الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی منقول حج سےمتعلق روایات
حدیث نمبر: 525
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
525 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا ايوب السختياني قال: اخبرني عبد الله بن سعيد بن جبير، عن ابيه، عن ابن عباس قدم النبي صلي الله عليه وسلم المدينة واليهود تصوم يوم عاشوراء فقال: «ما هذا اليوم الذي تصومونه؟» قال: هذا يوم عظيم انجي الله فيه موسي واغرق آل فرعون فيه فصامه موسي شكرا فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «فنحن احق بموسي منكم فصامه وامر بصيامه» 525 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا أَيُّوبُ السِّخْتِيَانِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَالِيَهُودُ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ: «مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ؟» قَالَ: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ أَنْجَي اللَّهُ فِيهِ مُوسَي وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ فِيهِ فَصَامَهُ مُوسَي شُكْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَنَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَي مِنْكُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ»
525- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تم لوگ اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے بتایا: یہ وہ عظیم دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا کی تھی اور فرعون کے لشکریوں کو اس دن ڈبو دیا تھا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کے مقابلے میں ہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2004، 3397، 3943، 4680، 4737، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1130، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2084، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3625، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2847، 2848، 2849، 11173، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2444، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1800، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1734، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2567، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2688، برقم: 2876»

   صحيح البخاري3943عبد الله بن عباسنحن أولى بموسى منكم ثم أمر بصومه
   صحيح البخاري4680عبد الله بن عباسأنتم أحق بموسى منهم فصوموا
   صحيح البخاري3397عبد الله بن عباسأنا أولى بموسى منهم فصامه وأمر بصيامه
   صحيح البخاري4737عبد الله بن عباسنحن أولى بموسى منهم فصوموه
   صحيح البخاري2004عبد الله بن عباسأنا أحق بموسى منكم فصامه وأمر بصيامه
   صحيح مسلم2656عبد الله بن عباسنحن أولى بموسى منكم فأمر بصومه
   صحيح مسلم2658عبد الله بن عباسنحن أحق وأولى بموسى منكم فصامه رسول الله وأمر بصيامه
   جامع الترمذي755عبد الله بن عباسبصوم عاشوراء يوم العاشر
   سنن أبي داود2444عبد الله بن عباسنحن أولى بموسى منكم وأمر بصيامه
   سنن ابن ماجه1734عبد الله بن عباسنحن أحق بموسى منكم فصامه وأمر بصيامه
   مسندالحميدي525عبد الله بن عباسما هذا اليوم الذي تصومونه؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:525  
525- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تم لوگ اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے بتایا: یہ وہ عظیم دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا کی تھی اور فرعون کے لشکریوں کو اس دن ڈبو دیا تھا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کے مقابلے میں ہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور آپ ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:525]
فائدہ:
اس حدیث میں یوم عاشوراء کے روزے کا ذکر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صوم عاشوراء کا آغاز موسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات عطا کی تھی تو انہوں نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ سیدنا ابن عباس رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْا بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے، آپ نے یہود کو دیکھا کہ وہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے (شکرانے کے طور پر) اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «انـا احـق بـموسى منكم فصامه و امر بصيامه» موسیٰ کا میں تم سے زیادہ حق دار ہوں، لہٰذا آپ نے خوداس دن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ [صحيح البخاري ح: 2004 صحيح مسلم ح: 1130]
احادیث میں اس روزہ کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، ارشاد نبوی ہے: «صيام يوم عاشوراء احتسب عـلـى الله ان يكفر السنة التى قبله» [صحيح مسلم ح: 1162]
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «يـكـفـر السـنة الماضية» [صحيح مسلم ح: 1162] یہ روزہ گزرے ہوۓ ایک سال کا کفارہ ہے۔
اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں اس طرح ہے۔ ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل خیبر (یہود) یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس دن کو عید کا دن بنا لیتے، اپنی عورتوں کو زیورات پہناتے اور انھیں سنوارتے اور سنگھارتے تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فصوموه انتم» [صحيح بخاري ح: 2005 صـحـيـح مسلم ح: 1131] تم لوگ اس دن کا روزہ (ہی) رکھو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو محرم کا روزہ رکھنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فاذا كان العام المقبل- ان شاء الله ـ صمنا اليوم التاسع» [صحيح مسلم ح 11134] جب آئندہ سال آئے گا تو ہم ان شاء اللہ نو تاریخ کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔ مگر اگلا سال آنے سے پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔
ایک اور حدیث میں ہے: «لئن بقيت الي قابل لاصـو من التاسع» [صحيح مسلم ح: 1134] اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو تاریخ کا ضرور روزہ رکھوں گا۔
حکم بن اعرج کہتے ہیں: میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو آپ زمزم کے کنارے اپنی چادر کا تکیہ بنائے تشریف فرما تھے، میں نے آپ سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: جب ماہ محرم کا چاند دیکھو تو دن شمار کرتے رہو جب نویں تاریخ ہو تو روزہ رکھو۔ [مسلم ح: 1133 ابوداؤد ح: 2446 الله ترمذي ح: 754]
ہمارے نزدیک یہی مؤقف راجح ہے کہ اب امت مسلمہ کو نو کا روزہ رکھنا چاہیے۔ دوسرا موقف جمہور کا ہے کہ نو اور دس کا روزہ مراد ہے۔
① امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم (ح: 1133) میں لکھتے ہیں: مشاہیر علمائے سلف و خلف کا مؤقف یہ ہے کہ عاشوراء دسویں تاریخ ہے اور سعید بن مسیب، حسن بصری، امام أحمد اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے، ظاہر احادیث سے اور مقتضائے لفظ سے یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ عاشوراء عشر سے مشتق ہے اور عشر دس کو کہتے ہیں اور امام شافعی، ان کے اصحاب، امام أحمد، اسحاق رحمہ اللہ علیہم اور دوسرے علماء کا قول ہے کہ نویں اور دسویں دونوں کا روزہ مستحب ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں کا روزہ رکھا تھا اور نو میں تاریخ کو روزہ رکھنے کی نیت کی تھی۔ اتنے میں آپ کی وفات ہوگئی اور حدیث مسلم میں گزرا ہے کہ افضل صیام بعد رمضان کے صیام (شہراللہ المحرم) ہے اور علماء نے کہا ہے کہ نویں تاریخ کا روزہ ملا لینے سے غرض یہ تھی کہ صرف دسویں کے روزے میں یہود کی مشابہت تھی۔
② حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بعض اہل علم کے بقول مسلم کی حد بیث (آئندہ سال اگر میں زندہ رہا تو، نو محرم کا ضرور روزہ رکھوں گا) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: دس محرم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو تاریخ کا روزہ بھی مقرر کرنا چاہتے تھے مگر آپ کسی بھی صورت کو متعین کرنے سے پہلے وفات پا گئے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ نو اور دس دونوں دنوں کا روزہ رکھا جائے۔ (فتح الباري 4/ 773)
جناب عطاء سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں: نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ [البيهقي 4/ 287]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 525   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.