وہ روایات جن میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا۔
486 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمرو قال: اخبرني ابو معبد قال: سمعت ابن عباس يقول: «ما كنا نعرف انقضاء صلاة رسول الله صلي الله عليه وسلم إلا بالتكبير» قال عمرو فذكرت بعد ذلك لابي معبد فانكره، وقال: لم احدثك به فقلت: بلي قد حدثتنيه قبل هذا قال سفيان كانه خشي علي نفسه486 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرٌو قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مَعْبَدٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: «مَا كُنَّا نَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِالتَّكْبِيرِ» قَالَ عَمْرٌو فَذَكَرْتُ بَعْدَ ذَلِكَ لِأَبِي مَعْبَدٍ فَأَنْكَرَهُ، وَقَالَ: لَمْ أُحَدِّثْكَ بِهِ فَقُلْتُ: بَلَي قَدْ حَدَّثْتَنِيهِ قَبْلَ هَذَا قَالَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ خَشِيَ عَلَي نَفْسِهِ
486- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کا پتہ تکبیر کے ذریعے چلتا تھا۔ عمرو بن دینار نامی راوی یہ کہتے ہیں: میں اپنے استاد ابومعمر کے سامنے یہ روایت ذکر کی، تو انہوں نے ا کا انکار کردیا اور بولے: میں نے تو یہ حدیث تمہیں نہیں سنائی ہے، میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ اس سے قبل یہ حدیث مجھے سنا چکے ہیں۔ سفیان کہتے ہیں: گویا انہیں اپنی ذات کے حوالے سے اندیشہ تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 842، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 583، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1706، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2232، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1336، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1259، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1002، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3062، 3063 وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1958، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2392»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:486
486- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کا پتہ تکبیر کے ذریعے چلتا تھا۔ عمرو بن دینار نامی راوی یہ کہتے ہیں: میں اپنے استاد ابومعمر کے سامنے یہ روایت ذکر کی، تو انہوں نے ا کا انکار کردیا اور بولے: میں نے تو یہ حدیث تمہیں نہیں سنائی ہے، میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ اس سے قبل یہ حدیث مجھے سنا چکے ہیں۔ سفیان کہتے ہیں: گویا انہیں اپنی ذات کے حوالے سے اندیشہ تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:486]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا چاہیے، لیکن آج کل بعض لوگوں نے سنت کو چھوڑ کر بدعت کو اختیار کر لیا ہے کہ اللہ اکبر کو چھوڑ کر سلام کے بعد «لا اله الا الله» کا ورد سب مل کر بلند آواز سے کرتے ہیں یا اللہ ھو اللہ ھو کی ضربیں لگانا شروع کر دیتے ہیں یہ قطعی طور پر غیر شرعی کام ہیں، نماز کے مکمل ہونے کے بعد اونچی آواز میں اللہ اکبر کہنا مسنون ہے۔ شیخ ابوعمر عبدالعزیز نورستانی حفطہ اللہ نے اس مسئلہ پرمستقل رسالہ لکھا ہے جو لائق مطالعہ ہے۔ انظر [سلسلة مجموع الرسائل الشيخ نورستاني صفحہ: 400 تا 426]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 486