الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
20. باب سُجُودِ التِّلاَوَةِ:
20. باب: سجدہ تلاوت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1297
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت الاسود ، يحدث، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، " انه قرا والنجم فسجد فيها، وسجد من كان معه، غير ان شيخا، اخذ كفا من حصى او تراب، فرفعه إلى جبهته، وقال: يكفيني هذا "، قال عبد الله: لقد رايته بعد قتل كافرا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، قَالَ: سَمِعْتُ الأَسْوَدَ ، يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَنَّهُ قَرَأَ وَالنَّجْمِ فَسَجَدَ فِيهَا، وَسَجَدَ مَنْ كَانَ مَعَهُ، غَيْرَ أَنَّ شَيْخًا، أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ، فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا.
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے سجدہ کیا، مگر ایک بوڑھے (امیہ بن خلف) نے کنکریوں یا مٹی کی ایک مٹھی بھر کر اپنی پیشانی سے لگا لی اور کہا: میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نےبعد میں دیکھا، اسے کفر کی حالمت میں قتل کیا گیا۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سُورَةُ النَّجْمِ کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ کیا، صرف ایک بوڑھے نے کنکریوں یا مٹی کی ایک مٹھ بھر کر اپنی پیشانی سے لگائی اور کہا میرے لیے یہی کافی ہے، عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے اس کو (یعنی امیہ بن خلف) کفر کی حالت میں قتل ہوتے دیکھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 576

   صحيح البخاري3972عبد الله بن مسعودقرأ والنجم فسجد بها وسجد من معه غير أن شيخا أخذ كفا من تراب فرفعه إلى جبهته فقال يكفيني هذا قال عبد الله فلقد رأيته بعد قتل كافرا
   صحيح البخاري4863عبد الله بن مسعودسجد رسول الله وسجد من خلفه إلا رجلا رأيته أخذ كفا من تراب فسجد عليه فرأيته بعد ذلك قتل كافرا وهو أمية بن خلف
   صحيح البخاري3853عبد الله بن مسعودقرأ النبي النجم فسجد فما بقي أحد إلا سجد إلا رجل رأيته أخذ كفا من حصا فرفعه فسجد عليه وقال هذا يكفيني فلقد رأيته بعد قتل كافرا بالله
   صحيح البخاري1070عبد الله بن مسعودقرأ سورة النجم فسجد بها فما بقي أحد من القوم إلا سجد فأخذ رجل من القوم كفا من حصى أو تراب فرفعه إلى وجهه وقال يكفيني هذا فلقد رأيته بعد قتل كافرا
   صحيح البخاري1067عبد الله بن مسعودقرأ النبي النجم بمكة فسجد فيها وسجد من معه غير شيخ أخذ كفا من حصى أو تراب فرفعه إلى جبهته وقال يكفيني هذا فرأيته بعد ذلك قتل كافرا
   صحيح مسلم1297عبد الله بن مسعودقرأ والنجم فسجد فيها وسجد من كان معه غير أن شيخا أخذ كفا من حصى أو تراب فرفعه إلى جبهته وقال يكفيني هذا
   سنن أبي داود1406عبد الله بن مسعودقرأ سورة النجم فسجد فيها وما بقي أحد من القوم إلا سجد فأخذ رجل من القوم كفا من حصى أو تراب فرفعه إلى وجهه وقال يكفيني هذا
   سنن النسائى الصغرى960عبد الله بن مسعودقرأ النجم فسجد فيها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3853  
