الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
The Book of Transactions
10. باب ثُبُوتِ خِيَارِ الْمَجْلِسِ لِلْمُتَبَايِعَيْنِ:
10. باب: بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک اس مقام میں رہیں جہاں بیع ہوئی ہے۔
حدیث نمبر: 3855
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا، وكانا جميعا او يخير احدهما الآخر، فإن خير احدهما الآخر فتبايعا على ذلك، فقد وجب البيع، وإن تفرقا بعد ان تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع، فقد وجب البيع ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلَانِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، وَكَانَا جَمِيعًا أَوْ يُخَيِّرُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، فَإِنْ خَيَّرَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ فَتَبَايَعَا عَلَى ذَلِكِ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ، وَإِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ أَنْ تَبَايَعَا وَلَمْ يَتْرُكْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا الْبَيْعَ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ ".
لیث نے ہمیں نافع سے خبر دی، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جب دو آدمی باہم بیع کریں تو دونوں میں سے ہر ایک کو (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے جب تک وہ دونوں جدا نہ ہو جائیں اور اکٹھے ہوں۔ یا ان دونوں میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے، اگر ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے اور اسی پر دونوں بیع کر لیں تو بیع لازم ہو گئی، اور اگر باہم بیع کرنے کے بعد دونوں جدا ہوئے اور ان میں سے کسی نے بیع کو ترک نہیں کیا تو بھی بیع لازم ہو گئی
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی باہمی بیع کر لیں، تو ان میں سے ہر ایک کو بیع کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے، جب تک وہ الگ الگ نہ ہوں اور دونوں اکٹھے ہوں، یا ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے دے، اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو اختیار دے دیا اور اس کے بعد انہوں نے بیع کر لی تو بیع لازم ہو گی، اور اگر بیع کرنے کے بعد دونوں جدا ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بیع کر ختم نہ کیا (نہ چھوڑا) تو بھی بیع ثابت و لازم ہو گئی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1531

   صحيح البخاري2113عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح البخاري2112عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن يتبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   صحيح البخاري2107عبد الله بن عمرالمتبايعين بالخيار في بيعهما ما لم يتفرقا أو يكون البيع خيارا
   صحيح البخاري2111عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح البخاري2109عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يقول أحدهما لصاحبه اختر
   صحيح مسلم3853عبد الله بن عمرالبيعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح مسلم3855عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   صحيح مسلم3857عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   صحيح مسلم3856عبد الله بن عمرإذا تبايع المتبايعان بالبيع فكل واحد منهما بالخيار من بيعه ما لم يتفرقا أو يكون بيعهما عن خيار فإذا كان بيعهما عن خيار فقد وجب
   جامع الترمذي1245عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا
   سنن أبي داود3454عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يفترقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4485عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يكون بيعهما عن خيار
   سنن النسائى الصغرى4471عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يفترقا أو يكون خيارا
   سنن النسائى الصغرى4479عبد الله بن عمرالمتبايعان لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4472عبد الله بن عمرالمتبايعان بالخيار ما لم يفترقا إلا أن يكون البيع كان عن خيار فإن كان البيع عن خيار فقد وجب البيع
   سنن النسائى الصغرى4473عبد الله بن عمرإذا تبايع البيعان فكل واحد منهما بالخيار من بيعه ما لم يفترقا أو يكون بيعهما عن خيار فإن كان عن خيار فقد وجب البيع
   سنن النسائى الصغرى4474عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار ما لم يفترقا أو يقول أحدهما للآخر اختر
   سنن النسائى الصغرى4475عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار حتى يفترقا أو يكون بيع خيار
   سنن النسائى الصغرى4476عبد الله بن عمرالبيعان بالخيار حتى يفترقا أو يكون بيع خيار
   سنن النسائى الصغرى4470عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يفترقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4478عبد الله بن عمرالمتبايعين بالخيار في بيعهما ما لم يفترقا إلا أن يكون البيع خيارا
   سنن النسائى الصغرى4480عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4481عبد الله بن عمركل بيعين فلا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4482عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4483عبد الله بن عمركل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4484عبد الله بن عمركل بيعين فلا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   سنن النسائى الصغرى4477عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار حتى يفترقا وقال مرة أخرى ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع فإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   سنن ابن ماجه2181عبد الله بن عمرإذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يفترقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم488عبد الله بن عمرالمتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار
