الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
زکوٰۃ کے مسائل
ज़कात के नियम
1. (أحاديث في الزكاة)
1. (زکوٰۃ کے متعلق احادیث)
१. “ ज़कात के बारे में हदीसें ”
حدیث نمبر: 488
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن بهز بن حكيم عن ابيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏في كل سائمة إبل في اربعين بنت لبون لا تفرق إبل عن حسابها من اعطاها مؤتجرا بها فله اجرها ومن منعها فإنا آخذوها وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا لا يحل لآل محمد منها شيء» .‏‏‏‏ رواه احمد وابو داود والنسائي وصححه الحاكم وعلق الشافعي القول به على ثبوته.وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏في كل سائمة إبل في أربعين بنت لبون لا تفرق إبل عن حسابها من أعطاها مؤتجرا بها فله أجرها ومن منعها فإنا آخذوها وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا لا يحل لآل محمد منها شيء» .‏‏‏‏ رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه الحاكم وعلق الشافعي القول به على ثبوته.
سیدنا بہز بن حکیم رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چرنے والے تمام اونٹوں میں چالیس پر ایک، دو سالہ اونٹنی ہے اور اونٹوں کو ان کے حساب سے جدا نہ کیا جائے گا اور جو شخص حصول ثواب کی نیت سے زکٰوۃ ادا کرے گا اس کو اس کا ثواب بھی ملے گا اور جس نے زکٰوۃ روک لی تو ہم زکٰوۃ زبردستی وصول کریں گے اور اس کا کچھ مال بھی، ہمارے پروردگار کے فرائض میں سے ایک لازمی حصہ ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے حلال نہیں ہے۔
اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور شافعی نے اس کے ثابت ہونے پر اپنے قول کو معلق رکھا ہے۔
हज़रत बहज़ बिन हकीम रहम अल्लाह अपने पिता से और वह अपने दादा से रिवायत करते हैं कि रसूल अल्लाह अलयह वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ चरने वाले सारे ऊँटों में चालीस पर एक, दो साला ऊँटनी है और ऊँटों को उन के हिसाब से अलग न किया जाए गा और जो व्यक्ति सवाब पाने की नियत से ज़कात देगा उस को इस का सवाब भी मिले गा और जिस ने ज़कात रोक ली तो हम ज़कात ज़बरदस्ती वसूल करेंगे और उस का कुछ माल भी, हमारे परवरदिगार के फ़र्ज़ में से एक ज़रूरी भाग है, इन में से कोई चीज़ भी आले मुहम्मद (परिवार) सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के लिये हलाल नहीं है । ‘‘
इसे अहमद, अबू दाऊद और निसाई ने रिवायत किया है और हाकिम ने इसे सहीह ठहराया है और शाफ़ई ने इस के पक्के होने पर अपने क़ौल को मुअल्लक़ रखा है ।

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1575، والنسائي، الزكاة، حديث:2451، وأحمد: 5 /2، 4، والحاكم:1 /398.»

