الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
5. باب بَيَانِ أَنَّ الْأَفْضَلَ أَنْ يُّحْرَمَ حِينَ تَنْبَعِثُ بَهِ رَاحِلَتُهُ مُتَوَجِّهَا إلٰي مَكَّةَ لَا عَقِبَ الرَّكْعَتَيْنِ
5. باب: ایسے وقت احرام باندھنے کی فضیلت جب سواری مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑی ہو جائے۔
Chapter: Clarifying that it is better to enter Ihram when a person's mount sets off with him, heading towards Makkah, not straight after the two rak'ah
حدیث نمبر: 2818
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن عبيد بن جريج ، انه قال لعبد الله بن عمر رضي الله عنهما: " يا ابا عبد الرحمن رايتك تصنع اربعا لم ار احدا من اصحابك يصنعها "، قال: " ما هن يا ابن جريج؟ "، قال: " رايتك لا تمس من الاركان إلا اليمانيين، ورايتك تلبس النعال السبتية، ورايتك تصبغ بالصفرة، ورايتك إذا كنت بمكة اهل الناس إذا راوا الهلال، ولم تهلل انت حتى يكون يوم التروية "، فقال عبد الله بن عمر : " اما الاركان فإني لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس إلا اليمانيين، واما النعال السبتية فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التي ليس فيها شعر ويتوضا فيها، فانا احب ان البسها، واما الصفرة فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فانا احب ان اصبغ بها، واما الإهلال فإني لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل، حتى تنبعث به راحلته "،وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: " يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَأَيْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِكَ يَصْنَعُهَا "، قَالَ: " مَا هُنَّ يَا ابْنَ جُرَيْجٍ؟ "، قَالَ: " رَأَيْتُكَ لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْكَانِ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، وَرَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَرَأَيْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَيْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْهِلَالَ، وَلَمْ تُهْلِلْ أَنْتَ حَتَّى يَكُونَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ "، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : " أَمَّا الْأَرْكَانُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمَسُّ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِيَّةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعَرٌ وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا، وَأَمَّا الصُّفْرَةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا، وَأَمَّا الْإِهْلَالُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ، حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ رَاحِلَتُهُ "،
سعید بن ابی سعید مقبری نے عبید بن جریج سے روایت کی کہ انھوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابو عبد الرحمٰن!میں نے آپ کو چا ر (ایسے) کام کرتے دیکھا ہے جو آپ کے کسی اور ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا۔ابن عمر نے کہا: ابن جریج!وہ کو ن سے (چار کام) ہیں؟ ابن جریج نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (بیت اللہ کے) دو یما نی رکنوں (کونوں) کے سوا اور کسی رکن کو ہاتھ نہیں لگا تے، میں نے آپ کو دیکھا ہے سبتی (رنگے ہو ئے صاف چمڑے کے) جو تے پہنتے ہیں۔ (نیز آپ کو دیکھا کہ زرد رنگ سے (کپڑوں کو) رنگتے یں اور آپ کو دیکھا ہے کہ جب آپ مکہ میں ہو تے ہیں تو لو گ (ذوالحجہ کی) پہلی کا چا ند دیکھتے ہی لبیک پکار نا شروع کر دیتے ہیں لیکن آپ آٹھویں کا دن آنے تک تلبیہ نہیں پکا رتے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جہا ں تک ارکان (بیت اللہ کے کونوں) کی بات ہے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمنی رکنوں کے سوا (کسی اور رکن کو) ہاتھ لگا تے نہیں دیکھا۔رہے سبتی جو تے تو بلا شبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جو تے پہنے دیکھا کہ جن پر بال نہ ہو تے تھے آپ انھیں پہن کر وضو فرماتے (لہٰذا) مجھے پسند ہے کہ میں یہی (سبتی جو تے) پہنوں۔رہا زرد رنگ تو بلا شبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ یہ (رنگ) استعمال کرتے تھے۔اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ میں بھی اس رنگ کو استعمال کروں۔اور رہی بات تلبیہ (لبیک کہتے نہیں سنا جب تک آپ کی سواری آپ کو لے کر کھڑی نہ ہو جا تی۔
