الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
82. باب تَحْرِيمِ مَكَّةَ وَصَيْدِهَا وَخَلاَهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَامِ:
82. باب: مکہ مکرمہ کے حرم ہونے اور اس کے شکار اور گھاس اور درخت اور گری پڑی چیز کی حرمت کا بیان سوائے اس کے جو گری پڑی چیز کا اعلان کرنے والا ہو۔
حدیث نمبر: 3305
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، وعبيد الله بن سعيد ، جميعا عن الوليد ، قال زهير: حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الاوزاعي ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، حدثني ابو سلمة هو ابن عبد الرحمن ، حدثني ابو هريرة ، قال: لما فتح الله عز وجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قام في الناس، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال: " إن الله حبس عن مكة الفيل، وسلط عليها رسوله والمؤمنين، وإنها لن تحل لاحد كان قبلي، وإنها احلت لي ساعة من نهار، وإنها لن تحل لاحد بعدي، فلا ينفر صيدها، ولا يختلى شوكها، ولا تحل ساقطتها إلا لمنشد، ومن قتل له قتيل، فهو بخير النظرين، إما ان يفدى، وإما ان يقتل "، فقال العباس: إلا الإذخر يا رسول الله، فإنا نجعله في قبورنا وبيوتنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا الإذخر "، فقام ابو شاه رجل من اهل اليمن، فقال: اكتبوا لي يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكتبوا لابي شاه "، قال الوليد: فقلت للاوزاعي: ما قوله: اكتبوا لي يا رسول الله، قال: هذه الخطبة التي سمعها من رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، جميعا عَنِ الْوَلِيدِ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حدثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حدثنا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَامَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، وَإِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَإِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، فَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلَا تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُفْدَى، وَإِمَّا أَنْ يُقْتَلَ "، فقَالَ الْعَبَّاسُ: إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي قُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ "، فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فقَالَ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ "، قَالَ الْوَلِيدُ: فَقُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ: مَا قَوْلُهُ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: هَذِهِ الْخُطْبَةَ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ولید بن مسلم نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں اوزاعی نے حدیث سنا ئی۔ (کہا:) مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے حدیث سنا ئی۔ (کہا:) مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے اور (انھوں نے کہا) مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیا نکی، انھو نےکہا: جب اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح عطا کی تو آپ لوگوں میں (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہو ئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: " بلا شبہ اللہ نے ہا تھی کو مکہ سے رو ک دیا۔ اور اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر تسلط عطا کیا، مجھ سے پہلے یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ تھا میرے لیے دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال کیا گیا۔اور میرے بعد یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ ہو گا۔اس لیے نہ اس کے شکار کو ڈرا کر بھگا یا جا ئے اور نہ اس کے کا نٹے (دار درخت) کا ٹے جا ئیں۔اور اس میں گری پڑی کوئی چیز اٹھا نا اعلان کرنے والے کے سواکسی کے لیے حلال نہیں۔اور جس کا کوئی قریبی (عزیز) قتل کر دیا جا ئے اس کے لیے دو صورتوں میں سے وہ ہے جو (اس کی نظر میں) بہتر ہو: یا اس کی دیت دی جا ئے یا (قاتل) قتل کیا جا ئے۔اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اذخر کے سوا ہم اسے اپنی قبروں (کی سلوں کی درزوں) اور گھروں (کی چھتوں) میں استعمال کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اذخر کے سوا۔اس پر اہل یمن میں سے ایک آدمی ابو شاہ کھڑے ہو ئے اور کہا: اے اللہ کے رسول!! (یہ سب) میرے لیے لکھوادیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پو چھا: اس (یمنی) کا یہ کہنا " اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے لکھوا دیں۔ (اس سے مراد) کیا تھا؟ انھوں نے کہا: یہ خطبہ (مراد تھا) جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھ روک دیا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنوں کو غلبہ عنایت فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال قرار نہیں دیا گیا تھا، (کسی کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ملی) اور یہ میرے لیے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے حلال ٹھہرایا گیا، (جنگ کی اجازت دی گئی) اور یہ میرے بعد ہرگز کسی کے لیے حلال نہیں ہو گا۔ لہذا اس کے شکار کو پریشان نہ کیا جائے، اور نہ یہاں سے کانٹے کاٹے جائیں، اور یہاں گری پڑی چیز اٹھانا صرف اس کے لیے جائز ہے، جو اس کی تشہیر اور اعلان کرنا چاہتا ہو، اور جس انسان کا کوئی قریبی قتل کر دیا جائے اس کو دو چیزوں میں سے ایک کے انتخاب کا حق ہو گا، یا دیت لے لے یا قاتل کو (قصاص میں) قتل کر دیا جائے۔ تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اَذْخَر
ترقیم فوادعبدالباقی: 1355

