عن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فتوضا فاهويت لانزع خفيه فقال:«دعهما فإني ادخلتهما طاهرتين» فمسح عليهما. متفق عليه.عن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فتوضأ فأهويت لأنزع خفيه فقال:«دعهما فإني أدخلتهما طاهرتين» فمسح عليهما. متفق عليه.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنا شروع کیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کیلئے لپکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چھوڑ دو میں نے جب یہ موزے پہنے تھے تو میں وضو سے تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح فرمایا۔ (بخاری و مسلم)
हज़रत मुग़ीरा बिन शोअबा रज़िअल्लाहुअन्ह रिवायत करते हैं कि मैं नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ था, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने वुज़ू करना शुरू किया तो मैं आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के मोज़े उतारने के लिये आगे बढ़ा । आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया “छोड़ दो मैं ने जब ये मोज़े पहने थे तो मैं वुज़ू से था ।” फिर आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने इन पर मसह किया । (बुख़ारी और मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الوضوء، باب إذا أدخل رجليه وهما طاهرتان، حديث:206، ومسلم، الطهارة، باب المسح علي الخفين، حديث:274.»
Narrated Mughira bin Shu’ba (rad): Once I was in the company of the Prophet (ﷺ), he then performed ablution and I dashed to take off his socks. He said, “Leave them for I had put them on after performing ablution”. So he wiped over them [Agreed Upon].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 53
´موزوں پر مسح اسی صورت میں درست اور جائز ہے جبکہ وضو کر کے پہنے گئے ہوں` «. . . عن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال: كنت مع النبى صلى الله عليه وآله وسلم فتوضا فاهويت لانزع خفيه فقال: دعهما فإني ادخلتهما طاهرتين فمسح عليهما . . .» ”. . . سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنا شروع کیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کیلئے لپکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چھوڑ دو میں نے جب یہ موزے پہنے تھے تو میں وضو سے تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح فرمایا . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 53]
لغوی تشریح: «فَأَهْوَيْتُ» میں نے اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، یا پھر یہ معنی ہیں کہ حالت قیام سے نیچے جھکا۔ «لِأَنْزِعَ» «أُخْرِجَ» کے معنی میں ہے کہ میں اتاروں۔ «خُفَّيْهِ» آپ کے موزے۔ «دَعْهُمَا» «اُتْرُكْ» کے معنی میں ہے، یعنی موزوں کو چھوڑ دو۔ «طَاهِرَتَيْنِ» حال واقع ہو رہا ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ دونوں پاؤں پاک حالت میں داخل کیے تھے، اس لیے موزوں کو نہ اتارو۔ اور ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ میں نے موزوں میں پاؤں جب داخل کیے تھے اس وقت وہ پاک تھے۔ [سنن أبى داود، الطهارة، باب المسح على الخفين، حديث: 151]
فوائد ومسائل: ➊ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ موزوں پر مسح اسی صورت میں درست اور جائز ہے جبکہ وضو کر کے پہنے گئے ہوں۔ ➋ ابوداود اور موطأ امام مالک میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کے موقع پر نماز فجر کے وقت پیش آیا۔ [سنن أبى داود، الطهارة، باب المسح على الخفين، حديث: 149، الموطأ للإمام مالك، الطهارة، باب ماجاء فى المسح على الخفين، حديث: 41]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 53