الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
43. باب بَيَانِ أَنَّ السَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رُكْنٌ لاَ يَصِحُّ الْحَجُّ إِلاَّ بِهِ:
43. باب: صفا و مروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اس کے بغیر حج نہیں۔
حدیث نمبر: 3080
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام بن عروة ، اخبرني ابي ، قال: قلت لعائشة : ما ارى علي جناحا ان لا اتطوف بين الصفا، والمروة، قالت: لم؟ قلت: لان الله عز وجل يقول: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، الآية، فقالت: " لو كان كما تقول لكان، فلا جناح عليه ان لا يطوف بهما، إنما انزل هذا في اناس من الانصار، كانوا إذا اهلوا اهلوا لمناة في الجاهلية فلا يحل لهم ان يطوفوا بين الصفا، والمروة، فلما قدموا مع النبي صلى الله عليه وسلم للحج ذكروا ذلك له، فانزل الله تعالى هذه الآية، فلعمري ما اتم الله حج من لم يطف بين الصفا، والمروة ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : مَا أَرَى عَلَيَّ جُنَاحًا أَنْ لَا أَتَطَوَّفَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، قَالَتْ: لِمَ؟ قُلْتُ: لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلّ يَقُولُ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، الْآيَةَ، فَقَالَتْ: " لَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَكَانَ، فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، إِنَّمَا أُنْزِلَ هَذَا فِي أُنَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، كَانُوا إِذَا أَهَلُّوا أَهَلُّوا لِمَنَاةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَلَا يَحِلُّ لَهُمْ أَنْ يَطَّوَّفُوا بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا قَدِمُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَجِّ ذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ، فَلَعَمْرِي مَا أَتَمَّ اللَّهُ حَجَّ مَنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ ".
ابو اسامہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ہشام بن عروہ نے حدیث بیان کی کہ مجھے میرے والد (عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے) خبر دی، کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی، میں اس بات میں اپنے اوپر کوئی گناہ نہیں سمجھتا کہ میں (حج وعمرہ کے دوان میں) صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کروں۔انھوں نے فرمایا: کیوں؟میں نے عرض کی: اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔: "بلا شبہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ (پھر جو کوئی بیت اللہ کاحج کرے یا عمرہ اس پر گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کاطواف کرے۔) "انھوں نے فرمایا اگر (قرآن کی آیت کا) وہ مفہوم ہوتا جو تم کہتے ہو، تو یہ حصہ اس طرح ہوتا: "اس شخص پر کوئی گناہ نہیں جو ان دونوں کاطواف نہ کرے۔"اصل میں یہ آیت انصار کے بعض لوگوں کے متعلق نازل ہوئی۔ وہ جاہلیت میں جب تلبیہ پکارتے تو مناۃ (بت) کا تلبیہ پکارتے تھے۔اور (اس وقت کے عقیدے کے مطابق) ان کے لئے صفا مروہ کا طواف حلال نہ تھا، جب وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج پرآئے۔تو آپ سے اپنے اسی پرانے عمل کا ذکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔مجھے اپنی زندگی (دینے والے) کی قسم! اللہ تعالیٰ اس شخص کا حج پورا نہیں فرماتا جو صفا مروہ کا طواف نہیں کرتا۔
عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میں سمجھتا ہوں، اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان طواف نہ کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے، انہوں نے پوچھا، کیوں؟ میں نے عرض کیا، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے، صفا اور مروہ اللہ کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو شخص حج اور عمرہ میں ان کا طواف کرے تو کوئی گناہ نہیں ہے، انہوں نے فرمایا: اگر بات وہ ہوتی جو تو کہتا ہے، تو آیت اس طرح ہوتی، اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں، یہ آیت کچھ انصاری لوگوں کے بارے میں اتری ہے، جب وہ احرام باندھتے، جاہلیت کے دور میں، مناۃ کے لیے احرام باندھتے اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی جائز نہ سمجھتے، تو جب وہ حج کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے، انہوں نے اس بات کا تذکرہ آپ سے کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، مجھے اپنی عمر کی قسم! جو صفا اور مروہ کا طواف نہیں کرے گا، اللہ اس کا حج پورا نہیں کرے گا۔ (اس کا حج قبول نہیں ہو گا)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1277

   صحيح البخاري4861عائشة بنت عبد اللهكان من أهل بمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فأنزل الله إن الصفا والمروة من شعائر الله
   صحيح البخاري4495عائشة بنت عبد اللهلو كانت كما تقول كانت فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزلت هذه الآية في الأنصار كانوا يهلون لمناة وكانت مناة حذو قديد وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله عن ذلك فأنزل الله إن الصفا والمروة من
   صحيح مسلم3080عائشة بنت عبد اللهلو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزل هذا في أناس من الأنصار كانوا إذا أهلوا أهلوا لمناة في الجاهلية فلا يحل لهم أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما قدموا مع النبي للحج ذكروا ذلك له فأنزل الله هذه الآية فلعمري
   صحيح مسلم3083عائشة بنت عبد اللهالأنصار كانوا قبل أن يسلموا هم وغسان يهلون لمناة فتحرجوا أن يطوفوا بين الصفا والمروة وكان ذلك سنة في آبائهم من أحرم لمناة لم يطف بين الصفا والمروة وإنهم سألوا رسول الله عن ذلك حين أسلموا فأنزل الله في ذلك إن الصفا والمروة من شعائ
   صحيح مسلم3079عائشة بنت عبد اللهما أتم الله حج امرئ ولا عمرته لم يطف بين الصفا والمروة ولو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما وهل تدري فيما كان ذاك إنما كان ذاك أن الأنصار كانوا يهلون في الجاهلية لصنمين على شط البحر يقال لهما إساف ونائلة ثم يجيئون فيطوفون بين الصفا والمروة
   سنن أبي داود1901عائشة بنت عبد اللهإن الصفا والمروة من شعائر الله
   سنن النسائى الصغرى2971عائشة بنت عبد اللهالطواف بينهما فليس لأحد أن يترك الطواف بهما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1901  
´صفا اور مروہ کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا: مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إن الصفا والمروة من شعائر الله» کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» کے بجائے «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ۱؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا و مروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1901]
1901. اردو حاشیہ: قرآن مجید کو محض لغت کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرنا اور احادیث صحیحہ سے اعراض کرنا بہت بڑی جہالت ہے قرآن مجید کا وہی فہم معتبر ہے۔اور اسلام کی حقیقی تعبیر وہی ہے۔جو سلف صالحین (صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین)نے کی ہے۔ شان نزول جو صحیح احادیث و اسانید سے ثابت ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا بھی از حد ضروری ہے۔جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وضاحت فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1901   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3080  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں انصار کے دوسرے گروہ کا تذکرہ ہے جو جاہلیت کے دور میں صفا اور مروہ کا طواف نہیں کرتے تھے اور اپنی عادت کے مطابق اب بھی اس کے لیے تیار نہ تھے اس آیت کے ذریعے ان کے دلوں کی کراہت کو دور کر دیا گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3080   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.