   بلوغ المرام692عبد الله بن عمر إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يتفرقا وكانا جميعا أو يخير أحدهما الآخر فإن خير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك فقد وجب البيع وإن تفرقا بعد أن تبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع
   المعجم الصغير للطبراني545عبد الله بن عمر كل بيعين لا بيع بينهما ، حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
   مسندالحميدي669عبد الله بن عمرإذا تبايع المتبايعان فكل واحد منهما بالخيار ما لم يفترقا، أو يكون بيعهما على خيار
   مسندالحميدي670عبد الله بن عمرالبائعان بالخيار ما لم يفترقا، أو يكون بيعهما عن خيار، فإذا كان عن خيار فقد وجب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 488  
´بیع خیار کا بیان`
«. . . 241- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو جدا ہو جانے سے پہلے اپنے ساتھی پر حق اختیار رہتا ہے الا یہ کہ (جدا ہو جانے کے بعد بھی) حق اختیار والا سودا ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 488]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2111، ومسلم 1531/43، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اس حدیث میں جدائی سے مراد جسمانی جدائی یعنی تفرق بالا ابدان ہے۔ نافع رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جب ابن (عمر رضی اللہ عنہ) کو سودا پسند آ جاتا تو بیچنے والے سے (دورجاکر) جدا ہوجاتے تھے۔ [صحيح بخاري 2107، صحيح مسلم 1531، دارالسلام: 3856]
➋ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے خلاف اہل مدینہ کا اجماع ہے لیکن ایسے نام نہاد اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے جس سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیر ہ باہر ہیں۔ نیز دیکھئے [التمهيد 9/14]
➌ اس صحیح حدیث کو رد کرتے ہوۓ محمود حسن دیوبندی (اسیر مالٹا) نے کہا:
«و خالف ابوحنيفته فيه الجمهور و كثيراً من الناس من المتقدمين و المتاخرين صنو ارسائل فى ترديد مذهبه فى هذه المسئلة ورجح مولانا شاه ولي الله دهلوي قدس سره فى رسائل مذهب الشافعي من جهته الأحاديث والنصوص و كذلك قال شيخنا مدظله يترجح مذهبه وقال: الحق والانصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسئلة و نحن مقلدون يجب عليان تقليد امامنا ابي حنيفته والله اعلم» ۔
اور اس (مسئلے) میں ابوحنیفہ نے جمہور اور مقتدمین و متاخرین میں سے بہت سوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اس مسئلے میں ان کے مذہب کی تردید میں رسالے لکھے اور مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ نے رسالوں میں احادیث اور دلائل کی وجہ سے (امام) شافعی کے مذہب کو ترجیح دی اور اسی طرح ہمارے شیخ مدظلہ نے کہا: ان کا مذہب راجح ہے، اور کہا: حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ واللہ اعلم [تقريرترمذي ص36 مطبوعه ایچ ایم سعید کمپنی کراچی] غور کریں کہ تقلید نے ان لوگوں کو حق و انصاف اور دلائل سے کتنا دور کر دیا ہے۔!
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 241   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2181  
´بیچنے اور خریدنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں دونوں کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی ایک مجلس میں خرید و فروخت کریں، تو دونوں میں سے ہر ایک کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں، یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو اختیار نہ دیدے، پھر اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دے دیا پھر بھی ان دونوں نے بیع پکی کر لی تو بیع واجب ہو گئی، اس طرح بیع ہو جانے کے بعد اگر وہ دونوں مجلس سے جدا ہو گئے تب بھی بیع لازم ہو گئی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2181]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سودا طے پا جانےکے بعد جب قیمت ادا کرکے چیز وصول کر لی جائے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے لیکن ممکن ہے خریدنے والا محسوس کرے کہ یہ سودا اس قیمت پر نہیں ہونا چاہیے تھا، اور وہ چیز واپس کرنا چاہیے یا بیچنے والا محسوس کرے کہ مجھے یہ چیز نہیں بیچنی چاہیے تھی اور وہ واپس لینا چاہیے تو اس صورت ميں سودا ختم کرکے مال اور رقم کا دوبارہ تبادلہ کر لینا چاہیے۔

(2)
  بیچے ہوئے مال کو واپس کر لینا بہت ثواب ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث2199)

(3)
  بیع واپس کرنے کا اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک دونوں ایک مجلس میں موجود رہیں۔

(4)
  اگر ان کے درمیان کوئی مدت طے پاجائے تو واپس لینے دینے کا حق اس مدت تک ہوگا، مثلاً:
خریدنے والا کہے:
اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو میں تین دن تک واپس کردوں گا۔
یا بیچنے والا کہے:
اگر میں کل شام تک واپس نہ لوں تو بعد میں تم سے واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا۔
اس صورت میں مجلس سے الگ ہوجانے کے بعد بھی مذکورہ مدت تک اختیار باقى رہے گا۔

(5)
  اگر انہوں نے مجلس میں بیع واپس نہ کی اور نہ بعد میں واپس کرنے کے لیے کوئی مدت متعین ہوئی تو مجلس برخاست ہوتے ہی دونوں کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2181   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 692  
´بیع میں اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو آدمی آپس میں سودا کرنے لگیں تو جب تک وہ اکٹھے رہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہے، یا ایک دوسرے کو اختیار دیدے، اگر ایک دوسرے کو اختیار دیدے، پھر اس پر سودا طے ہو جائے تو سودا پختہ ہو گیا اور اگر سودا طے کرنے کے بعد ایک دوسرے سے الگ الگ ہو جائیں اور دونوں میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا ہو تو بیع پختہ ہو جائے گی۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 692»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب إذا خير أحدهما صاحبه بعد البيع، حديث:2112، ومسلم، البيوع، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين، حديث:1531.»
