کہ اللہ کا فیصلہ تھا وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔ تحقیق "اگرمگر" کے الفاظ شیطان کے کردار کا دروازہ کھولتے ہیں۔ “(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6774(2664) 2۔ اس حدیث میں لفظ لوکا استعمال کرنا منع ہے جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے استعمال کیا ہے توجہاں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوتو وہ منع ہے اور اگر کوئی فائدہ ہو تو اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے فوت ہو جانے پر اظہار افسوس کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7238