الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
96. بَابُ : الزِّيَادَةِ عَلَى الْقَبْرِ
96. باب: قبر اونچی کرنے کے حکم کا بیان۔
Chapter: Making The Grave Larger
حدیث نمبر: 2029
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا هارون بن إسحاق، قال: حدثنا حفص، عن ابن جريج، عن سليمان بن موسى، وابي الزبير , عن جابر، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبنى على القبر او يزاد عليه او يجصص زاد سليمان بن موسى او يكتب عليه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، قال: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، وَأَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ، قال:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبْنَى عَلَى الْقَبْرِ أَوْ يُزَادَ عَلَيْهِ أَوْ يُجَصَّصَ زَادَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَوْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر پر قبہ بنایا جائے یا اس کو اونچا کیا جائے، یا اس کو پختہ بنایا جائے، سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں یا اس پر لکھا جائے کا اضافہ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 32 (970)، سنن ابی داود/الجنائز 76 (3225)، سنن الترمذی/الجنائز 58 (1052)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 43 (1562، 1563)، (تحفة الأشراف: 2274، 2796)، مسند احمد 3/295، 332، 399 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ نہی مطلق ہے، اس میں میت کا نام اور اس کی تاریخ وفات تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں، اور اسماء حسنٰی وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں اور یہ سب کچھ منع ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   سنن النسائى الصغرى2029جابر بن عبد اللهيبنى على القبر يزاد عليه يجصص يكتب عليه
   سنن النسائى الصغرى2030جابر بن عبد اللهتقصيص القبور يبنى عليها يجلس عليها أحد
   سنن النسائى الصغرى2031جابر بن عبد اللهتجصيص القبور
   صحيح مسلم2247جابر بن عبد اللهتقصيص القبور
   صحيح مسلم2245جابر بن عبد اللهأن يجصص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه
   جامع الترمذي1052جابر بن عبد اللهتجصص القبور يكتب عليها يبنى عليها توطأ
   سنن أبي داود3225جابر بن عبد اللهيقعد على القبر يقصص يبنى عليه
   سنن ابن ماجه1562جابر بن عبد اللهتقصيص القبور

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2029  
´قبر اونچی کرنے کے حکم کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر پر قبہ بنایا جائے یا اس کو اونچا کیا جائے، یا اس کو پختہ بنایا جائے، سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں یا اس پر لکھا جائے کا اضافہ ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2029]
اردو حاشہ:
(1) عمارت یعنی قبر کو عمارت کی طرح اونچا بنانا یا قبر کے ارد گرد عمارت بنانا، خواہ قبر کی حفاظت کے لیے ہو یا زائرین کی سہولت کے لیے، بہرصورت منع ہے کیونکہ اس طرح قبر دیر تک باقی رہے گی۔ بعد میں آنے والوں کو تنگی ہوگی، نیز یہ قبر کی پوجا پاٹ کا سبب ہے۔ آج کل ایسی قبریں مجرموں اور نشیٔ لوگوں کا اڈہ بنی ہوئی ہیں۔
(2) اضافہ قبر سے نکلنے والی مٹی کے علاوہ اور مٹی ڈالنا منع ہے کیونکہ اس طرح قبر شرعی حد سے بلند ہو جائے گی اور اسے ختم ہونے میں دیر لگے گی۔ یا اس سے مراد ضرورت سے زیادہ لمبی چوڑی قبر بنانا ہے، یہ بھی منع ہے کیونکہ اس سے جگہ تنگ ہوگی اور دوسرے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، نیز بے مقصد جگہ ضائع ہوگی۔
(3) تحصیص، یعنی چونے وغیرہ سے پختہ کرنا کیونکہ اس سے مضبوطی اور پائیداری ہوتی ہے جبکہ شریعت کا منشا یہ ہے کہ قبر کچھ دیر کے لیے رہے، پھر ختم ہو جائے تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ خالی ہو۔ بعض علماء نے مٹی کے ساتھ قبر لیپنے کی اجازت دی ہے مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مٹی قبر کی مٹی کے علاوہ نہ ہو بلکہ قبر ہی کی مٹی پر پانی ڈال کر ہاتھ پھیر دیا جائے، البتہ اگر کوئی قبر بیٹھ کر گڑھا بن جائے تو اسے الگ مٹی سے پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مجبوری ہے۔
(4) لکھا جائے مثلاً: نام و نسب اور پتہ وغیرہ یا تاریخ وفات یا قرآن مجید کی آیات یا احادیث وغیرہ، گویا کچھ بھی لکھنا منع ہے کیونکہ یہ چیز قبر کو عرصۂ دراز تک باقی رکھنے کا سبب بنے گی۔ قرآن مجید وغیرہ لکھنا، اس لیے بھی منع ہے کہ قبر میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے اور یہ الفاظ مقدسہ کی بے حرمتی کا سبب بنے گی، نیز متعلقین کو تو قبر بغیر کتابت کے بھی معلوم ہوتی ہے اور عوام الناس کو اس اعلان کا کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا لکھنا فضول ہے بلکہ ریا کاری ہے۔
(5) عوام الناس میں کسی چیز کا رائج ہو جانا اس کے جواز کی دلیل نہیں جبکہ وہ صریح فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو جیسے مندرجہ بالا چیزیں۔ شرک بھی تو ہر دور میں محبوب عوام رہا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2029   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1562  
´قبروں پر عمارت بنانے، ان کو پختہ کرنے اور ان پر کتبہ لگانے کی ممانعت۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
فائده:
چونا گچ کرنا گزشتہ زمانے میں عمارت میں پختگی پیدا کرنے کاطریقہ تھا آج کل اس مقصد کےلئے سیمنٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
قبر پر صرف قبر کے گڑھے سے نکلی ہوئی مٹی ڈالنا کافی ہے۔
مزید مٹی ڈالنا یا قبر کو پختہ کرنا منع ہے۔
اس لحاظ سے اس پر کمرہ قبے وغیرہ تعمیر کرنا بالاولیٰ منع ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1562   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1052  
´قبریں پختہ کرنے اور ان پر لکھنے کی ممانعت۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۱؎، ان پر لکھا جائے ۲؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۳؎ اور انہیں روندا جائے ۴؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1052]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس ممانعت کی وجہ ایک تویہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچادیتی ہے۔

2؎:
یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اورتبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اوراسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔

3؎:
مثلاً قبّہ وغیرہ۔

4؎:
یہ ممانعت میت کی توقیروتکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل وتوہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1052   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3225  
´قبر پر عمارت بنانا۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر پر بیٹھنے ۱؎، اسے پختہ بنانے، اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرماتے سنا ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3225]
فوائد ومسائل:
قبر کے عین اوپر بیٹھنا یا اظہار غم میں اس کا مجاور بن جانا حرام ہے۔
ایسے ہی اسے پختہ کرنا یا اس پر قبہ وغیرہ بنانا حرام ہے۔
کسی ضرورت کے تحت قبر کے پاس بیٹھ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
(دیکھئے حدیث 3212)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3225   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.