تشریح:
1. اس حدیث میں بیوپاری اور سوداگر کو خرید وفروخت کے باقی رکھنے یا توڑنے کا حق دیا گیا ہے۔
2.اختیار یا خیار کے بھی یہی معنی ہیں کہ خریدار اور فروخت کنندہ کو سودا باقی رکھنے یا توڑنے کا حق ہے۔
3.اس کی بہت سی انواع ہیں۔
ان میں سے دو کا بالخصوص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
ایک خیار مجلس جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
دوسری خیار شرط۔
وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک یا دونوں یہ شرط کر لیں کہ اتنی مدت تک سودے کو باقی رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار رہے گا۔
اگر خریدار اسے واپس کرنا چاہے تو فروخت کنندہ کو بغیر لیت ولعل اور حیل وحجت کے واپس لینا ہو گا۔
اس کے علاوہ دو تین صورتیں مزید یہ ہیں: 1.خِیَارِ عَیْب: خریدنے والا کہے کہ اگر اس میں کوئی نقص وعیب ہوا تو میں اسے واپس کرنے کا حق رکھتا ہوں۔
2.خِیَارِ رُؤیَتْ: خریدار کہے کہ سودا تو طے ہوا مگر میں اسے دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا کہ اسے لینا ہے یا نہیں۔
دیکھنے پر اسے یہ سودا منظور نہ ہوا تو بیع منعقد نہ ہوگی۔
3. خِیَارِ تَعَیُّن: خریدار کہے کہ ان میں سے جو چیز یا جو جانور مجھے پسند ہو گا وہ لے لوں گا۔
بہر حال شریعت نے فریقین کے لیے بے شمار آسانیاں اور سہولتیں رکھی ہیں تاکہ کسی طرح جھگڑا اور تنازع نہ ہو۔
خریدنے اور فروخت کرنے میں دونوں کی باہمی رضا مندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 692   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1245  
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی عقد کو فسخ کر نے سے پہلے مجلس عقد سے اگربائع (بیچنے والا) اورمشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طورپر جدا ہوگئے تو بیع پکی ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیارحاصل نہیں ہوگا۔

2؎:
اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا،
یعنی خیارکی شرط کرلی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیارباقی رہے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1245   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3454  
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں ۱؎ مگر جب بیع خیار ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3454]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اسے اصطلاحا خیار مجلس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اوراس کا تعلق بیع کی جگہ سے علیحدہ علیحدہ ہوجانے سے ہے نہ کہ بیع کا موضوع بدلنےسے۔
البتہ اگر کم یا زیادہ کسی متعین مدت تک کےلیے اختیار کا فیصلہ کرلیا گیا ہوتو الگ با ت ہے۔
ایسی صورت میں متعینہ مدت ہی معتبر ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3454   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3855  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر دو آدمی کسی چیز کی خرید و فروخت کرتے ہیں،
اور ان کا معاملہ باہمی طے ہو جاتا ہے تو وہ جب تک جس جگہ بیع ہوئی ہے وہیں موجود ہیں،
تو ان دونوں (فروخت کرنے والا اور خریدنے والا)
کو اس سودا کو فسخ کرنے کا (توڑنے والا ختم کرنے کا)
حق حاصل ہے۔
اس کو خیار مجلس کا نام دیا جاتا ہے،
حدیث کے لفظ كَانَا جَمِيْعًا،
مَالَمْ يَتَفَرَّقَا کی توضیح و تفسیر کرتے ہیں کہ تفرق سے مراد،
تَفرق بِالأَبْدْان ہے،
یعنی دونوں اس جگہ سے الگ الگ نہیں ہوئے۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا یہی معنی سمجھا ہے اور اس کے دوسرے راوی حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ ہیں،