عبید بن جریح بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، اے ابو عبدالرحمٰن! میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے دیکھا ہے جو میں نے آپ کے ساتھیوں میں سے کسی اور کو کرتے نہیں دیکھا، انہوں نے پوچھا، اے ابن جریج! وہ کون سے کام ہیں؟ ابن جریج نے کہا، میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (بیت اللہ) کے (چار) ارکان میں سے صرف دو یمانی رکنوں کو مس کرتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے آپ سبتی جوتے پہنتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے، آپ زرد رنگ سے (بال) رنگتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں لوگ تو چاند دیکھ کر احرام باندھ لیتے ہیں اور آپ آٹھ ذوالحجہ تک احرام نہیں باندھتے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: رہا ارکان کا مسئلہ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمانی کونوں کے سوا (کونے) کو مس کرتے نہیں دیکھا، رہے سبتی جوتے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جوتے پہنتے دیکھا جو بالوں کے بغیر تھے اور ان میں وضو کرتے تھے، اس لیے میں ان کو پہننا پسند کرتا ہوں، رہا زرد رنگ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ استعمال کرتے دیکھا، اس لیے میں اس کے استعمال کو پسند کرتا ہوں اور رہا احرام کا مسئلہ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک احرام باندھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری آپصلی اللہ علیہ وسلم کو لے کھڑی ہوتی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1187

   صحيح البخاري5851عبد الله بن عمرلم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين أما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله يلبس النعال التي ليس فيها شعر يتوضأ فيها أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها
   صحيح البخاري1609عبد الله بن عمرلم أر النبي يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين
   صحيح البخاري166عبد الله بن عمرلم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين يلبس النعل التي ليس فيها شعر يتوضأ فيها أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها فأنا أحب أن أصبغ بها
   صحيح مسلم3061عبد الله بن عمرلم أر رسول الله يمسح من البيت إلا الركنين اليمانيين
   صحيح مسلم3064عبد الله بن عمرما تركت استلام هذين الركنين اليماني والحجر مذ رأيت رسول الله يستلمهما
   صحيح مسلم2818عبد الله بن عمرلم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين أما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله يلبس النعال التي ليس فيها شعر يتوضأ أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها
   صحيح مسلم3062عبد الله بن عمرلم يكن رسول الله يستلم من أركان البيت إلا الركن الأسود والذي يليه
   صحيح مسلم3063عبد الله بن عمرلا يستلم إلا الحجر والركن اليماني
   سنن أبي داود1876عبد الله بن عمرلا يدع أن يستلم الركن اليماني والحجر في كل طوفة
   سنن أبي داود1874عبد الله بن عمريمسح من البيت إلا الركنين اليمانيين
   سنن أبي داود1772عبد الله بن عمرلم أر رسول الله يمس إلا اليمانيين أما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله يلبس النعال التي ليس فيها شعر يتوضأ فيها أما الصفرة فإني رأيت رسول الله يصبغ بها
   سنن النسائى الصغرى2950عبد الله بن عمريستلم الركن اليماني والحجر في كل طواف
   سنن النسائى الصغرى2945عبد الله بن عمريستلم الركن الأسود أول ما يطوف يخب ثلاثة أطواف من السبع
   سنن النسائى الصغرى2952عبد الله بن عمريمسح من البيت إلا الركنين اليمانيين
   سنن النسائى الصغرى2953عبد الله بن عمرلم أر رسول الله يستلم إلا هذين الركنين
   سنن النسائى الصغرى2954عبد الله بن عمريستلم من أركان البيت إلا الركن الأسود والذي يليه
   سنن النسائى الصغرى2951عبد الله بن عمرلا يستلم إلا الحجر والركن اليماني