Bahz bin Hakam narrated on the authority of his father, who reported on the authority of his grandfather (RAA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “For every forty camels, one ‘bint labun’ (a young female camel which is two years old and already starting the third year), is due as Zakah. No camel is to be separated from the rest of the camels (i.e. the jointly owned live stock as mentioned above). Whoever gives it willingly, seeking his reward from Allah, will be rewarded. (However) if someone refrains from paying it, it will be taken from him (by force) along with part of his property (as punishment), for it is a right of Allah. None of it is lawful for the family of Muhammad (ﷺ)." Related by Ahmad, An-Nasa’i, Abu Dawud and Al-Hakim rendered it Sahih. And Ash-Shafi'ee conditioned ruling by it depending on its authenticity.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: حسن

   سنن أبي داود1575معاوية بن حيدةفي كل سائمة إبل في أربعين بنت لبون ولا يفرق إبل عن حسابها من أعطاها مؤتجرا قال ابن العلاء مؤتجرا بها فله أجرها ومن منعها فإنا آخذوها وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا ليس لآل محمد منها شيء
   سنن النسائى الصغرى2446معاوية بن حيدةفي كل إبل سائمة في كل أربعين ابنة لبون لا يفرق إبل عن حسابها من أعطاها مؤتجرا فله أجرها ومن أبى فإنا آخذوها وشطر إبله عزمة من عزمات ربنا لا يحل لآل محمد منها شيء
   سنن النسائى الصغرى2451معاوية بن حيدةفي كل إبل سائمة من كل أربعين ابنة لبون لا تفرق إبل عن حسابها من أعطاها مؤتجرا له أجرها ومن منعها فإنا آخذوها وشطر إبله عزمة من عزمات ربنا لا يحل لآل محمد منها شيء
   بلوغ المرام488معاوية بن حيدةفي كل سائمة إبل في اربعين بنت لبون لا تفرق إبل عن حسابها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 488  
´اونٹوں میں زکاۃ کا نصاب`
سیدنا بہز بن حکیم رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چرنے والے تمام اونٹوں میں چالیس پر ایک، دو سالہ اونٹنی ہے اور اونٹوں کو ان کے حساب سے جدا نہ کیا جائے گا . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 488]
لغوی تشریح:
«سَائِمَةِ اِبِلٍ» «سائمة»، «ابل» کی طرف مضاف ہے۔
«فِي اَرْبَعْينَ بِنْتُ لَبُونٍ» یعنی فی الجملہ چالیس میں بنت لبون دو سالہ اونٹنی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو پہلے گزر چکی ہے 36 سے 45 تک میں ایک بنت لبون کا ذکر ہے اور اس حدیث میں چالیس کی تعداد، اس وقت مراد ہے جب ایک سو بیس سے اونٹ زیادہ ہوں تو پھر چالیس پر بنت لبون ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تفصیل موجود ہے، یا یہ کہ 40 کی تعداد بھی 36 سے 45 کے مابین ہے۔ ان دونوں کے مابین جتنے اونٹ ہوں 40 ہوں یا اس سے کم و بیش ان پر زکاۃ۔ یہ مفہوم ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں منطوق مروی ہے، اس لیے اعتبار منطوق روایت کا ہے۔ اور محض 40 کے عدد کا مفہوم مراد نہیں ہے
«لَايُفَرَّقُ» «تفريق» سے ماخوذ صیغہ مجہول ہے، یعنی الگ الگ اور جدا جدا نہیں کیا جائے گا۔
«اِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا» اس کے معنی ہیں کہ مالک اپنی ملکیت کی چیزوں کو دوسرے کی ملکیت سے الگ نہ کرے جبکہ دونوں کے مویشی اکٹھے ہوں جیسا کہ اس سے پہلے اس کا ذکر ہو چکا ہے، یا یہ معنی ہوں گے کہ تمام اونٹوں کو چالیس کے حساب سے شمار کیا جائے، اس صورت میں نہ مریل اور کمزور کو چھوڑا جائے گا نہ کسی فربہ کو، نہ چھوٹے کو اور نہ بڑے کو۔
«مُوْتَجِراً بِهَا» حصول اجر و ثواب کے ارادے سے انہیں زکاۃ میں دینے والا۔
«وَمَنْ مَّنَعَهَا» اور جس نے نہ دیا۔
«فَاِنَّا اَخِذُوهَ» ا تو ہم اسے بزور اور زبردستی وصول کریں گے۔
«وَشَطُرَ مَالِهِ» یعنی کچھ مال یا آدھا مال، زکاۃ نہ دینے کی سزا کے طور پر۔ اس کا عطف «اَخِذُوهَا» کی ضمیر مجرور پر ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ تشطیر سے ماضی مجہول کا صیغہ یعنی «شُطّرَ» ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس کے مال کو عامل دو نصف حصوں میں تقسیم کر دے اور بہترین حصہ خود وصول کر لے۔