´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامنا کیا ان کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ , فَسَجَدَ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا رَجُلٌ رَأَيْتُهُ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًا فَرَفَعَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: هَذَا يَكْفِينِي فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا بِاللَّهِ . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور سجدہ کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام لوگوں نے سجدہ کیا صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں اس نے کنکریاں اٹھا کر اس پر اپنا سر رکھ دیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے پھر اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3853]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3853 کا باب: «بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ:»
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت بظاہر مشکل دکھائی دیتی ہے، کیونکہ باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر جو مشرکین کی طرف سے مشکلات ہوئیں اشارہ کیا جا رہا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بظاہر کسی بھی مشکلات کا کوئی ذکر نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«كان حق هذا الحديث أن يذكر فى باب الهجرة الي الحبشة المذكور هو قليل فسيأتى فيها أن سجود المشركين المذكور فيه سبب رجوع من هاجر الهجرة الأولي إلى الحبشة لظنهم أن المشركين كلهم أسلموا .» [فتح الباري لابن حجر: 143/7]
اس حدیث کا حق یہ تھا کہ اسے ہجرت کے باب میں ذکر کیا جائے، پس تحقیق اس کا بیان عنقریب آئے گا، اس میں کہ مشرکین کا اس میں سجدہ کرنا تھا (مسلمان) یہ سمجھے کہ یہ مشرک مسلمان ہو گئے ہیں اور جو مسلمان ان کی تکلیف دینے سے حبش کی طرف نکل چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں تو دوبارہ وہ مسلمان حبش کی ہجرت کی طرف نکل گئے، پس یہاں پر مسلمانوں کو تکلیف جو ہوئی یہیں سے ترجمتہ الباب کی مناسبت بنتی ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمہ الباب اور حدیث میں مطابقت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث ان امتناع الرجال المذكور فيه عن السجدة مع المسلمين ومخالفة اياهم نوع أذي لهم فلا يخفي ذالك» [عمدة القاري للعيني: 458/16]
باب سے مطابقت حدیث کے یوں ہے کہ اس شخص نے (امیہ بن خلف) نے سجدہ سے انکار کر دیا، پس یہ انکار کر دینا مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف تھا اور یہ کسی سے بھی مخفی نہیں تھا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 47   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1406  
´سورۃ النجم میں سجدہ ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، البتہ ایک شخص نے تھوڑی سی ریت یا مٹی مٹھی میں لی اور اسے اپنے منہ (یعنی پیشانی) تک اٹھایا اور کہنے لگا: میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے بعد اسے دیکھا کہ وہ حالت کفر میں قتل کیا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1406]
1406. اردو حاشیہ:
➊ سورہ نجم میں سجدہ تلاوت ہے۔
➋ پڑھنے اور سننے والے سب ہی سجدہ کریں۔
➌ تکبر سے خیر کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اور یہ شخص جس نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ اُمیہ بن خلف تھا۔ جو کفار مکہ کے سرداروں میں سے تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1406   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1297  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں مشرکین مکہ بھی بعض دفعہ قرآن مجید کی تلاوت سن لیتے تھے۔
آپﷺ نے سُوْرَۃُ النَّجْمِ کی تلاوت کی جس میں لات ومنات اور عزی کا تذکرہ ہے تو وہ اس پر بہت شاداں وفرحاں ہوئے اور جب آپﷺ نے آخر میں سجدہ کیا تو امیہ کے سوا تمام موجود مشرکین نے بھی مسلمانوں کے ساتھ سجدہ کیا اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔

جس وقت سُوْرَۃُ النَّجْمِ میں آپﷺ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین نے آپﷺ کے ساتھ سجدہ کیا اور یہ ظاہر بات ہے،
وہ تمام باوضو نہیں ہوں گے،
اس لیے سجدہ تلاوت کے لیے وضو کو لازم ٹھہرانا جب کہ یہ سننے والے کے ذمہ بھی ہے،
درست نہیں ہے۔
الا یہ کہ شرط لگائی جائے کہ قرآن مجید کی تلاوت اور سماع وضو کے بغیر نہیں ہو سکتا،
حالانکہ زبانی تلاوت بالاتفاق وضو کے بغیر جائز ہے،
اختلاف قرآن مجید کو ہاتھ لگا کر پڑھنے کی صورت میں ہے۔

سُوْرَۃُ النَّجْمِ سن کر مشرکین مکہ نے کیوں سجدہ کیا؟ تو بقول قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے اس کا سبب یہ ہے،
یہ قرآن مجید کی پہلی صورت ہے جس میں سجدہ آتا ہے،
لیکن سوال یہ ہے اس کا مشرکین پر کیا اثر،
صحیح بات یہی ہے کہ وہ اس سورۃ میں اپنے معبودوں کا ذکر سن کر خوش ہوں گے،
مزید برآں اس وقت شیطان نے:
(تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُـلٰى وَإِنَّ شَفَاعَتُهُنَّ لَتُرْتَجىٰ)
کے الفاظ بھی کہہ ڈالےیہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں،
جن کی سفارش کی امید کی جاسکتی ہے۔
جیسا کہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے طبرانی سے روایت نقل کیا ہے۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
﴿أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ (19)
وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ﴾
کی تلاوت کی۔
تو:
(أَلْقَى الشَّيْطَانُ عِنْدَهَا كلَِمَاتٍ حِيْنَ ذَكَرَ الطَّوَاغِيْتَ)
شیطان نے اس وقت بتوں کا تذکرہ کرڈالا۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان کلمات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہونے کا امکان نہیں ہے۔
نقل وعقل کی کسی رو سے بھی یہ جائز نہیں ہے۔
لیکن شیطان کا ان الفاظ کو کہہ ڈالنا،
اس میں ناممکن ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔
اس کی تائید کے لیے تفسیر طبری سورہ حج کی آیات:
(52 تا54)
دیکھیے۔
جنگ بدر میں قرآن کی تصریح کے مطابق اس نے مشرکین مکہ کوکہا تھا:
﴿لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ﷢﴾ آج تم پر کوئی لوگ غالب نہیں آسکتے،
﴿وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ﴾ میں تمہارا معاون مددگار ہوں،
اس طرح شیطان نے جنگ احد میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق،
آپس میں ٹکڑا دیا تھا اور خود قرآن مجید میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تلاوت فرماتے:
﴿أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آَيَاتِهِ﴾ کہ شیطان اس کی تلاوت میں کچھ ڈالتا ہے،
اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو ختم کرڈالتا ہے،
اور اپنی آیات کو محکم کرتا ہے،
آگے فرمایا:
﴿لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾ تاکہ اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو جن کے دلوں میں روگ ہے آزمائش وابتلا کا باعث بنائے۔
اگرشیطان کچھ ڈال نہیں سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ دوریا ختم کس چیز کو کرتا ہے اور ا پنی آیات کو محکم کس چیز سے کرتا ہے؟ جن کے دلوں میں بیماری (کفر و نفاق)
ہے ان کے لیے امتحان کس چیز کا ہوتا ہے۔
لیکن ان آیات مبارکہ سے یہ چیز بھی ثابت ہو رہی ہے کہ شیطان کے بول سے صرف کافر ومنافق ہی متاثر ہو سکتے ہیں،
اس لیے یہ کہنا کہ اس سے توتمام شریعت سے اعتماد اٹھ جائے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم تک صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی روایت سے جو احکام پہنچے ہیں وہ آپﷺ کا فرمان نہ ہوں بلکہ شیطان کا کہا ہوا ہو،
بے محل ہے،
کیونکہ یہ تو تب ممکن تھا اگر اللہ تعالیٰ اس سے آگاہ نہ فرماتا یا اہل ایمان اس سے متاثر ہو کر اس کو قبول کر لیتے۔
سورۃ حج کی آیات:
(52تا54)
اس وقت غور سے پڑھ لی جائیں تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔
ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھے۔
(فتح البیان:
ج: 4 ص 416۔
417)

۔
علامہ آلوسی نے شیخ ابومنصور ماتریدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ شیطان نے اپنے زندیق اور بے دین چیلوں کے دلوں میں:
(تِلْكَ الْغَرَانِيْقُ الْعُلىٰ)
کا وسوسہ ڈالا،
تاکہ وہ ضعیف مسلمانوں کو دین کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا کریں۔
(روح المعانی:
ج1ص230)

امام ابوبکر جصاص حنفی کا قول دیکھئے (احکام القرآن امام جصاص:
ج3 ص321)

امام ابوبکر العربی مالکی کا قول دیکھیے۔
(احکام القرآن امام ابن العربی:
ج3 ص303)
(تفسیر الطبری:
ج9 ص 178)
(مکتبہ دارالکتاب العلمیہ بیروت)
ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری نہیں ہوئے۔
(أَنَّ الشَّيْطَانَ أَوْقَعَ فِي مَسَامِعَ الْمُشْرِكِيْنَ ذٰلِكَ مِنْ دُوْنِ أَنْ يَّتَكَلَّمَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
میں نے جو معنی کیا ہےاسے علامہ جریرطبری۔
امام ابوبکر جصاص حنفی۔
امام ابوبکر ابن العربی مالکی۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ابن حجر و حزم نے تسلیم کیا ہے لیکن اکثر ائمہ نے اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا،
اس پر کچھ اعتراضات کیے ہیں لیکن ہم تفصیلات میں نہیں جا سکتے۔
اس لیے ان کے جوابات نہیں لکھ سکتے،
وہ سب تب وارد ہیں اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ یہ کلمات آپﷺ کی زبان سے جاری ہوئے اور ہم بتا چکے ہیں یہ صورت ناممکن ہے۔
(جدید دور کے کسی محدث یا مفسر نے اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا)
جن لوگوں نے تردید کی ہے اس واقعہ کی آپﷺ کی زبان پر جاری کرتے ہیں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنیاد پر اس کی تردید پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1297   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.