   سنن ابن ماجه2946عبد الله بن عمرلم يكن رسول الله يستلم من أركان البيت إلا الركن الأسود والذي يليه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم631عبد الله بن عمر يصبغ بها، فانا احب ان اصبغ بها، واما الإهلال فإني
   مسندالحميدي666عبد الله بن عمررأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يهل حتى تنبعث به راحلته، ورأيته يلبس هذه النعال السبتية ويتوضأ فيها، ورأيته لا يستلم من هذا البيت إلا هذين الركنين، ورأيته يصفر لحيته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 631  
´سنت سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی محبت`
«. . . 418- وعن سعيد بن أبى سعيد عن عبيد بن جريج أنه قال لعبد الله بن عمر: يا أبا عبد الرحمن، رأيتك تصنع أربعا لم أر أحدا من أصحابك يصنعها، قال: وما هي يا ابن جريج؟ قال: رأيتك لا تمس من الأركان إلا اليمانيين، ورأيتك تلبس النعال السبتية، ورأيتك تصبغ بالصفرة، ورأيتك إذا كنت بمكة أهل الناس إذا رأوا الهلال ولم تهل أنت حتى كان يوم التروية، قال عبد الله بن عمر: أما الأركان فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس من الأركان إلا اليمانيين، وأما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التى ليس فيها شعر ويتوضأ فيها، فأنا أحب أن ألبسها، وأما الصفرة فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فأنا أحب أن أصبغ بها، وأما الإهلال فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به راحلته. . . .»
. . . عبید بن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں نے اپ کو چار ایسی چیزیں کرتے ہوئے دیکھا ہے جو کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ انہوں نے پوچھا: اے ابن جریج! یہ کون سی چیزیں ہیں؟ میں نے کہا: آپ (طواف کے دوران میں) صرف دو یمنی رکنوں (کعبہ کی دو دیواریں جو یمن کی طرف ہیں) کو چھوتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ بغیر بالوں والے جوتے پہنتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ زرد خضاب لگاتے ہیں اور جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں (اور) لوگ (ذوالحجہ کا) چاند دیکھتے ہی لبیک کہنا شروع کرتے ہیں جبکہ آپ ترویہ کے دن (۸ ذولحجہ) سے پہلے لبیک نہیں کہتے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رہا مسئلہ ارکان کا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمنی ارکان چھونے کے علاوہ نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی رکن کو چھوا ہو، رہے بغیر بالوں والے جوتے، تو میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر بالوں والے جوتے پہنتے اور ان میں وضو کرتے تھے اور میں پسند کرتا ہوں کہ انہیں پہنوں، رہا زرد خضاب تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے اور میں اس وجہ سے یہ خضاب لگانا پسند کرتا ہوں، رہا لبیک کہنا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (منیٰ کی طرف ۸ ذوالحجہ کو) سواری روانہ کرنے سے پہلے لبیک کہتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 631]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 166، ومسلم 1187، من حديث مالك به، سقط من الأصل واستدركته من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه:
➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت میں سبقت لے جانے والے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل سے محبت کرتے تھے۔
➋ ہر سوال کا دلیل سے جواب دینا اہل ایمان کا عظیم شعار ہے۔
➌ بعض لوگ اگر کسی مسنون عمل کو ترک کردیں تو یہ اس عمل کے متروک ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
➍ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے پوچھ لینا چاہئے۔
➎ اہلِ حق میں بعض اجتہادی امور میں اختلاف ہوسکتا ہے اور ایسا اختلاف صحابہ و تابعین کے زمانے میں بھی ہوا ہے۔
➏ جب کسی مسئلے میں اختلاف ہوجائے تو اسے دلیل یعنی قرآن وحدیث اور اجماع سے حل کرنا چاہئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَّيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ» تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے تو دلیل دیکھ کر زندہ رہے۔ [الانفال: 42] نیز دیکھئے [سورة النحل: 64]