   صحيح البخاري6880عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليهم رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لا تحل لأحد بعدي إنما أحلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما يودى
   صحيح البخاري2434عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين لا تحل لأحد كان قبلي أحلت لي ساعة من نهار لا تحل لأحد بعدي لا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقيد
   صحيح البخاري112عبد الرحمن بن صخرلم تحل لأحد قبلي لم تحل لأحد بعدي إنها حلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد من قتل فهو بخير النظرين إما أن يعقل وإما أن يقاد أهل القتيل
   صحيح مسلم3305عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لن تحل لأحد بعدي إنها أحلت لي ساعة من النهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يخبط شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين
   صحيح مسلم3305عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لن تحل لأحد كان قبلي إنها أحلت لي ساعة من نهار إنها لن تحل لأحد بعدي فلا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقتل
   بلوغ المرام604عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏إن الله حبس عن مكة الفيل وسلط عليها رسوله والمؤمنين وإنها لم تحل لاحد كان قبلي
   بلوغ المرام1008عبد الرحمن بن صخر فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه فأهله بين خيرتين : إما أن يأخذوا العقل أو يقتلوا
   صحيح البخاري6880عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليهم رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لا تحل لأحد بعدي إنما أحلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما يودى
   صحيح البخاري2434عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين لا تحل لأحد كان قبلي أحلت لي ساعة من نهار لا تحل لأحد بعدي لا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقيد
   صحيح البخاري112عبد الرحمن بن صخرلم تحل لأحد قبلي لم تحل لأحد بعدي إنها حلت لي ساعة من نهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها لا يعضد شجرها لا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد من قتل فهو بخير النظرين إما أن يعقل وإما أن يقاد أهل القتيل
   صحيح مسلم3305عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لم تحل لأحد قبلي لن تحل لأحد بعدي إنها أحلت لي ساعة من النهار ألا وإنها ساعتي هذه حرام لا يخبط شوكها لا يعضد شجرها لا يلتقط ساقطتها إلا منشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين
   صحيح مسلم3305عبد الرحمن بن صخرالله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنها لن تحل لأحد كان قبلي إنها أحلت لي ساعة من نهار إنها لن تحل لأحد بعدي فلا ينفر صيدها لا يختلى شوكها لا تحل ساقطتها إلا لمنشد من قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدى وإما أن يقتل
   بلوغ المرام604عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏إن الله حبس عن مكة الفيل وسلط عليها رسوله والمؤمنين وإنها لم تحل لاحد كان قبلي
   بلوغ المرام1008عبد الرحمن بن صخر فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه فأهله بين خيرتين : إما أن يأخذوا العقل أو يقتلوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 112  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ . . .»
. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 112]

تشریح:
یعنی اس کے اکھاڑنے کی اجازت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی سائل کی درخواست پر یہ جملہ مسائل اس کے لیے قلم بند کروا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تدوین احادیث و کتابت احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے شروع ہو چکی تھی، جسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ ترقی دی گئی۔ پس جو لوگ احادیث نبوی میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ذخیرہ احادیث کو بعض عجمیوں کی گھڑنت بتاتے ہیں، وہ بالکل جھوٹے کذاب اور مفتری بلکہ دشمن اسلام ہیں، ہرگز ان کی خرافات پر کان نہ دھرنا چاہئیے۔ جس صورت میں «قتل» کا لفظ مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ پاک نے مکہ والوں کو قتل سے بچا لیا۔ بلکہ قتل و غارت کو یہاں حرام قرار د ے دیا۔ اور لفظ «فيل» کی صورت میں اس قصے کی طرف اشارہ ہے جو قرآن پاک کی سورۃ فیل میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت میں حبش کا بادشاہ ابرہ نامی بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا مگر اللہ پاک نے راستے ہی میں ان کو ابابیل پرندوں کی کنکریوں کے ذریعے ہلاک کر ڈالا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 112   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 112  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ . . .»
. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 112]

