وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده رضي الله عنهم ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال في كنز وجده رجل في خربة: «إن وجدته في قرية مسكونة فعرفه وإن وجدته في قرية غير مسكونة ففيه وفي الركاز الخمس» اخرجه ابن ماجه بإسناد حسن.وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال في كنز وجده رجل في خربة: «إن وجدته في قرية مسكونة فعرفه وإن وجدته في قرية غير مسكونة ففيه وفي الركاز الخمس» أخرجه ابن ماجه بإسناد حسن.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خزانے کے بارے میں جو کسی آدمی کو ویرانے سے حاصل ہوا ہو (ملا ہو) فرمایا ”اگر تو نے یہ خزانہ کسی آباد جگہ سے پایا ہے تو اس کی تحقیق کیلئے اعلان کرو اور اگر تو نے کسی غیر آباد جگہ سے پایا ہے تو اس میں اور معدنیات میں (پانچواں حصہ) ہے۔“ اسے ابن ماجہ نے حسن سند سے نکالا ہے۔
हज़रत अमरो बिन शोएब रहम अल्लाह अपने पिता से और वह अपने दादा से रिवायत करते हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने उस ख़ज़ाने के बारे में जो किसी आदमी को वीराने से मिला हो फ़रमाया ! “अगर तू ने ये ख़ज़ाना किसी आबादी वाली जगह से पाया है तो उस की जाँच पड़ताल के लिये एलान करो और अगर तू ने किसी वीरान जगह से पाया है तो इस में और धातु में (पांचवां भाग) है ।” इसे इब्न माजा ने हसन सनद से निकाला है ।
تخریج الحدیث: «قال المؤلف "أخرجه ابن ماجه" ولم أجده، وأخرجه أبوداود، اللقطة، حديث:1710، وصححه الحاكم:2 /56، ووافقه الذهبي.»
'Amro bin Shu'aib narrated on the authority of his father, who reported on the authority of his grandfather (RAA) that the Messenger of Allah (ﷺ) was asked about a treasure that was found by a man in some ruined land, and he said to him, “If you found it in an inhabited village, then you must advertise its having been found. However, if he found it in an uninhabited village, then on it and the rest of the discovered treasure one fifth is payable as Zakah.” Related by Ibn Majah with a reliable chain of narrators.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 503
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)` سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خزانے کے بارے میں جو کسی آدمی کو ویرانے سے حاصل ہوا ہو (ملا ہو) فرمایا ”اگر تو نے یہ خزانہ کسی آباد جگہ سے پایا ہے تو اس کی تحقیق کیلئے اعلان کرو اور اگر تو نے کسی غیر آباد جگہ سے پایا ہے تو اس میں اور معدنیات میں (پانچواں حصہ) ہے۔“ اسے ابن ماجہ نے حسن سند سے نکالا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 503]
لغوی تشریح: «فِي خَرِبَةِ»”خا“ پر فتحہ اور ”را“ کے نیچے کسرہ ہے۔ شکستہ بے آباد مقام جہاں کوئی نہ رہتا ہو۔ «فِي قَرْيَةٍ مَسْكُوْنَةٍ» جہاں لوگ آباد ہوں، یعنی یہ ویران اور بے آباد جگہ، آبادی والے علاقے میں ہو۔ «فَعَرَّفْهُ» تعریف (تفیعل) سے امر کا صیغہ ہے، تو لوگوں میں اس کا اعلان کرو اور اس کی کیفیت بیان کرو حتٰی کہ اس کا مالک آ جائے اور یا پھر اس پر پورا سال گزر جائے۔ ایسی صورت میں تمھارے لیے اس کا کھانا صحیح اور درست ہے، بہرحال اس خزانے کی نوعیت گری پڑی چیز کی سی ہو گی۔ «وَاِنْ وَجَدْتَهُ فِي قَرْيَةٍ غَيْرَ مَسْكُونَةٍ» یعنی اگر تو اسے غیر آباد جگہ میں پائے تو اس کا حکم رکاز کے حکم جیسا ہو گا۔ یا یوں کہیے کہ دونوں کے حکم کی نوعیت اموال غنیمت کے حکم جیسی ہو گی۔ «وَفِي الرِّكَازِ» میں موجود ”واؤ“ عطف اس بات کی متقاضی ہے کہ جب خزانہ زمین کے پیٹ سے نہ نکالا جائے تو اسے رکاز نہیں کہتے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 503