➐ بالوں کو سرخ مہندی لگانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ مشہور تابعی ابواسحاق عمرو بن عبداللہ السبیعی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے علی (رضی اللہ عنہ) کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔۔۔ آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ الخ [تهذيب الآثار لابن جرير الطبري تحقيق على رضا: 935، وسنده صحيح، مصنف عبدالرزاق 3/189 ح5267، المعجم الكبير للطبراني 1/93 ح155]
◄ عامر الشعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے، آپ کی داڑھی نے کندھوں کے درمیان کو بھرا ہوا تھا۔ الخ [الآحاد والمثاني لابن ابي عاصم 1/137 ح154، وسنده صحيح، رواية يحييٰ القطان عن إسماعيل بن ابي خالد عن عامر الشعبي محمولة على السماع، انظر الجرح والتعديل 2/175، عن ابن المديني رحمه الله بلفظ آخر وسنده صحي،]
◄ عتی بن ضمر رحمہ اللہ نے کہا: میں نے اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ [تهذيب الآثار للطبراني ص499 ح942 وسنده صحيح]
استحباب کے دلائل وہ روایات ہیں جن میں بالوں کو رنگنے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5899، وصحيح مسلم 2103]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 418   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2946  
´حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2946]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  بیت اللہ کے چار کونے ہیں۔
حجرالاسود والا کو نہ، رکن یمانی، رکن شامی اور رکن عراقی۔
نبی اکرمﷺ کے زمانہ مبارک میں حجر اسود اور رکن یمانی تو اسی مقام پر تھے جہاں ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت بنائے تھے البتہ رکن شامی اور رکن عراقی ابراہیمی تعمیر پر قائم نہیں تھے کیونکہ اہل مکہ نے کعبہ شریف تعمیر کرتے وقت اس کا کچھ حصہ چھوڑدیا تھا۔
یہ چھوڑا ہوا حصہ حطیم یا حجر کہلاتا ہے۔
موجودہ تعمیر بھی اسی انداز سے ہےکہ حطیم کعبہ شریف کی عمارت سے باہر ہے۔

(2)
حجر اسود کا استلام بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یا اشارہ کرنا ہے۔
رکن یمانی کا استلام صرف ہاتھ لگانا ہے۔

(3)
حجر اسود کے سوا کعبہ شریف کے کسی حصے کو چومنا خلاف سنت ہے۔
ملتزم کو بھی بوسہ نہیں دیا جاتا۔
اسی طرح کعبہ شریف کے علاوہ کسی اور عمارت مزار یا یادگار وغیرہ کو بوسہ دینا بھی جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2946   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1772  
´احرام کے وقت کا بیان۔`
عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں نے آپ کو چار کام ایسے کرتے دیکھا ہے جنہیں میں نے آپ کے اصحاب میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا ہے؟ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہیں ابن جریج؟ وہ بولے: میں نے دیکھا کہ آپ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہیں، اور دیکھا کہ آپ ایسی جوتیاں پہنتے ہیں جن کے چمڑے میں بال نہیں ہوتے، اور دیکھا آپ زرد خضاب لگاتے ہیں، اور دیکھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیا لیکن آپ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کے آنے تک احرام نہیں باندھا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رہی رکن یمانی اور حجر اسود کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف انہیں دو کو چھوتے دیکھا ہے، اور رہی بغیر بال کی جوتیوں کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنتے دیکھی ہیں جن میں بال نہیں تھے اور آپ ان میں وضو کرتے تھے، لہٰذا میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں، اور رہی زرد خضاب کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ کا خضاب لگاتے دیکھا ہے، لہٰذا میں بھی اسی کو پسند کرتا ہوں، اور احرام کے بارے میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک لبیک پکارتے نہیں دیکھا جب تک کہ آپ کی سواری آپ کو لے کر چلنے کے لیے کھڑی نہ ہو جاتی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1772]
