170 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا الزهري قال: اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة قالت: «كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس طالعة في حجرتي لم يظهر الفيء عليها بعد» 170 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ طَالِعَةٌ فِي حُجْرَتِي لَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ عَلَيْهَا بَعْدُ»
170- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کرلیتے تھے حالانکہ سورج ابھی میرے حجرے میں بلند ہوتا تھا اور سایہ ظاہر نہیں ہوا ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 522، ومسلم: 611، وابن حبان فى ”صحيحه“: 1521، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4420»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:170
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عصر پڑھنے میں جلدی کرنی چاہیے، نماز عصر کا وقت ایک مثل سے شروع ہو جاتا ہے۔ نیز اس سے سایہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے نمازوں کے اوقات معلوم کیے جاتے ہیں۔ آج کل گھڑیاں عام ہوگئی ہیں، اس لیے کوئی سائے سے وقت کا تعین نہیں کرتا۔ نیز اللہ تعالیٰ کے نظام شمسی کے مربوط ہونے کا یقین حاصل ہوتا ہے کہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی نہیں بلکہ روز اول سے لے کر اب تک اللہ کے حکم کے مطابق مسلسل اپنی منزلیں طے کر رہے ہیں، سبحان اللہ، اس کو اور ساری کائنات کے نظام کو چلانے والا اللہ ہے، ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ نظام کائنات کو چلانے والا وہ صرف ایک ہی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 170