«عَزْمَةً» رفعی حالت میں یہ مبتدا محذوف کی خبر ہو گی اور نصب کی صورت میں فعل محذوف کا مفعول مطلق ہو گا۔ مطلب یہ ہو گا کہ یہ فریضہ ہے اور واجب حق ہے۔
«مِنْ عَزَمَاتِ رَبُّنَا» اللہ تعالیٰ کے حقوق و واجبات میں سے ہے۔
«لَايَحِلُّ لِاَلِ مُحَمَّدٍ . . . الخ» آل محمد کے لیے یہ حلال نہیں۔ آل محمد سے کیا مراد ہے؟ ایک قول یہ ہے کہ اس سے بنوہاشم، اور آل حارث بن عبدالمناف مراد ہیں۔
«وَعَلَّقَ الشَّافِعِيُ» تعلیق سے ماخوذ ہے۔
«اَلَقُوْلَ بَهِ»، یعنی اس حدیث کے ساتھ۔ مطلب یہ ہے کہ زکاۃ نہ دینے والے سے اس کا نصف مال بطور سزا لے لیا جائے گا۔
«عَلٰي تُبُوتِهِ» امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ثبوت پر اپنا قول معلق رکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اہل علم نے ثابت نہیں مانا، اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے تو میرا قول اس کے مطابق ہے کیونکہ اس کا دارومدار بہز بن حکیم پر ہے اور اس پر کلام ہے۔ اور کسی دوسری صحیح میں زکاۃ نہ دینے والے سے مقدار زکاۃ سے زائد مال بطور جرمانہ وصول کرنے کا ذکر نہیں۔

راوی حدیث:
بہز بن حکیم رحمہ اللہ، ابوعبدالملک ان کی کنیت ہے۔ بہز کی با پر فتحہ اور با ساکن ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: بھز بن حکیم بن معاویۃ بن حیدہ۔ حیدہ کی حا پر فتحہ، یا ساکن اور دال پر فتحہ ہے قشیری (تصغیر کے ساتھ) اور بصری ہیں۔ طبقہ سادسہ کے تابعی ہیں۔ ان کی حدیث سے استدلال کرنے میں اختلاف ہے۔ امام ابوداود رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ان کی احادیث صحیح ہیں۔ امام ابن معین، امام ابن مدینی اور امام نسائی رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے لیکن امام ابوحاتم رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ بہت غلطیاں کرتے تھے۔ 140 ہجری کے بعد وفات پائی اور ایک روایت کے مطابق 160 ہجری سے پہلے۔
«عَنْ اَبِيهِ» یعنی حکیم بن معاویہ، یہ بھی تابعی ہیں۔ ابن حبان نے انہیں ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔
«عَنْ جَدَّهِ» معاویہ بن حیدہ بن معاویہ بن قشیر بن کعب قشیری رضی اللہ عنہ۔ صحابیت کے شرف سے مشرف ہوئے۔ بصرہ میں سکونت اختیار کی۔ ان سے کئی احادیث منقول ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 488   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1575  
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چرنے والے اونٹوں میں چالیس (۴۰) میں ایک (۱) بنت لبون ہے، (زکاۃ بچانے کے خیال سے) اونٹ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہ کئے جائیں، جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو اسے روکے گا ہم اس سے اسے وصول کر لیں گے، اور (زکاۃ روکنے کی سزا میں) اس کا آدھا مال لے لیں گے، یہ ہمارے رب عزوجل کے تاکیدی حکموں میں سے ایک تاکیدی حکم ہے، آل محمد کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1575]
1575. اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس میں یہ ارشاد ہے کہ مانع زکوۃ سے پوری زکوۃ اور اس کا نصف مال بطور جرمانہ لیا جائے گا۔
➋ صدقہ وزکوۃ نبی ﷺ اور آپ کی آل کے لیے حلال نہ تھا۔ اسے لوگوں کی میل قرار دیا گیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ «ان هذهِ الصدقةَ إنما هِىَ أوساخُ الناسِ‘ و إنها لاتحلُّ لمحمدٍ ولا لآلِ محمدٍ» [سنن أبي داود‘ الخراج‘ حدیث:2985) یہ صدقہ تو لوگوں کی میل ہوتا ہے اور یہ محمد (ﷺ) اور آل محمد کےلیےحلال نہیں ہے۔ اور آپ ﷺ کی آل میں آپ کی جمیع ازواج اور جمیع اولاد کے علاوہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عیاس ؓ شامل ہیں۔ اور حرمت صدقہ میں آپ کے موالی کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی مفہوم کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم‘ الزکوة‘ حدیث:(1072]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1575   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.