1772. اردو حاشیہ: حضرت عبد اللہ بن عمر نے اپنے ہر ہر عمل کو سنت رسول ﷺ کے تابع رکھا ہوا تھا۔اور یہی دین و شریعت ہے۔ اور آٹھویں ذوالحجہ کو احرام باندھنے کا عمل اور ان کا جواب اس قیاس واجتہاد پر مبنی ہے کہ نبی ﷺ میقات میں سفر حج شروع کرنے سے پہلے احرام یا تلبیہ پکارے تھے بلکہ بالکل آخری وقت میں کہتے جب اس سے چارہ نہ ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1772   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2818  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لايمانيين:
بیت اللہ کےچار کونے ہیں،
وہ رکن (کونہ)
جس میں حجراسود ہے اور اس سے طواف کا آغاز ہوتا ہے اس کو بوسہ دینا ہوتا ہے،
اگر براہ راست بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا چھڑی لگا کر اس کو بوسہ دیا جاتا ہے،
اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو محض اشارہ کافی ہے اور اشارہ کی صورت میں ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا جائے گا،
اس سے اگلے دو کونے شامی اور عراقی ہیں،
ان کو تغلیباً شامیان کہا جاتا ہے،
چوتھا رکن (کونہ)
جو حجراسود سے پہلے ہے،
یمانی ہے،
کیونکہ وہ یمن کی جہت میں ہے،
اس کو صرف ہاتھ لگایا جاتا ہے،
رکن یا ہاتھ کو چوما نہیں جاتا،
رکن حجراسود اور رکن یمانی کو ایک کے نام کو غلبہ دے کر يمانيان کہہ دیا جاتا ہے،
جیسے ماں وباپ کو ابوان،
شمس وقمر کو قمران اور ابوبکروعمر کو عمران کہہ دیا جاتا ہے،
یہ دونوں کونے چونکہ ابراہیمی بنیادوں پر ہیں،
اس لیے صرف ان دونوں کو مس کیا جاتا ہے اور اس پر ائمہ اربعہ اور محدثین کا اتفاق ہے۔
(2)
النعال السبتية:
نعال،
نعل کی جمع ہے،
چپل،
جوتا اور سبت مونڈنے کو کہتے ہیں یا رنگدار چمڑے کو کہتے ہیں،
اس کی تفسیر خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا نے کردی ہے کہ بن بال جوتے اور آپ ان کو پہن کر ہی وضو کرلیتے تھے۔
(3)
تصبغ بالصفرة:
آپ زرد رنگ استعمال کرتے ہیں،
یہ رنگ بالوں اور کپڑوں دونوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
فوائد ومسائل:

حدیث میں مذکورہ چاروں کام مجموعی اعتبار سے صرف حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کیا کرتے تھے یا ابن جریج نے صرف ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ چاروں کا م کرتے دیکھا کیونکہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو نوں کومس کرتے تھے،
خاص کراس وقت جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کعبہ کی تعمیر ابراہیمی بنیادوں پر کردی تھی اس طرح بعض تابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی چاروں کونوں کو مس کرتے تھے لیکن اب یہ اختلاف ختم ہو چکا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال تھا کہ احرام،
تلبیہ ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی شروع کر دینا چاہیے لیکن چونکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام اور تلبیہ کا آغاز اس وقت کیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ سے حج کے لیے چلے تھے اور مکہ میں افعال حج کا آغاز یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) (جس میں لوگ اپنے جانوروں کو اس دور میں پانی پلایا کرتے تھے)
کو ہوتا ہے،
اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مکہ میں تلبیہ آٹھ ذوالحجہ کو شروع کرتے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ تلبیہ کا آغاز،
مسجد ذوالحلیفہ کے پاس سوار ہو کر شروع کیا جائے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسجد کے اندر دو رکعت پڑھنے کے بعد تلبیہ شروع کر دیا جائے۔
اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باب،
اپنے مسلک کے مطابق ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث کی روشنی میں باندھا ہے کہ تلبیہ کا آغاز سوار ہو کر کیا جائے گا۔
اس کا تعلق اپنے ملک اور علاقہ سے چلتے وقت سے ہے،
مکہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ اور احرام آٹھ ذوالحجہ سے شروع کرنا افضل ہے اور احناف کے نزدیک یکم ذوالحجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ذوالحلیفہ میں دو رکعت نمازفجر پڑھی اور پھر مصلی پر ہی احرام باندھ کر صدائے لبیک بلند کی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2818   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.