انہوں نے بھی یہی معنی لیا ہے۔
احناف کا اصول یہ ہے کہ راوی کی رائے اور فہم مقدم ہے،
اسی اصول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہاں تفرق بِالأَبْدَان مراد ہے کیونکہ حضرت ابن عمر سودہ پختہ کرنے کے لیے مجلس بیع سے الگ ہو جاتے تھے۔
نیز حدیث کے الفاظ او يخيرا احدهما الآخر،
ان میں سے ایک دوسرے کو اختیار دے،
اور إِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ ان تَبَايَعَا وَلَمْ يَترك وَاحِد مِنْهما البيع،
اگر بیع کے بعد وہ دونوں الگ ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بھی بیع کو ختم نہیں کیا،
فَقَد وَجَبَ الْبَيْع،
تو بیع لازم ہو گئی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،
نیز حدیث میں اختیار،
بیع کے بعد دیا گیا ہے،
اور بیع ایجاب و قبول دونوں کے بعد ہوتی ہے،
اس لیے فریقین کو معاملہ بیع،
فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رہتا ہے،
جب تک وہ دونوں اسی جگہ موجود رہیں جہاں سودا طے پایا ہے،
لیکن اگر کوئی ایک بھی اس جگہ سے ہٹ جائے اور چلایا جائے یا الگ ہو جائے تو فسخ کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
امام شافعی،
امام احمد،
اہل ظاہر اور محدثین کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ (احناف)
امام مالک (مالکیہ)
کے نزدیک،
تفرق سے مراد تَفرق بالأقوال ہے،
یعنی جب بائع (فروخت کرنے والا)
نے کہا،
میں یہ چیز اتنے میں فروخت کرتا ہوں،
تو اب مشتری (خریدار)
کو اختیار ہے۔
وہ اس قول کو قبول کرے یا نہ کرے،
حالانکہ جب تک سودا طے نہ ہوا تو بیع ہوئی ہی نہیں ہے،
پھر اختیار کا کیا مطلب ہے؟ مالکیہ کہتے ہیں تفرق بالأبدان والا معنی،
عمل اہل مدینہ کے خلاف ہے،
تو کیا ابن عمر،
ابو برزہ،
امام زہری،
ابن ابی ذئب سب مدنی نہیں ہیں،
احناف نے اس حدیث کی تین تاویلیں کی ہیں:
(1)
اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ جب مجلس میں ایک فریق نے بیع کا معاملہ پیش کیا،
تو جب تک مجلس برقرار رہے،
وہ الگ الگ نہیں ہوتے تو دوسرے فریق کو بیع کے قبول کرنے کا اختیار ہے،
مجلس ختم ہونے کے بعد قبول کرنے کا اختیار ختم ہو جائے،
تو جب تک دوسرے فریق نے سودا قبول ہی نہیں کیا تو یہ بیع کیسے ہو گئی؟ (2)
تفرق بالأبدان سے مراد،
تفرق بالأقوال ہے،
کیونکہ جب سودا طے ہو گیا،
تو الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن اگر الگ الگ نہ ہوں تو کیا تفرق بالأبدان ہو گا؟ (3)
خیار مجلس سے مراد،
اقالہ ہے،
یعنی جب بیع کا معاملہ طے پا گیا اور اس کے بعد کسی فریق نے اپنی مصلحت سے معاملہ فسخ کرنا چاہا تو دوسرا فریق اگرچہ قانون شریعت کے تحت،
مجبور نہیں ہے کہ وہ اس کے لیے رضا مند ہو جائے،
لیکن اس کو اخلاقی طور پر اس پر راضی ہو جانا چاہیے،
ظاہر ہے یہاں پر ایک فریق کو اختیار نہیں ہے،
کیونکہ وہ دوسرے فریق کی رضا مندی کا پابند ہے،
اس لیے علامہ تقی عثمانی احناف کے تمام دلائل لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ احناف نے اس حدیث کے سلسلہ میں جتنے عذر پیش کیے ہیں،
حقیقت یہ ہے دل ان پر مطمئن نہیں ہے۔
ففي جميع دلائلهم و تاويلاتهم عندي نظر،
ان کے تمام دلائل اور تاویلات میرے نزدیک محل نظر ہیں،
کیونکہ خود ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے تفرق ابدان اور خیار مجلس مراد لیا ہے۔
(تکملہ فتح الملم:
ج 1 ص 373)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3855   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.