تشریح:
یعنی اس کے اکھاڑنے کی اجازت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی سائل کی درخواست پر یہ جملہ مسائل اس کے لیے قلم بند کروا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تدوین احادیث و کتابت احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے شروع ہو چکی تھی، جسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ ترقی دی گئی۔ پس جو لوگ احادیث نبوی میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ذخیرہ احادیث کو بعض عجمیوں کی گھڑنت بتاتے ہیں، وہ بالکل جھوٹے کذاب اور مفتری بلکہ دشمن اسلام ہیں، ہرگز ان کی خرافات پر کان نہ دھرنا چاہئیے۔ جس صورت میں «قتل» کا لفظ مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ پاک نے مکہ والوں کو قتل سے بچا لیا۔ بلکہ قتل و غارت کو یہاں حرام قرار د ے دیا۔ اور لفظ «فيل» کی صورت میں اس قصے کی طرف اشارہ ہے جو قرآن پاک کی سورۃ فیل میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت میں حبش کا بادشاہ ابرہ نامی بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا مگر اللہ پاک نے راستے ہی میں ان کو ابابیل پرندوں کی کنکریوں کے ذریعے ہلاک کر ڈالا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 112   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔) (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح:
«حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔
«الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔
«وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔
«سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔
«لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔
«وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔
«سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔
«أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔
«قَتِيل» یعنی مقتول۔
«فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔
«بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔
«أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ» اذخر کے سوا کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ہمزہ اور خا کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 604   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔) (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح:
«حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔
«الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔
«وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔
«سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔
«لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔
«وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔
«سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔
«أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔
«قَتِيل» یعنی مقتول۔
«فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔
«بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔
«أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ» اذخر کے سوا کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ہمزہ اور خا کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 604   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3305  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

جم ہور کے نزدیک مکہ میں گری پڑی چیز وہی اٹھا سکتا ہے جس نے ہمیشہ ہمیشہ تشہیر اور اعلان کرناہو،
جو ایسا نہیں کرسکتا،
وہ نہ اٹھائے،
لیکن احناف،
اکثرمالکیہ اور بعض شوافع کے نزدیک،
اس کا حکم بھی باقی علاقوں جیسا ہے اوریہاں مقصد بالغہ ہے اور اس تصور وخیال کو ختم کرتا ہے کہ حاجی مختلف اکناف واطراف سے آتے ہیں اور پتہ نہیں یہ کس کی چیز ہے،
اس لیے اعلان وتشہیر کا کیا فائدہ،
اس لیے اس وہم کو دور کیا اورفرمایا،
اسکی تشہیر میں عام اصول اورضابطہ کے مطابق ضروری ہے (لُقْطَہ کا حکم اپنے موقع پراور محل پر آئے گا اور ساعت مخصوصہ عصر تک تھی)

جمہور کے نزدیک کانٹے کاٹنا بھی جائز نہیں ہے۔
اور بعض شوافع کا یہ مؤقف درست نہیں ہے کہ تکلیف دہ کانٹے کاٹےجاسکتے ہیں۔
اس طرح شکار کو اس جگہ سے اٹھانا اور پریشان کرنا بھی جائز نہیں ہے،
مالکیہ اور احناف کے نزدیک حرم کی گھاس چرانا بھی جائز نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس طرح اذخر انسانی ضرورت ہے گھاس حیوانوں کی ضرورت ہے۔
اس لیے جانور وں کو چرانا جائز ہے۔

جمہور کے نزدیک قتل اور دیت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے،
لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اختیار قاتل کو ہے،
ظاہربات تو یہ ہے کہ اس کا فیصلہ باہم رضا مندی سے ہوسکتا ہے۔
کیونکہ اصل تو قصاص ہے۔
اب اگر ورثاء دیت قبول نہیں کرتے،
یا قاتل دیت کی ادائیگی پر آمادہ نہیں ہے تو پھر جبر کیسے ممکن ہے۔

حضرت ابوشاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لکھوانے کے سوال سے ثابت ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دور میں لکھنے کا رواج ہو چکا تھا۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو شخصی طور پر لکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ عام حکم دیا کہ:
اُكْتُبُوا لأَبِي شَاه)
ابوشاہ کو لکھ دو،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی احادیث مبارکہ لکھنے کا کام شروع ہو گیا تھا،
لیکن تمام احادیث کو یکجا کرنے کا کام بعد میں ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3305   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.