الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات
حدیث نمبر: 177
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
177 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا محمد بن عمرو بن علقمة الليثي، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة قالت: «كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يصلي صلاته من الليل وانا معترضة بينه وبين القبلة، فإذا اراد ان يوتر حركني برجله، وكان يصلي الركعتين، فإن كنت مستيقظة حدثني، وإلا اضطجع حتي يقوم إلي الصلاة» وكان سفيان يشك في حديث ابي النضر يضطرب فيه، وربما شك في حديث زياد ويقول: يختلط علي ثم قال لنا غير مرة: حديث ابي النضر كذا، وحديث زياد كذا، وحديث محمد بن عمرو بن علقمة كذا علي ما ذكرت كل ذلك177 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ حَرَّكَنِي بِرِجْلِهِ، وَكَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ، فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي، وَإِلَّا اضْطَجَعَ حَتَّي يَقُومَ إِلَي الصَّلَاةِ» وَكَانَ سُفْيَانُ يَشُكُّ فِي حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ يَضْطَرِبُ فِيهِ، وَرُبَّمَا شَكَّ فِي حَدِيثِ زِيَادٍ وَيَقُولُ: يَخْتَلِطُ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ لَنَا غَيْرَ مَرَّةٍ: حَدِيثُ أَبِي النَّضْرِ كَذَا، وَحَدِيثُ زِيَادٍ كَذَا، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ كَذَا عَلَي مَا ذَكَرْتُ كُلَّ ذَلِكَ
177- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نفل نماز ادا کیا کرتے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان چوڑائی کی سمت میں لیٹی ہوتی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وتر ادار کرنے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاؤں کے ذریعے مجھے حرکت دیتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات نماز ادا کرتے تھے اگر میں جاگ رہی ہوتی، تو میرے ساتھ بات چیت کرلیتے تھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ جاتے تھے، پھر (تھوڑی دیر بعد) نماز (فجر باجماعت ادا کرنے کے لیے) تشریف لے جاتے تھے۔
سفیان نامی راوی نے نضر کے حوالے سے منقول روایت میں شک کا بھی اظہار کیا ہے اور اضطراب بھی ظاہر کیا ہے بعض اوقات وہ زیادہ سے بھی منقول روایت میں شک کا اظہار کردیتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں: یہ روایت مجھ سے خلط ملط ہوگئی ہے، پھر انہوں نے کئی مرتبہ ہم سے یہ کہا: ابونظر کی حدیث اس طرح ہے، جبکہ زیادہ منقول روایت اس طرح ہے اور محمد بن عمرو کے حوالے سے منقول روایت اس طرح ہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے میں نے ذکر کردیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده حسن، وأخرجه البخاري 384، 512 ومسلم: 512، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 2341، 2342، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4490، 4491، 4820، 4888»

   صحيح البخاري384موضع إرسالمعترضة بينه وبين القبلة على الفراش الذي ينامان عليه
   مسندالحميدي177موضع إرسالكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي صلاته من الليل وأنا معترضة بينه وبين القبلة، فإذا أراد أن يوتر حركني برجله، وكان يصلي الركعتين، فإن كنت مستيقظة حدثني، وإلا اضطجع حتى يقوم إلى الصلاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:177  
فائدہ:
اس حدیث سے نماز وتر کی اہمیت ثابت ہوتی ہے کہ اگر معلوم ہو کہ فلاں سونے والے نے وتر نہیں پڑھے تو اس کو اذان فجر سے پہلے بیدار کر دینا چاہیے۔ بعض لوگ نماز وتر کو واجب کہتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: یہ احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ وتر کو بندوں پر واجب قرار دینے والا ان پر چھ نمازیں واجب کر نے والا ہے۔ (صـحـيـح ابـن خـزيـمـه: 137/2) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے دس احادیث سے استدلال کیا ہے کہ نماز وتر فرض نہیں ہے۔ وہ ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: وتر فرض نہیں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند دن پہلے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا کہ وہ انھیں بتلائیں: بے شک اللہ تعالیٰ ٰ نے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وتر فرض ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی لوگوں کے لیے واضح کر دیتے۔ (صحیح ابن حبان: 5/65، 66)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 177   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.